سعودی عرب میں شیعہ عالم دین شیخ باقرالنمرکوسزائے موت دے دی گئی جس پرایران نے شدید ردعمل کا اظہارکیا، یہاں سے آغاز ہوا ایک ایسے تنازعے کا جوکہ اب عالمی نوعیت اختیارکرنے جارہا ہے۔ تہران میں شیخ النمرکی سزائے موت کے خلاف سعودی ایمبیسی کے باہراحتجاجی مظاہرہ ہوا جس کے دوران سعودی سفارت خانے کو نذرآتش کرنے کی کوشش کی گئی جس کے ردعمل میں سعودی عرب نے ایران سے سفارتی تعلقات منقطع کرلئے اورپھرمعاملہ ایک قدم اورآگے بڑھا اورتجارت معطل کرنے کی بات کی گئی جس کے ردعمل میں ایران نے سعودی مصنوعات پرپابندی عائد کردی۔
یہ تو ہے دونوں ممالک کے درمیان پیش آنے والے واقعات کا سرسری سا جائزہ لیکن سعودی عرب اورایران دو ایسے ممالک ہیں کہ ان کے تعلقات میں معمولی سردمہری سے بھی عالم ِ اسلام کوزکام ہونے لگتا ہے اوراب تو بات سفارت اورتجارت کی معطلی تک آچکی ہے جس کے ردعمل میں کئی عرب ممالک ایران سے سفارتی تعلقات منقطع کرچکے ہیں دوسری جانب ایران کی حمایت میں لبنان نے بھی سعودی عرب سے سفارتی تعلقات منقطع کرلیے ہیں۔
سعودی عرب اورایران کے درمیان جاری اس سرد جنگ میں اگرکوئی ملک سب سے زیادہ مشکلات کاشکارہے تو وہ ہے پاکستان جس کے ایک جانب توسعودی عرب سے انتہائی دوستانہ مراسم ہیں تودوسری جانب ایران پاکستان کا پڑوسی ہے اورتقسیم کے بعد پاکستان کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک بھی ایران ہی ہے۔
پاکستان میں سعودی عرب کے حامی سنی اکثریت میں ہیں جبکہ ایران کے حامی شیعہ بھی کل آبادی کا 20 فیصد ہیں اوراچھی خاصی سیاسی سمجھ اوراثرورسوغ بھی رکھتے ہیں جبکہ پاکستان میں موجود لبرل اپنے حکمرانوں پرزور دے رہےہیں کہ اس معاملے سے دوررہا جائے۔ ایک بات تو طے ہے کہ اگرپاکستان کے فیصلہ ساز ادارے سعودی عرب کی حمایت کا فیصلہ کرتے ہیں تومستقبل بعید میں انہیں مسائل کا سامنا کرناپڑے گااوراگرایران کی حمایت کا فیصلہ کیاگیا تو مستقبل قریب میں پاکستان کے مسائل میں اضافہ ہوجائے گا۔
سعودی عرب نے اس سارے معاملے میں جارحانہ خارجہ پالیسی اپنائی ہوئی ہے اوراس سلسلے میں سعودی وزیرخارجہ عادل الجبیرنے پاکستان کا دورہ کیا جس میں انہوں نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف، وزیراعظم نوازشریف اورمشیرخارجہ سرتاج عزیز سمیت اہم شخصیات سے ملاقات کی اوران ملاقاتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان نے سعودی عرب کی سربراہی میں تشکیل پانے والے چونتیس ملکی اتحاد کی حمایت کی بلکہ سعودی عرب کی جغرافیائی سالمیت کو خطرہ درپیش ہونے کی صورت میں اس کے دفاع کے عزم کا بھی اظہارکیا۔
یہ تو صورتحال جو سب کو نظرآرہی ہے تاہم کچھ اوربھی ہے جس کی پردہ داری ہے۔ کچھ دن قبل اوپیک کا اجلاس ہوا جس میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق آئندہ پانچ سال میں بھی تیل کی تیزی سے گرتی ہوئی قیمتوں کے پھر سے سنبھلنے کا کوئی امکان نہیں اوران گرتی ہوئی قیمتوں کے سبب سعودی عرب، ایران اورامریکہ سمیت تمام تیل پیدا کرنے والے ممالک کی کی معیشتیں انتہائی شدید مشکلات کا شکارہیں اوردوبڑے تیل پیدا کرنے والے ممالک کے درمیان جنگ ہی تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کو سہارا دے سکتی ہیں۔
اب اوپربیان کیے ہوئے حالات کاایک بارپھرجائزہ لیجئے امریکہ نے ایران پرسےپابندیاں اٹھائیں تو سعودی عرب نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا تاہم اتنا ہنگامہ نہیں ہوا۔ سعودی عرب نے یمن پر جنگ مسلط کی، عراق اور شام میں داعش کے خلاف لڑںے کے لئے 34 ملکی اتحاد تشکیل دیاتو شام نے کوئی واویلا نہیں کیا تو پھرایک شیخ باقرالنمرکو بنیاد بنا کرسارے عالم اسلام کو پنجوں پرکیوں کھڑا کیا جارہا ہے؟۔
غالب امکان یہ ہے کہ شیخ باقرکی سزائے موت کی تاریخ امریکہ میں مقررکی گئی ہواورایک باقاعدہ منصوبے کے تحت اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا ہو اورامریکہ بھی فوراً ہی دونوں ممالک سے معاملات بہتر بنانےکی اپیلیں کرنے لگاجیسے دونوں ممالک تلواریں سونت کرمقابلے پرآن کھڑے ہوئے ہیں اورکسی بھی وقت دونوں میں گھمسان کا معرکہ شروع ہوجائے گا۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں تاحال کوئی اثرنہیں پڑا جس کی ایک وجہ میرے خیال میں یہ ہے کہ فی الحال اس ڈرامے کے تمام کرداراپنے جوبن پرنہیں آئے بہت سے پردہ نشین ہیں جو کہ خاموش تماشائی کی حیثیت اختیارکیے بیٹھے ہیں اورمناسب وقت آنے پرناضرین کی تفریح طبع کے لئے اپنا کردارادا کریں گے۔
مان لیجئے کہ میرا یہ مفروضہ غلط ہو اوراس سارے قصے میں نہ تیل ہواورنہ ہی اسکی دھار بلکہ ایران واقعی شیخ النمر کے بے جا قتل کی بنا پرآمادہ پیکارہو اورسعودیہ اسے اپنی داخلی خودمختاری پرحملہ تصورکرتے ہوئے ایران کے خلاف جارحانہ رویہ اختیارکررہا ہو، تب بھی یہ دونوں ممالک اتنے طاقت ورہیں کہ اپنی جنگ خود لڑسکیں اور اپنا معاملہ آپس میں حل کرسکیں اوراگریہ ایسا نا بھی کرپائے تو انکے حلیف امریکہ اور روس ان دونوں طاقتوں کوزیادہ دیردست وگریباں ہونے نہیں دیں گے لہذا پاکستانیوں سے دست بستہ مودبانہ گزارش ہے کہ برائے مہربانی اس معرکے کو حق وباطل کا معرکہ سمجھ کر اپنے ملک کو میدانِ جنگ میں تبدیل نہ کریں کہ ہمارے اپنےمسائل کیا کم ہیں کہ بلاوجہ ہم خطے کے چوہدری بن کردوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑاتےپھریں جس کے فی الحال ہم متحمل نہیں ہوسکتے۔