The news is by your side.

معدنی وسائل سے مالامال صوبہ پانی کی قلت کا شکار کیوں؟

صوبہ بلوچستان جو کے پاکستان کے کل رقبے کا 44%اور آبادی کا محض 05%ہے ۔ اس کی آبادی کا 85%دیہاتی علاقوں میں رہتا ہے جس کا انحصار زراعت اورلائیواسٹاک پرہے۔ اللہ پاک نے اس صوبے کو بیش بہا دولت سے نوازا ہے مگر ساتھ اس صوبے کو کئی اہم مسائل کا بھی سامنا ہے جن میں سے ایک مسئلہ پانی کے قلت کا ہے۔ صوبے میں لوگ کہیں پر میلوں دور سے پانی لانے پر مجبور ہیں اور کہیں پر تو پانی فی ٹینکر پندرہ ہزار روپے خرید نے پر لوگ مجبور ہیںجیسے کہ گوادراور کوئٹہ میں تو پانی کے مسئلے کو اس حد تک سنگین قراردیا گیا ہے کہ اگرآنے والے چند سالوں میں کوئٹہ میں پانی کے مسئلے کو حل نہ کیا گیا تو لوگ کوئٹہ سے نقل مکانی کرنے پرمجبور ہوجائیں گے۔

اقوام متحدہ کے معیارکے مطابق ایک شخص کو سالانہ چالیس گیلن پانی مہیا ہونا چاہیئے مگر بلوچستان میں صرف 60%آبادی کو دس گیلن کے تناسب سے پانی مہیا ہورہا ہے اور پانی کی یہی صورتحال رہی تو آنے والے سالوں میں یہ تناسب اور بھی کم ہوگا۔

بلوچستان کو ڈیمزکی عدم دستیابی اورزیرزمین پانی کی گہری سطح کی وجہ سے نہ صرف شدید پانی کی کمی کا مسلہ درپیش ہے بلکہ پانی کے معیار میں گراوٹ کی وجہ سے لوگوں میں ہیپا ٹائٹس، گردے و پتے کی پتھری اوردیگر بیماریوں کا سامنا ہے جن کی وجوہات میں پانی کے صاف ریسورسز نہ ہونا ہے۔

B-post-1
محکمہ ایری گیشن کے ایک رپورٹ کے مطابق پانی کی کمی کی ایک اہم وجہ زیر زمین پانی کی سطح میں بلوچستان میں دو سے تین میٹر سالانہ کے اوسط سے گر رہی ہے جو کہ ایک خطر ناک اشاریہ ہے قحط سالی ناکافی بارشیں اور ڈیمز کے عدم دستیابی کے باعث پانی کی سطح مسلسل نیچے گررہی ہے، جس سے آنے والے وقتوں میں اکثر اضلاع میں پانی کی شدید کمی، لینڈ سبسی ڈینس، پانی کی کوالٹی میں کمی اور زراعت کو نقصان پہنچ سکتا ہے جیسا کہ امریکہ کے یونیورسٹی آف ونکونسن کے رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں زیر زمین گرتی پانی کی سطح کی وجہ سے تقریبا 25فیصد زراعت کو خطرہ لائق ہے اور 2001میں ایران کے بعض علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح ایک سال میں 8میٹر نیچے گرگئی تھی جس سے وہاں پانی کی شدید قلت پیدا ہوئی اور زراعت کو مکمل طور پر نقصان پہنچا اورلوگ نقل مکانی پرمجبور ہوگئے۔

اگر بلوچستان میں پانی کی کمی کی صورتحال پر نظر رکھے تو پتا چلے گا کہ کوئٹہ کے شہریوں کو 1889ء میں کاریزوں سے پانی مہیا کی جاتی رہی اور کاریزوں سے ہی لوگ کاشتکاری کرتے رہے اور پھر پانی کی بڑھتی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے 1935-38میں سپین کاریز ڈیم اور پھر 1940-45 میں ولی تنگی ڈیم بنایا گیا مگر اس کے بعد کوئی قابل ذکر ڈیم کوئٹہ میں تعمیر نہیں کی گئی جس سے آج زیرزمین پانی کی سطح پندرہ سو فٹ تک پہنچ گئی ہے اورکوئٹہ کو شدید پانی کی کمی کا سامنا ہے اسی طرح پانی کی سطح میں کمی کی وجہ سے مستونگ، کوئٹہ اور پشین جہاں کاریزوں سے کاشتکاری کی جاتی تھی آج وہا ں پانی اتنا کم ہے کہ ٹیوب ویلز خشک ہونے اوربند ہونے کا خطرہ ہے اوریہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے۔

