بلوچستان میں امن اور ترقی کی کافی باتیں ہورہی ہیں اور اقدامات بھی اٹھا ے جا ر ہے ہیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ بلوچستان میں امن اور ترقی کیسے اور کیونکر ممکن ہے اور وہ کون سے اقدامات ہیں جن کی بنیاد پہ امن قاہم ہوسکتا ہے؟ اور اتنے سالوں سے مکمل طو رپر امن کیوں بحال نہ ہو سکا؟پھر کوفی عنان کی نوجوانوں سے متعلق ایک بات سامنے گزری کہ نوجوان ہی امن اور ترقی کے ایجنٹ اور ضامن ہوتے ہیں۔ پھر میں بلوچستان میں نوجوانوں کی صورت حال اور ان کے لئے دستیاب وسائل پر معلومات کرنے لگا تو انتہائی خوفناک صورت حال سامنے آئی اور میں یہ سوچنے لگا کہ ان نوجوانوں کے سر پر تو تھوڑا سا ہی آسمان ہے اور نوجوانوں کے لئے میسر ناکافی وسائل اور مواقع کی موجودگی میں امن اور ترقی ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔
میں چند حقائق آپ لوگوں کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں پھر آپ ہی فیصلہ کریں کہ ان حقائق کی موجودگی میں امن اور ترقی کیسے ممکن ہیں؟
ایک اندازے کے مطابق بلوچستان کے 64فیصد نوجوان بیروزگار ہیں ، اور بیروزگاری کی اس شرح میں آنے والے سالوں میں خطرناک حد تک اصافہ ہوگاکیو نکہ صوبے کہ 2.5 ملین بچے سکول نہیں جا رہے ، سالانہ تقریباً ایک لاکھ طالب علم میٹرک کا امتحان دیتے ہیں جبکہ یہ تعداد کم ہو کر انٹر میڈیٹ لیول پر نصف ر ہ جاتی ہے اور پچپن سے ساٹھ ہزار طالب علم انٹر میڈیٹ کا امتحان دے پاتے ہیں اور تقریباً پچپس ہزار طالب علم ہی گریجویشن کرپاتے ہیں۔ اسی طرح صوبے میں اندازاً آٹھ سے دس ہزار نوجوان ماسٹرز اور پروفیشنل ڈگری حاصل کرپاتے ہیں مگر محض تین سے چار ہزار خوش نصیب نوجوانوں کو ملازمتوں کی عظیم نعمت مل جاتی ہے۔ اسی طرح اگر بلوچستان کے مدارس سے وابستہ نوجوانوں کی صورتحال پر نظر دوڑائی جائے تو حکومت بلوچستان کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں دو ہزار سات سو کے لگ بھگ مدارس ہیں مگر اصل تعداد اس سے زیادہ ہے۔
میرا حکام بالا سے چند معصومانہ سوالات ہیں کہ جس صوبے کے تقریباً آدھے سے زیادہ بچے اسکول نہیں جاتے ہوں، جہاں پر ایک لاکھ بچے میٹرک ،دس ہزارطالب علم ماسٹر اور محض تین ہزار نوجوانوں کو نوکری ملے اور جہاں ہزاروں مدارس کے لاکھوں طالب علموں کی کوئی منزل نہ ہوں ، جہاں نوجوانوں کے لئے ٹیکنیکل ادارے نہ ہوں، جہاں 54فیصد آبادی غربت کے لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہوں،جہاں ہسپتالوں میں مریصوں کو سرنج تک نصیب نہ ہو تو ایسے صوبے میں امن پر اربوں روپے خرچ کرنے سے امن کیسے ہوگا؟ اور ترقی کیسے ممکن ہوگی؟ ۔
اسکول ،کالج اور مدارس سے فارغ لاکھوں طالب علم کہاں جاتے ہیں؟ ان کا ذریعہ معاش کیا بن جاتا ہے؟کیا ایسے صوبے کے نوجوان بیرونی ہاتھوں کے ہالہ کار نہیں بن سکتے ہیں؟ آپ تو پہاڑوں پر گئے نوجوانوں کو قومی دھارے میں شامل کررہے ہوں مگر کیا ان نوجوانوں کے قومی دھارے سے باہر جانے کا خطرہ نہیں؟۔
میں نے صوبائی حکومت کی جانب سے نوجوانوں کی فلاح و بہبود کے لئے کی جانے والی اقدامات کی معلومات حاصل کی تو پتہ چلا کہ صوبائی وزارت برائے امور نوجوانان کا صرف چند اسٹاف ممبران پر مشتمل ایک دفتر کوئٹہ میں موجود ہے اور بلوچستان میں نوجوانوں کی فلاح و بہبود کے لیے وفاق کی طرف سے عطیہ کردہ ایک ہال چند سالوں سے زیر تعمیر ہے، بس اورنوجوانوں کے لئے کوئی کام نہیں ہورہا۔
اس کے علاوہ بلوچستان میں صنعت، کاروباری سرگرمیوں کی عدم موجودگی بھی نوجوانوں کے لئے ناامیدی کا باعث بن رہی ہے۔میری صوبائی اور وفاقی حکومت سے گزارش ہے کہ امن کے منصوبوں اور امن پر اربوں روپے خرچ کرنے سے امن ممکن نہیں بلکہ امن اور ترقی کے ضامن ان نوجوانوں کی معیاری تعلیم و تربیت کے پر توجہ دی جاے، ان کے لئے ٹیکنیکل ادارے بنائے جائیں ، نوکریوں کے اصول میں میرٹ کو یقینی بنایا جائے، پروفیشنل اداروں کی تعداد بڑھائی جائے اور نوجوانوں کے لئے وسائل اور روز گار کے مواقع پیدا کئے جائے اس طرح سے ہی صوبے میں امن اور ترقی ممکن ہے وگرنہ صوبے میں امن اور خوشحالی کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوپائے گا۔