The news is by your side.

جو چپ رہے گی زبانِ خنجرلہوپکارے گاآستیں کا

سولہ دسمبر کی شام اپنے دامن میں ملک بھرکی تمام ترافسوسناکیاں سمیٹے ڈھل رہی ہے آج سے ٹھیک ایک سال قبل آرمی پبلک اسکول کے 132 بچوں کوان کے اپنے ہی لہو میں نہلادیا گیا تھا، آج کے دن انسانی تاریخ میں دہشت اوربربریت کا ایسا ہولناک باب رقم کیا گیا تھا جس کی مثالیں ماضی بعید میں تو ممکن ہیں بکھری پڑی ہوں تاہم جدید دورمیں ایسے کسی واقعے کا رونما ہونا تاریخ کے بدترین المیے سے کم نہیں۔

پاکستان کے لئے سولہ دسمبرمحض اے پی ایس کے بچوں کا غم منانے کے دن نہیں بلکہ آج سے چوالیس سال قبل پاکستان دو لخت بھی سولہ دسمبرکو ہی ہوا تھا جو کہ اپنے آپ میں قتل وغارت کی علاحدہ داستانِ غم ہے۔ سمجھ سے باہرہے کہ پرانے غم کو رویا جائے یا تازہ داغ کا مرثیہ کہا جائے کہ چیرہ دستی کوئی بھی کرے ، غفلت یا خطا کسی کی بھی ہو زخم تو پاکستانی قوم کو ہی لگتے ہیں لہو تو اسی ارضِ پاک کا بہتا ہے اورمائیں تو ہماری ہی اپنے بچوں کے غموں کی صلیب اپنے سینے پراٹھاتی ہیں۔

چوالیس سال قبل سقوطِ ڈھاکہ کی تصاویرانتہائی مشکل سے ملتی ہیں تاہم اے پی ایس تو یوں لگتا ہے کہ جیسے کل کی ہی بات ہے گویا غم ہے کہ پرانا ہونے میں ہی نہیں آرہا اوراس غم کی کسک نا صرف یہ کہ ہرصاحبِ دل پاکستانی اپنے سینے میں محسوس کرتا ہے بلکہ اقوامِ عالم میں جس جس کا ضمیر زندہ ہے وہ سوال کررہا ہے کہ کیا پھول سے معصوم بچے بھی کہیں اس طرح قتل کئے جاتے ہیں؟۔

سانحہ اے پی ایس اورسقوطِ ڈھاکہ دونوں ہی اس قوم کے عظیم ترین سانحات ہیں پردونوں سانحات میں ایک بات قدرِ مشترک ہے یہ دونوں سانحات محض اس وجہ سے پیش آئے کہ قوم ایک فیصلہ نہیں کرپارہی تھی اس وقت بحث یہ تھی کہ بنگالی ہمارا حصہ ہیں یا ہم پربوجھ اوراے پی ایس سے پہلے بھی بحث جاری تھی کہ طالبان ہمارے دوست ہیں یا دشمن اوربے یقینی کی اسی صورتحال سے کل بھی پاکستان کے دشمنوں نے فائدہ اٹھایا تھا اورسانحہ اے پی ایس بھی ایس سبب پیش آیا۔

دیرآید درست آید کے مصداق ہزاروں پاکستانیوں کا لہوجو بات پاکستان کی فیصلہ سازقوتوں کونا سمجھا سکا وہ بات اے پی ایس کے معصوم بچے اپنے خون میں نہلا کربڑوں کو سمجھا گئے اچھے اوربرے دہشت گرد کی تفریق ختم ہوئی، سزائے موت پرعائد پابندی کرکے انسانیت کے بدترین مجرموں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچانے کا فیصلہ کیا گیااوردہشت گردوں کے خلاف گھیرا تنگ کیا جانے لگا۔ اگراورمگرہمارے ملک کی سیاست کا اہم جزو ہے لہذااہل قلم افراد کو ان الفاظ سے گریز کرناچاہئےلیکن یہاں میں یہ کہنے پرمجبورہوں کہ اگرسقوطِ ڈھاکہ سے سبق سیکھ لیا جاتا اورقوم کے رہنماقوم کو تفریق کرنے نازیباعمل سے باز آجاتے تودہشت گردی کا یہ عفریت ہماری قوم کو یوں نوچ نوچ کرنہیں کھاتا اوراے پی ایس کے معصوم بچے سولہ دسمبر2015 کی شام سرد خانے آباد کرنے کے بجائے اپنے گھروں کی رونقیں بڑھا رہے ہوتے۔

سانحہ اے پی ایس کے بعد حکومت اورفوج کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کے ثمرات موصول ہونا شروع ہوگئے ہیں اورملک میں امن وامان کی صورتحال کافی بہترہوگئی ہے لیکن سانحہ اے پی ایس کی برسی سے تین روز قبل پارہ چنارمیں ہونے والے دھماکے نے ذہنوں میں کچھ سوال پیدا کئے ہیں جن کے جواب بہرحال کسی نا کسی کو دینے ہوں گے اوراگر کوئی جواب نہیں دے گا تو پھرتاریخ تو ہرسوال کاجواب دیتی رہی ہے اوردیتی رہے گی۔

سوال یہ ہے کہ جب فیصلہ کرلیا گیا کہ دہشت گردوں اوران کے سہولت کاروں کے خلاف بھرپورکاروائی کی جائے گی اور شدت پسند ذہنیت کا سدِباب کیا جائے تو پھراب تک کچھ ایسے عناصرجنہوں نے جھوٹے منہ بھی سانحہ اے پی ایس کی مذمت کرنے کی کوشش نہیں کی جن میں لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیزسرفہرست ہیں آخر کیوں ابھی تک آزاد گھوم رہے ہیں۔

دہشت گردوں کے خلاف تو ملک بھرمیں بھرپورکاروائی کی جارہی ہے لیکن دہشت گردی پر مائل کرنے والی سوچ کے خلاف اب تک کیاکاروائیاں کی گئیں ہیں؟ کیا انتہا پسندانہ ذہنیت کے حامل سیاسی اورمذہبی رہنماوٗں سے بازپرس ہوگی، آیا یہ کہ وہ تمام افرادجوکہ اہم عہدوں پرفائزہوکر دہشت فروں کی سہولت کاری کےفرائض انجام دیتے ہیں ان کے گرد گھیراتنگ کیاجائے گا اورآخری اورسب سے اہم سوال کہ پاکستان کے مورخین سقوطِ ڈھاکہ اورافغان جہاد سے شروع ہونے والے پرآشوب دورکو رقم کرتے وقت پاکستانی عوام کے ان خونخواراوربے رحم دشمنوں کے نام صحیح صحیح رقم کئے جائیں گے کہ ہماری آنے والی نسلیں ہمارے بچوں کو خون میں نہلادینے والے قاتلوں کو بھلا نہ دیں۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں