انسانی تاریخ میں تہذیب نے کئی ادوار دیکھے ہیں اور مورخین کے مطابق انسانی حقوق کو تسلیم کئے جانے تک کا سفر ہزاروں سالوں پر محیط ہے تاہم آج کی مہذب ترین دنیا میں بھی غلامی مختلف شکلوں میں نہ صرف موجود ہے بلکہ پوری بربریت کے ساتھ بعض جگہوں پررائج ہے، انسانی حقوق کی ایک بین الاقوامی تنظیم ’’واک فری فاؤنڈیشن ‘‘ کے تازہ ترین سروے برائے 2016ء کے مطابق آج بھی امریکہ، برطانیہ، جرمنی ، چین، بھارت سمیت 167ممالک میں کسی نہ کسی شکل میں غلام رکھنے کی روایت جاری ہے ،
سروے کے مطابق دنیا بھر میں 4کروڑ 58لاکھ سے زائد افراد غلامی کی زندگی گزاررہے ہیں ، جن میں تعداد کے تناسب سے سب زیادہ غلام ایک کروڑ 83لاکھ 50ہزار غلام ’’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ ہندوستان‘‘ جبکہ آبادی کے تناسب سے سب سے زیادہ غلام ’’شمالی کوریا‘‘ میں 4.37 فیصد میں ہیں، تاہم دنیا میں سب زیادہ بھوک کے شکارخطے ایشیاء کو پھر یہ اعزاز حاصل ہوا ہے کہ مجموعی طورپرساڑھے چارکروڑ میں سے نصف سے زائد تقریباً 58 فیصد غلام بھارت، چین، پاکستان، بنگلہ دیش اورازبکستان میں رہ رہے ہیں۔
ایشیاء کے ان پانچ ممالک میں بھارت میں ایک کروڑ83لاکھ پچاس ہزار، چین 33لاکھ 90ہزار ، پاکستان 21لاکھ 30ہزار، بنگلہ دیش 15لاکھ 30ہزاراورازبکستان میں 12لاکھ 30ہزار غلام موجود ہیں، امریکہ ، برطانیہ، جرمنی، کینیڈا، فرانس، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اورناروے سمیت یورپی ممالک میں ہرایک ہزارمیں دوسرا فرد غلام ہے۔
یہ غلام اپنی مرضی سے زندگی نہیں گزار سکتے اور نہ ہی انہیں کوئی حقوق دیئے جاتے ہیں تاہم مجھ سمیت کچھ دوستوں کو پاکستان کے بارے میں دیے گئے اعدادوشمارپرتحفظات ہیں، سروے کے مطابق پاکستان کے 18کروڑ میں سے 21لاکھ سے کچھ زائد افراد غلام زندگی گزاررہے ہیں، تاہم اگرہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو کتنے لوگ ملیں گے جو ایک تسلسل سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں؟
کتنے ہیں جنہوں نے حکومت کی طے کردہ کم سے کم اجرت 13ہزارکو اونٹ کے منہ میں زیرہ قراردے کراحتجاج کیا ہے؟، کتنے ہیں جو خاموشی سے بجلی اورگیس کے ٹیکسوں سے لدے ہوئے بل ادا کررہے ہیں؟، کتنوں نے اپنے ووٹ سے منتخب کردہ ’’عوامی نمائندوں‘‘ سے گلہ کیا ہے کہ انہیں پینے کا صاف پانی اور اسپتال میں سستا علاج فراہم کرنے سمیت تپتی دھوپ میں طویل لائنوں میں کھڑے ہوکر شناختی کارڈ کا عمل آسان بنانے کے لیے مجبورکیا ہے؟۔
ہماری بہت بڑی ’’خاموش اکثریت‘‘ یہ سب عذاب اور مصائب بغیراحتجاج بلند کیے سہتے ہوئے نہ صرف ’’غلامی ‘‘ پرقائل ہیں بلکہ اپنے حقوق کے لئے آوازبلند کرنے والوں کا ساتھ بھی نہیں دیتی اور الٹا انہیں مجبور کرتی ہے کہ بکھیڑوں میں پڑنے کی بجائے خاموشی سے ان کے طرززندگی اور معمولات پرعمل کرنے کی تلقین کرتی ہے، گزشتہ ایک سال پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نصف سے بھی زائد کم ہونے کے باوجود بجلی ساڑھے بارہ روپے اورسولہ روپے یونٹ کے حساب سے گھریلو صارفین کو دی جارہی ہے، جبکہ کئی ٹیکس اور سرچارجز بلوں میں الگ سے وصول کئے جارہے ہیں۔
پیداواری لاگت کم ہونے اورمختلف مدوں میں کسانوں، صنعتکاروں اورتاجروں کو دی گئی سبسڈی ری بیٹ اور ٹیکس چھوٹ کے باوجود روزمرہ استعمال کی اشیاء دن بہ دن مہنگی ہوتی جارہی ہیں ، قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی بات ہو تو وفاق کا موقف ہے کہ یہ صوبوں کا کام ہے اور صوبے استعداد کار اور افرادی قوت کا رونا روتے ہیں ، عوامی نمائندوں کا راستہ روک کر انصاف مانگو تو ان کا استحقاق مجروع ہوتا ہے ، تو عدالتوں میں سستے وکیل دستیاب نہیں جبکہ جج صاحبان کے سامنے آواز بلند کرو تو،، ،توہین عدالت کے مجرم ٹھہرائے جاتے ہیں ، تاجراورصنعتکار سے کہو تو وہ کہتا ہے کہ مجھے بھی گھر بارچلانا ہے، بھوکا تو نہیں رہناجبکہ علماء بھی شراکتِ اقتدارکے متمنی نظرآتے ہیں۔
طلباء کو پڑھایا جانے والا نصاب کلرک اور کیشئر تو پیدا کررہا ہے تاہم انجینئرز، سائنسدان، عالم فاضل اورتحقیق داں پیدا نہیں کررہا، ہم عوام اپنے ووٹوں کے ذریعے چوروں ، ڈکیتوں اور غاصبوں کو تو ایوانوں میں بھیج رہے ہیں تاہم عوامی مسائل پر بات کرکے قانون سازی کرنے والے قانون دانوں کو نہیں بھیجتے۔
جنوبی ایشیاء کی تاریخ پر ہم نظر دوڑائیں تو جہاں ہم پانچ ہزارسال قبل مسیح کی ٹیکسلا، ہڑپہ ، موہنجو داڑو، آریا تہذیبوں کے وارث ہیں تو دوسری جانب ہماری تاریخ ظلم اور بربریت کے خلاف آوازبلند کرکے چندرگپت موریا، اشوکا، تغلق، بلبن، التمش اور ایبک جیسے خاندانِ غلاماں کی حکمرانی قائم کرنے کی سچی داستانوں سے بھری پڑی ہے مگر آج ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ تہذیبیں کہیں تاریخ کے اوراق میں ہی گم ہو گئی ہیں، ظم اورجبر کے خلاف تحریکیں چلانے والے مردمیداں سے خالی ہو چکی ہیں، شائد خاموش اکثریت خواب غفلت سے دوچار ہے، آج ہم اٹھارہ کروڑ عوام نہیں بلکہ اٹھارہ کروڑ غلام ہیں