اعتماد کا فقدان اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کوئی ایک فریق دوسرے کے ساتھ کسی تنازعے کے حل کے لیے وہ اقدامات نہ اٹھائے جس کا وعدہ کیا گیا ہو، یا اس کے قول و فعل میں تضاد پیدا ہوجائے، بالکل یہی صورتحال پاکستان کی کوششوں سے گزشتہ سال افغانستان میں دیرپا امن اور استحکام کے لئے شروع کیے گئے ’’مری امن مذاکرات‘‘ کی ہے، چین اورامریکہ کی معاونت سے افغان حکومت اورطالبان کے مابین چند اعتماد سازی کے اقدامات کے بعد سات جولائی 2015ء میں مذاکرات کا عمل شروع ہوا، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے نواح میں واقع پرفضا مقام مری پر ہونے والے مذاکرات کے پہلے دور کے دوران افغان حکومت کی نمائندگی نائب وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی جبکہ طالبان وفد ملا عباس درانی کی زیر صدارت درمیانی سطح کی قیادت کے ارکان پر مشتمل تھا، دوسری جانب پاکستانی وفد کی قیادت سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے کی جبکہ ان کی معاونت کے لئے آئی ایس آئی کا ایک سینئر نمائندہ بھی موجود تھا، مذاکرات میں دو چینی اور واشنگٹن سے آئے ایک امریکی سینئر اہلکار نے بالترتیب دونوں ممالک کی نمائندگی کی۔
‘‘رمضان المبارک کے آخری عشرے کے دوران مری میں ہونے والے پہلے دور میں ’’وسیع ترمفاد اور ’’سنجیدہ ‘‘ کوششوں کے لئے کچھ گلے شکوے کیے گئے اور پھر اعتماد سازی کے لئے مثبت اور ٹھوس عملی اقدامات کے وعدے کے ساتھ پہلی نشست پھر ملنے کے وعدے کے ساتھ برخواست ہوئی ، یہ طے پایا تھا کہ مذاکرات کے دوسرے دور کے لئے وقت اور جگہ کا تعین باہمی مشاورت سے ہوگا، چین نے تاشقند میں جبکہ طالبان نے قطر کے دارالخلافہ دوحہ بطور مقام تجویز کیا، تاہم کوئی حتمی مقام طے نہ پاسکنے پر بالاخر مذاکرات کے دوسرے دور کی میزبانی بھی تمام فریقین نے اتفاق رائے سے اسلام آباد کو سونپ دی۔
جب 31جولائی کو مذاکرات کا دوسرا دور مری میں طے پا چکا تھا تو دو روز قبل افغان حکام کی جانب سے یہ خبر جاری کی گئی کہ طالبان امیر ملا عمر انتقال کرچکے ہیں اور طالبان سینئررہنماء نئی قیادت کے انتخاب کے لئے دست بستہ ہیں، ابتداء میں اس اطلاع کو مسترد کیا گیا تاہم 31 جولائی طالبان ترجمان ذبیع اللہ مجاہد نے ملا اخترمنصورکا بطور نئے امیر نام اعلان کرکے ملا عمر کی وفات کی تصدیق کردی، اور یہ بھی کہا کہ مذاکرات بارے میں فیصلہ نئے امیرکریں گے۔
پہلے دور کے 7جولائی کو انعقاد سے 31جولائی کو دوسرے دور کے منعقد ہونے سے دو روز پہلے تک بہت سا پانی پل کے نیچے سے گذر چکا تھا ، اعتماد سازی کے لئے طے پانے والے تمام چارنکات کی خلاف ورزی بعض فریقین کی طرف سے کی جا چکی تھی، چار نکات جن میں سنجیدگی کے مظاہرے، سیاسی مقاصد کے لئے الزام تراشی نہ کرنے، دھوکہ نہ دینے اور ٹھوس اقدامات کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا، اس پر عملاً کسی فریق نے عمل نہ کیا۔
افغان حکام نے پاکستان میں موجود طالبان قیادت کی حوالگی کا مطالبہ کیا، وہیں طالبان نے پاکستانی اثرورسوخ کم کرنے کی بات کی، تو پاکستان فیصلہ سازی میں کلیدی کردار کا طلب گار نظر آیا جبکہ امریکہ طالبان کی مرکزی قیادت کا ’’کھرا ناپنے‘‘ میں لگ گیا اور چین سنکیانگ میں مشرقی ترکستان موومنٹ کو دبانے کے لئے تعاون مانگنے لگا، ایسے میں ملا عمر کی وفات کی خبرنے اہم ترین فریق طالبان کو یہ موقع فراہم کردیا کہ وہ مذاکرات سے پیچھے ہٹ جائیں اورامریکی فوج اورافغان حکومت کے خلاف جہاد کو تیز کردیں اور پھر وہی ہوا ، افغانستان میں ’’جہاد ‘‘ تیزہوگیا، مذاکرات رک گئے۔
اس تمام صورتحال میں ایران نے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی ٹھانی اور چند سالوں سے افغان طالبان کا اعتماد حاصل کرنے کی کوششیں تیز کیں جو ثمرآور ثابت ہوئیں اور داعش کے خطرے کو افغانستان کے راستے خطے میں داخل ہونے سے روکنے کے لئے طالبا ن کا تعاون حاصل کرلیا، طالبان پاکستان سے بھی دور ہوگئے اور طالبان قیادت کی ایران میں آمد و رفت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ گئی، ایک سال کی عرق ریز کوششوں سے پاکستان نے امریکہ اور چین کے دباؤ پرپھر طالبان کو مذاکرات کے لئے راضی کرنے کی کوششیں کیں اور جب مثبت اشارے آنے لگے تو 22مئی کو بلوچستان میں ڈرون حملہ ہوا اورافغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور اس جہاں فانی سے رخصت ہو گئے۔
حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یارجو افغان حکومت کے ساتھ امن کے فروغ کے لئے معاہدہ کرچکے ہیں، نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ملا اختر منصور کی ہلاکت میں ایران کی خفیہ ایجنسی کا ہاتھ ہوسکتا ہے، یہ دعویٰ اپنی جگہ تاہم موجودہ حالات مجوزہ مذاکرات پر نہایت ہولناک اثرات مرتب کرسکتے ہیں ، اور خدشہ ہے کہ مذاکرات کا آئندہ دوراب نہ ہو، ساتھ ہی تاریخ میں پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے لئے 2مئی اور 22مئی کے واقعات ہمیشہ افسوس ناک دن تصور کئے جاتے رہیں گے، یاد رہے کہ مری امن مذاکرات کو 2+2+1کا نام دیا جاتا ہے، 2مئی ، 22مئی اور سال کا 5واں مہینہ بھی کسی کو نہیں بھولے گا۔