The news is by your side.

بلوچستان کے مسائل‘ مجرم ہم بھی تو ہیں

بلوچستان کے ساتھ ہو نے والی زیادتیوں کا جب بھی ذکر ہو تا ہے تو تمام تو پوں کا رخ وفاق کی جانب مو ڑ دیا جاتاہے جیسے کہ بلو چستان کی پسما ندگی میں ہمارا پنا کو ئی قصو ر یا کرددار نہ ہوں  اور شاید ایسا ممکن ہی نہیں کہ ہمارے اپنے لو گوں اور نمائندوں نے ہمارے استحصال اور پسماندگی میں اپنا کردار ادا ہ نہ کیا ہو۔ ماضی قریب کے حکومتوں کا جا ئزہ لیا جائے تو ہمارے اپنوں کی بلوچستان کے ساتھ ہو نے والی نا انصافیوں کا پتہ چل جا تا ہے۔

تقریباایک کروڈ تیس لاکھ کے لگ بھگ آبادی والے اس صوبے کے نمائندوں نے پچھلے سات (7) سالوں میں این ایف سی ایوارڈ اور دیگر مد میں تین سو ساٹھ بلین روپے کی کر پشن کی ہے جب کہ اس بد قسمت صوبے کی 54 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے اور تقریبااس کی 80 فیصد آبادی غربت اور کسمپری کی زندگی گزاررہی ہیں ۔

چند سال پہلے ہر نائی ،کو ئٹہ اور لسبیلہ میں موجود ٹیکسٹائل ملز جن سے بر اہ راست بیس ہزار لوگوں کا روزگار وابستہ تھا بند کیا گیا اور آج تک ہمارے نام نہاد پشتون اور بلوچ قوم پرست اس خاموش معا شی قتل پرکیو ں خاموش رہے جب کہ بلوچستان میں بے روزگاری شرح 63 فیصد سے زیادہ ہیں اور بلوچستان میں سالانہ پچیس ہزار سے زائد نوجوان کی گرایجویشن کرتے ہیں اور محض تین سے چار ہزار نوجوانوں کوسالانہ روزگارکے مواقع میسر آتے ہیں۔

ہمارے نمائندے امریکہ کے سیر و تفریح پر 35 ملین روپے خرچ کرتے ہیں جب کہ ہمارے ہسپتالوں میں عام انٹی بائیوٹک اور سرنج تک دستیاب نہیں ، صوبے کے گیارہ ملین بچے اپنی عمر کی پانچ سال مکمل ہو نے سے پہلے مر جاتے ہیں ، پیدائش کے وقت ماں اور بچے کی شرح اموات سب سے زیادہ ہیں ، بلوچستان میں صرف 16فیصد بچے ویکسنیٹڈ ہیں اور ہیپاٹائٹس کے مریض بھی بلوچستان میں سب سے زیادہ ہیں ۔

ہمارے صو بے کے حکمران شاید کرپٹ یا اتنے نالائق ہیں کے بجٹ برائے 2014-15 میں چالیس بلین روپے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ نہ کرسکے یا شاید ہما رے حکمرانوں کو لگتا ہے کہ ہم اتنے خو شحال ہے کہ ہمیں چالیس بلین کی ضرورت نہیں یا شاید انھیں نہیں پتہ کہ 99 فیصد آبادی کو صاف پینے کا پانی مہیا نہیں اور سب سے زیادہ فوڈ  سکیورٹی بلوچستان میں پائی جاتی ہے ۔

ہمارے حکمران ہمارے مسائل میں کتنے دلچسپی رکھتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کے صوبائی اسمبلی میں ارکان کی حاضری او سطا 48 فیصد رہی ہے اور اسمبلی کے پہلے سال تقریبا(16) قراداد پیش کئے گئے ہیں جن میں سے تین قرارداد اسمبلی ارکان کے مراعات میں اضافے حوالے سے تھا جبکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہمارے مسائل حل کردینگے عوام کے مسائل حل نہ ہو ئے البتہ ہمارے بہت سے نمائندوں کے مسائل ضرور حل ہو ئے ہیں ۔

ہما رے سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رسانی صاحب نے امیر صو بے کی فلاح و بہبود کے کاموں کو جلدی سے نمٹا نے کیلئے جہاز کروڑوں روپے میں خریدا ‘اس جہاز کے فی گھنٹہ سفر کا خرچہ تقریبا دو لاکھ روپے بنتا ہے اور اب تک سینکڑوں دوروں پر کروڑوں روپے خرچ ہو چکے ہیں جبکہ صوبے کہ 2.5 ملین بچے سکول نہیں جا رہے ، 54 فیصد پرائمری سکولوں میں ایک ٹیچر ہے ، 26 فیصد سکول ایک کمرے پر مشتمل ہیں ،50 فیصد سکولوں میں چاردیواری موجود نہیں اور 70 فیصد سکولوں میں پینے کا صاف پانی موجو د نہیں ۔

ہمارے نمائندوں نے پاکستان کو سالانہ اربوں روپے دینے والے پروجیکٹس سیندک اور سوئی میں لوگوں کی حالت زار پر کبھی موثر آواز نہیں اٹھائی اور ہمارے نما ئندوں نے گوادر کے آسامیوں کے لئے پنجاب اور سندھ کے لوگوں کی تعیناتی پر آواز نہیں اٹھا ئی ۔

آخر میں بلو چستان کے لوگوں سے میرا سوال ہے کہ کہ کیا صوبے کے پسماندگی میں ہمارا کو ئی کردارنہیں ؟، کرپٹ لوگوں کو خود ہی منتخب کرواتے   ہیں  ان کی حما یت کرتے ہیں یا پھر خا موشی اختیار کر لیتے ہیں ؟۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں