The news is by your side.

نو ’’یو ڈو مور‘‘

تاریخ انسانی میں ہمیشہ باوقار اورخود دار قوموں نے ہی مرطوب نظریات اور بامقصد رجحانات پیش کئے، محض خود پسندی، ذاتی مفادات اور جبر کرنے والوں کا یا تو نام و نشان مٹ گیا یا پھر وہ آنے والی نسلوں کیلئے داستان عبرت بن کر رہ گئے ، دنیا کو نور سے منور کرنے والے آقائے دو جہاں سرور کائنات نبی کریم ﷺکی اسوہ حسنہ پر اگر نظر ڈالیں تو عزت ، تکریم ، وقار اور خود داری کی مثالیں جگہ جگہ ملیں گی، سخت سے نامساعد حالات میں بھی جن ان کے ہاں اناج کا ایک دانہ بھی نہیں ہوتا تھا تو ان کے گھر کی دیوار پر ہمہ وقت تلواریں تیار حالت میں ٹنگی رہتی تھیں ، کیونکہ قومی غیرت اور خودمختاری کا تحفظ اور دفاع موثر دفاعی طاقت سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ ،

امریکی صدر نے اپنے ایک حالیہ اقدام کے تحت افغانستان میں متعین امریکی افواج کو دہشت گردوں کے خلاف پیشگی منظوری کی شرائط کے ساتھ فضائی قوت کے استعمال کی اجازت دیدی ہے، اس فیصلے کے تحت طالبان کو مکمل طور پر نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دی گئی تاہم پس پردہ ’’آؤٹ آف دی باکس‘‘ اقدامات کا عندیہ ضروردیا گیا ہے جو بعض صورتوں میں تباہ کن اورہولناک بھی ہوسکتا ہے، جس کے شائد نتائج پوری دنیا کو بھگتنا پڑیں۔

بہرکیف پاکستان نے ایک طویل عرصے کے بعد اپنی خود مختاری اور قومی وقار پر سمجھوتہ کرنے کے بجائے امریکہ کے سامنے سخت موقف اپنانے کا نہ صرف فیصلہ کیا ہے بلکہ اس کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے پورا سچ بھی بولا ہے، مشیر برائے قومی سلامتی اور امور خارجہ سرتاج عزیز نے اپنی حالیہ میڈیا بریفنگ میں نہ صرف امریکہ کو ایک خود غرض ’’دوست‘‘ قراردیا ہے بلکہ یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ امریکہ ہر بار’’ضرورت پوری ہونے‘‘ کے بعد نہ صرف آنکھیں پھیر لیتا ہے بلکہ’’تنہا‘‘ چھوڑ دینے کی’’عادت‘‘ کے تحت آئندہ کی ضرورت تک بھول جاتا ہے ، اس بات کا اعتراف سابق خاتون اول ہیلری کلنٹن بطور سابق وزیر خارجہ امریکی سینٹ کی ہاؤس کمیٹی کے سامنے کر چکی ہیں۔

دوسری جانب پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف جی ایچ کیو راولپنڈی میں افغانستان میں تعینات امریکی فورسز کے سربراہ جنرل جان نکلسن سے ملاقات میں امریکہ کے پاکستان اور افغانستان کیلئے نمائندے رچرڈ اولسن اور امریکہ صدر کے مشیر پیٹر لیوائے کی موجودگی میں 21مئی کے بلوچستان میں امریکی ڈرون حملے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ببانگ دھل کہتے ہیں کہ امریکی ڈرون حملہ پاکستان کی خودمختاری پرحملہ تھا، جس کے نتیجے میں جہاں پاک امریکہ احترام اور اعتماد کی فضاء کو ٹھیس پہنچی بلکہ آپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں پر بھی زد پڑی۔

پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف یہ بھی کہتے ہیں کہ پاک فوج قدیم قبائلی رواج اور تعلقات کو سامنے رکھتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف بلاامتیاز اور بلا تفریق آپریشن ضرب عضب کر رہی ہے، وہیں پیچیدہ اور پر خطرپاک افغان بارڈر کے ساتھ ساتھ کئی دہائیوں سے تیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی مہمانداری جیسے چیلنجز کا بھی سامنا کررہی ہے ، ایسے میں افغانستان میں عدم استحکام کا الزام پاکستان پرعائد کرنا افسوس ناک ہے۔

پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف امریکی وفد سے یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ امریکہ افواج افغانستان میں موجود ملا فضل اللہ سمیت کالعدم تحریک طالبان کے مطلوب دہشت گردوں کا نشانہ بنائے،اور امریکی وفد کو ٹھوس شواہد پیش کرتے ہوئے یہ باور بھی کراتے ہیں کہ پاکستان دشمن خفیہ ایجنسیوں بالخصوص بھارت کی را اورافغانستان کی این ڈی ایس کو پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دینے کی اجازت نہیں دیں گے، ماضی بھی یہ مطالبات سپہ سالارکی جانب سے کیے گئے ہیں مگر اس کا تذکرہ عوامی سطح پر باضابطہ طور پر پہلی بار سامنے آیا ہے ، جنرل راحیل شریف امریکی وفد کو چار فریقی گروپ کے فریم ورک کے تحت افغانستان میں پائیدار امن کے عمل کیلئے سنجیدہ کوششیں کرنے کہہ کر اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ پاکستان اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے مگر تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے باقی فریق بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔

پاکستان نے تو بارہا کے تلخ تجربات سمیت ہزاروں جانوں کی قربانی دے کراوراربوں ڈالروں کے نقصانات اٹھا کربالاخر طے کرلیا ہے کہ زندہ رہنا ہے تو باوقار انداز میں زندہ رہنا ہے اور اپنی خود مختاری کا تحفظ ہر قیمت پر کرنا ہے تاہم توقع ہے کہ ہیلری کلنٹن جو چند روز قبل ہی کڑی جدوجہد کے بعد ڈیموکریٹ پارٹی کی صدارتی امیدوار نامزد ہو چکی ہیں اور وائٹ ہاؤس کے لئے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں، وہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کو تنہا چھوڑ دینے کے ’’اعتراف‘‘ کو مد نظر رکھیں گی اور امریکہ کا صدربننے کی صورت میں پاکستان سے ڈو مور کے مطالبات دہرانے کی بجائے باوقار انداز میں مشترکہ تعاون کو ترجیح دیں گی کہ یہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں