The news is by your side.

ملا اختر منصور پر حملہ یا ہماری خودمختاری کا جنازہ

    امریکی صدر باراک حسین اوباما نے بالاخر اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ 21مئی کی سہ پہر پاک افغان بارڈر پر نوشکئی کے علاقے کچاکئی میں امریکی ڈرون کے حملے میں تحریک طالبان افغانستان کے سربراہ ملا اختر منصور کو ہلاک کر دیا گیا ہے ۔

اس حملے میں تفتان کا رہائشی محمد اعظم ولد عبدالرحیم محمد حسنی بھی جاں بحق ہوا ،  جو اطلاعات مختلف ذرائع سے اب تک سامنے آئی ہیں ان کے مطابق ولی محمد ولد شاہ محمد نامی شخص 21مئی کو ایران سے سہ پہر تین بجے پاکستان داخل ہوتا ہے اور محمد اعظم نامی ڈرائیور کے ساتھ کوئٹہ کی الحبیب کار رینٹل کمپنی سے حاصل کی گئی ایک گاڑی پر کوئٹہ کی جانب روانہ ہوتا ہے تاہم نوشکئی کے علاقے کچاکئی میں امریکہ کی عسکری قیادت کی جانب سے بھیجے گئے متعدد ڈرونز کا نشانہ بن جاتا ہے ، متعدد ڈرونز بھیجنے کا مقصد کسی فنی خرابی یا ہدف کے مختلف اطراف میں فرار کی کوششیں ناکام بنانا بتایا جاتا ہے ، جو اس بات کا ٹھوس ثبوت ہے کہ امریکی حکام بالخصوص پنٹاگون کو اس بات کا قوی یقین تھا کہ ولی محمد ولد شاہ محمد درحقیقت ملا اختر منصور تھا اور اس بار بھی وہ 2مئی 2011ء کی ایبٹ آباد کارروائی طرح کوئی رسک نہیں لینا چاہتے تھے۔

passport-post-1

امریکی صدر اوباما کی تصدیق کے برعکس پاکستانی دفتر خارجہ اور عسکری حکام سمیت پوری انتظامیہ ملا اختر منصور کی ہلاکت کی تصدیق کرنے سے گریزاں ہے ، کیونکہ ڈرون حملے میں جو شخص مارا گیا ، اس سے ملنے والی دستاویزات کے مطابق ولی محمد ولد شاہ محمد بلوچستان کے علاقے قلعہ عبداللہ کا رہائشی تھا ، اس کے شناختی کارڈ کے مطابق ولی محمد کی مستقل سکونت قلعہ عبداللہ اور عارضی پتہ بسم اللہ ٹیرس کا فلیٹ نمبر بی زیرو سولہ ہے اور اسے نادرا کا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ 10ستمبر 2012ء کو جاری ہوا جبکہ اس کے پاس پاکستانی پاسپورٹ نمبر AB 67946229 بھی تھا جو حکومت پاکستان کی جانب سے 11اکتوبر 2011ء کو جاری ہوا اور اس کی مدت معیاد 10اکتوبر 2016ء کو ختم ہونا تھی ، دونوں دستاویزات کمپیوٹرائزڈ اور مکمل تصدیق کے بعد جاری کی گئیں تھیں ۔

اگر دونوں دستاویزات کے اجراء کی تاریخوں کو دیکھا جائے تو یہ وہی وقت تھا کہ جب اس وقت کی عسکری قیادت جنرل ریٹائرڈ اشفاق پرویز کیانی نے اس وقت کے وزیر داخلہ رحمان ملک کی زیر انتظام وزارت داخلہ اور واشنگٹن میں اس وقت کے “بظاہر” پاکستانی سفیر حسین حقانی کی منشاء پر سینکڑوں امریکی کنٹریکٹرز کو بغیر کلیئرنس جاری کئے جانے والے والے پاکستانی ویزوں پر اعتراضات اٹھائے تھے۔ ،

وزارت داخلہ کے ایک اعلیٰ ترین عہدیدار کے مطابق اس وقت بھی تقریباً دو لاکھ کے لگ بھگ قومی شناختی کارڈز اور کچھ ہزار پاکستانی پاسپورٹس ایسے ہیں جو بلاکس کئے جا چکے ہیں اور بالخصوص فیملی ٹری کی روٹس نہ مل سکنے سمیت ایک شخص کے جعل سازی سے دوہری دستاویزات بن جانے سمیت مختلف وجوہات کی بناء پر ان کی تجدید نہیں کی جارہی ، ان میں سے اکثر دستاویزات کا اجراء 2010ء اور 2011ء کے دوران کیا گیا ، اس سلسلے میں احکامات اعلیٰ ترین سطح پر یعنی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی جانب سے جاری کیے گئے ہیں ، یہ تمام پہلو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ تمام تر شفافیت اور سکیورٹی پروٹوکول کے حامل کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ اور پاسپورٹس ابھی بھی اتنے محفوظ نہیں ، تاہم گذشتہ چند ماہ کے دوران ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے ان میں مزید بہتری لانے کا عمل تو جاری ہے تاہم کہاں تک ،،،؟ اس کیلئے شائد ایک اور امریکی “کارروائی “کا انتظار کرنا پڑے گا ۔

حسب سابق پاکستانی دفتر خارجہ نے ایک بار پھر پاکستان کی سرزمین پر کئے گئے 391ویں امریکی ڈرون حملے پر شائد 200ویں بار “شدید احتجاج “کرتے ہوئے اسے قومی “سلامتی “اور “خودمختاری “پر “ایک بار پھر “حملہ قرار دیا اور اس عزم کا اعادہ کیا کہ “آئندہ “اسے برداشت نہیں کیا جائے گا ، اس کے علاوہ ہم اور کر بھی کیا سکتے ہیں ، جو دوسروں کے دست نگر ہوتے ہیں وہ  کبھی اپنے  فیصلے نہیں کرتے بلکہ فیصلوں پر عملدرآمد کے پابند ہوتے ہیں۔

footballofficialscamp.com

شاید آپ یہ بھی پسند کریں