بلوچستان میں آنے والے سالوں میں پانی کی کمی اور ڈیمز کی ضرورت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بلوچستان میں باقی صوبوں کی نسبت بہت کم بارشیں ہوتی ہے۔ پاکستان اور بلوچستان میں بارشیں تین قسم کی ہواؤں کی وجہ سے ہوتی ہے ۔

i. conventional rain in early summer
ii. Monsoonal rain caused by summer monsoon
iii. Cyclonic rain caused by winter monsoon

ان ہواؤں کی وجہ سے جو بارشیں ہوتی ہیں ان کی مقداربلوچستان کے جنوب اور جنوب مغربی حصوں میں بہت کم ہے خاص کرضلع لسبیلہ، آواران، تربت، پنجگور، گوادر، چاغی اور خاران شامل ہیں۔ ان علاقوں میں چونکہ کاشتکاری ٹیوب ویلز کے زریعے ہوتی ہے اور ڈیمز بھی موجود نہیں کہ زیر زمین پانی کو ریچارج کرسکے۔ لہذا اگر ان علاقوں میں ڈیمز نہیں بنائے گئے تو ان علاقوں میں پانی کی کمی انتہائی سنگین صورتحال اختیار کرے گی اوراکثر خشک سالیاور قحط سالی انہی علاقوں کا مقدر بنتی ہے۔ لہذا ان علاقوں میں ترجیہی بنیادوں پر ڈیم بنایا جائے۔

B-post-2

بلوچستان میں خشک سالی اورسیلاب وہ دو قدرتی آفات ہے جس سے صوبے کو باربارجانی و مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ بلوچستان میں قحط سالی کا 1878 سے شروع ہے جس سے صوبے میں کچھ سال قحط سالی تو اس سے متصل ایک سال شدید بارش یا سیلاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے اگر ہم اوپن واٹر ریسورسز یعنی ڈیمز وغیرہ بنائے اس سے مثبت موسمیاتی تبدیلی قحط سالی اور سیلاب جیسے صورتحال جس سے قیمتی جانوں اور قیمتی فصلوں کی ضیاع سے بچا جاسکتا ہے بلکہ ہزاروں اور لاکھوں ایکڑ زمین کو زیرکاشت لاسکتا ہے۔ پانی کی ناگفتہ صورتحال یا کمی جس کی اصل وجہ زیر زمین پانی کی سطح میں کمی اورڈیمزکی مناسب مقدار میں تعمیرنہ ہونا ہے اس صورتحال سے چائنا پاکستان معاشی راہداری جس سے پاکستان اور بلوچستان کا مستقبل وابستہ ہے کو بھی خطر ہ درپیش ہوسکتا ہے۔ اسی معاشی راہداری سے آنے والے سالوں میں بلوچستان میں معاشی سرگرمیاں بڑھیں گی اور آبادی میں اضافہ ہوگا اور پانی کے استعمال بھیآج کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہوگا جس سے پانی کی کمی مزید گھمبیر صورتحال اختیار کرے گی اور موجودہ وسائل ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔

اس تمام صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اورڈیمز کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے ایری گیشن اور پی۔آئی ۔ ڈی بلوچستان کے سو(100) تجویز کردہ ڈیمز جوکہ تین مختلف پیکجز میں تعمیر ہونے ہیں ان کی جلداز جلد تعمیر کی جائے اس کے علاوہ واپڈا کی طرف سے تجویز کردہ لسبیلہ میں وندر ڈیم ، ہنگول ڈیم ، جھل مگسی میں نولنگ ڈیم اور خاران میں گروک ڈیم بھی ترجیحی بنیادوں پر تعمیر کیے جائیں ۔ان ڈیمز کی تعمیر سے نہ صرف سیلاب کی وجہ سے قیمتی جانوں ، املاک ،قمیتی فصل اور زمینوں کی ضیاء رُک جائے گابلکہ اس سے زیر زمین پانی کی سطح میں اضافہ ہوگا ۔ لاکھوں ایکڑ اراضی قابل کاشت ہوگی، اور فشریز انڈیسٹری ، وائلڈ لائف ، جنگلات ، ٹورزم کو فائدہ ہوگا اور ہزاروں لوگوں کو زریعہ معاش بھی مہیا ہوگا اور اس سے ماحول پر اچھا اثر پڑے گا اور مثبت موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہوگی۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں