The news is by your side.

چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں

فرانس کا دارالحکومت پیرس جمعے اورہفتے کی درمیانی شب  گولیوں کی تڑتڑاہٹ اوردھماکوں سے گونج اٹھا دہشت گردوں نے انتہائی منظم، منصوبہ بندی کے ساتھ یورپ کے ثقافتی مرکز کے چھ مقامات پر حملہ کیا جس میں فٹبال اسٹیڈیم، پزا سنٹر، جاپانی ہوٹل، کمبوڈین ریستوران سمیت کل سات مقامات کو نشانہ بنایا گیا جس میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 129 جبکہ دیگر ذرائع کے مطابق 160 افراد ہلاک ہوئے اور 300 سے زائد زخمی ہیں۔ 9/11کے بعد مغرب میں یقیناً یہ اب تک کی سب سے بڑی دہشت کاروائی ہے جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی اور اس واقعے نے ساری دنیا کو ششدرکرکے رکھ دیا ہے۔

فرانس نے واقعے کے فوراً بعد اپنی سرحدیں سیل کرکے پیرس میں کرفیونافذ کردیا اورپھرساری دنیا سے واقعے کی مذمت اورذمہ داروں کے خلاف کاروائی کے مطالبے سامنے آنے لگے جو کہ حق بجانب بھی ہیں کہ کاروائی واقعی انسانیت سوزہے، 160 انسانی جانوں کا ضیاع واقعی لرزہ خیز ہے اوراس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔


غم یا تووہ سمجھتا ہے جس کا ہویاپھر اسے اصل ادراک ہوتا ہے جس پراسی نوعیت کا غم بیتا ہو لہذا 2001 کے بعد کی بدلتی دنیا میں دہشت گردی کا سب سے زیادہ نشانہ بننے والی پاکستان قوم نے بھی حکومت اورعوامی سطح پراس بے رحمانہ کاروائی کی بھرپور مذمت کی اوردنیا بھرمیں پھیلےدہشت گردوں کو دائمی شکست دینے  تک دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا، واقعی یہ ہماری ہی قوم کا ظرف ہے کہ اس جنگ میں ہزاروں کی تعداد میں لاشے اٹھانے کے بعد بھی دہشت گردی کے خلاف اسی عزم و حوصلے سے صف آراء ہے کہ جس کے لئے لوہے کا جگردرکارہے۔


اے پی ایس حملے کے بعد پاک فوج نے دہشت گردوں اوران کے

حامیوں کے ساتھ آخری اورفیصلہ کن جنگ لڑںےکا فیصلہ کیا


سماجی میڈیا پریہ خبرگویا قیامت کا اعلان ثابت ہوئی اوردنیا میں سماجی رابطے کی ویب سائٹس استعمال کرنےوالے تقریباً ہرشخص نے ہی دہشت گردی کے ہولناک واقعے کی مذمت کی ہے جس نے فرانس میں 160 گھراجاڑدئیے یہاں تک کہ سماجی رابطے کی سب سے معروف ویب سائٹ ’فیس بک‘ نے تو فرانسیسی عوام سے اظہارِ یکجہتی کےلئے ’پروفائل امیج‘ کو فرانسیسی پرچم کے رنگ میں رنگنے کے آپشن بھی فوری طورپردے دیا اورکیوں نا کریں کہ سانحہ پیرس جنگ عظیم دوئم کے بعد یورپ کی تاریخ کا سب سے بڑا انسانی المیہ ہے، پاکستان کے عوام کی بڑی تعداد نے فرانسیسی مقتولین سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے اپنی پروفائل امیج کو فرانسیسی پرچم کے رنگ میں رنگ لیا جو کہ قاتل کی مذمت اورمقتول کی حمایت کا واضح ثبوت ہے۔

دیگرتمام پاکستانیوں کی طرح مجھے بھی پیرس کے مقتولین سےہمدردی اورقاتلوں سے نفرت ہے تاہم میں صرف حال میں نہیں رہتا بلکہ ماضی بھی یادرکھتا ہوں اور حتی الامکان مستقبل کوبھی سمجھنے کی کوشش میں غلطاں رہتا ہوں، زیادہ پرانی بات تو نہیں ہے جب پاکستان میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہونے والے شہر پشاور پر دہشت گردوں نے ایک خونخوار حملہ کیا جس میں 132معصوم بچوں سمیت 140 افراد ہلاک ہوئے، مذمت کا شور اس وقت بھی اٹھا تھا، دہشت گردوں کو منطقی انجام تک پہچانے کی بعد اس وقت بھی ہوئی تھی لیکن اس میں وہ شدت نہیں تھی جو آج ہے ، تب پوپ نے اے پی ایس حملے کو عالمی جنگ کا پیش خیمہ نہیں قراردیا تھا، تب فیس بک نے پروفائل امیج کو پاکستانی پرچم کے رنگ میں رنگنے کا آپشن نہیں دیا تھا اور نہ ہی سعودی عرب اور ایران نے اس موقع پر طالبان کو خاک میں ملانے کے لئے پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا عندیہ دیا تھا۔

اے پی ایس حملے کے بعد پاک فوج نے دہشت گردوں اوران کے حامیوں کے ساتھ آخری اورفیصلہ کن جنگ لڑںےکا فیصلہ کیا جس کو ساری دنیا نے سراہا اورالحمدللہ ضربِ عضب کے نام سے جاری یہ فیصلہ کن جنگ انتہائی کامیابی سے جاری ہے۔

دہشت گردی کے خاتمے تک چین سے نہ بیٹھنے کا عزم رکھنے والے امریکہ، فرانس، برطانیہ اوردیگرعالمی طاقتوں نے جنگ کے اس مرحلے کو سراہا ضرور تاہم اسے کامیابی سے ہمکنارکرنے کے لئے عملی اقدامات نہیں اٹھائے جو کہ عالمی طاقتوں کا فریضہ تھا۔ نہ تو افغانستان پردباوٗ ڈالا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں پاکستان کی بھرپور معاونت کی گئی اور نہ ہی پاکستان کے بہتر ہوتے حالات سے نالاں بھارت کو لگام دی گئی کہ جنگ کے اس مشکل مرحلے میں لائن آف کنٹرول پرپاک فوج کے ساتھ محاذ آرائی کرکے ان کی مشکلات میں اضافہ نا کیا جائے۔ اگرعالمی دنیا یہ اقدامات اٹھاتی تو پاکستان مزید سرعت کے ساتھ اپنے دشمنوں سے نمٹ لیتا خیر وہ اپنے حصے کا کام نہ کریں ہم اپنے دشمنوں کومنہ توڑ جواب دینا جانتے ہیں اور دے رہے ہیں بدیرصحیح لیکن ہم اپنے دشمن کوقبر میں دفن کرہی دیں گے۔

لیکن مغرب کا مسئلہ تو داعش ہے جسے انہوں نے شام میں خود پروان چڑھایا اورجب وہ اوقات سے باہر ہوکر اسلامی امارات کے خواب دیکھنے لگے توعراق میں انتہائی دلجمعی سے اورشام میں بے دلی سے اس خون آشام تنظیم کے خلاف کاروائی شروع کی جس کا سبب شام کے صدر بشارالاسد کا منظورِنظرنہ ہونا ہے۔ عالمی طاقتیں گزشتہ پندرہ سال سے برصغیراورمشرقِ وسطیٰ میں بساط بچھا کر دہشت گردی کے نام پراپنے مفادات کی جنگ لڑرہی ہیں جس کے سبب ان خطوں کے عوام اپنے گھروں تک میں محفوظ نہیں ہیں لاکھوں افراد قتل ہوچکے اور کتنے ہی بے گھرہوگئے، مگرمغرب اگر یہ سمجھتا ہے کہ جو آگ مشرقِ وسطیٰ میں بھڑک رہی ہے اگر اس سے آپ کا گھر مکمل طور پر نہیں بھی جلاتو اس کی چنگاریاں آپ تک ضرور آئیں گی جس کی ایک مثال پیرس ہے۔

اب بھی وقت ہے انسان صرف یورپ اور امریکہ میں نہیں بستے بلکہ دنیا کے ہرانسان کو انسان سمجھئے اوروہ قوت جو آپ کو حاصل ہے اسے درست سمت میں استعمال کیجئے اگر آپ اپنےمفادات کے لئے دوسرے ملکوں کے عوام کو جنگ کی آگ کا ایندھن بناتے رہیں گے تو وہ وقت دورنہیں جب آپ کی عوام بھی اس جنگ کو شعلوں کوبھڑکتے دیکھیں گے جیسا کہ پوپ فرانسس نے کہا ہے کہ پیرس حملے تیسری جنگ ِعظیم کا پیش خیمہ ہیں آپ ازخود سوسالہ جنگ بھی لڑچکے ہیں اور جنگِ عظیم اول اور دوئم کی تباہ کاریاں بھی یقیناً  آپ نہیں بھولیں ہوں گے، آپ آج دنیا بھرمیں دہشت گردی کے خلاف دل جمعی سے فیصلہ کیجئے تو کل آپ اورآپ کی آنے والی نسلیں بھی ایک پرامن دنیا میں سانس لیں گی ورنہ معروف شاعر فراز احمد فرازکہ چکے کہ۔۔۔۔۔۔

میں آج زد پہ ہوں اگرتوخوش گماں نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں