The news is by your side.

ترجمان کے بیانات اور کراچی کے حالات

شہر قائد کے وسائل کا رونا تو سب روتے ہیں مگر اس کو حل کرنے کے لیے اقدامات اور کاوشیں بروئے کار لانے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے، روشنیوں کے اس شہر کو نہ جانے کس کی نظر لگی کہ پہلے اس کا امن و سکون برباد ہوا پھر آہستہ آہستہ عوام کی بنیادی ضروریا ت پوری کرنے والے اداروں کو نظرِ بد لگ گئی۔ ایک دور تھا کہ جب کراچی دنیا کے بہترین شہروں میں شمار ہونے لگا تھا۔

لیکن اب روشنیوں کے اس شہر کا حال یہ ہے کہ کبھی پولیو ورکرز کو نشانہ بنایا گیا تو کبھی اساتذہ کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا ، سماجی کام کرنے والے بھی محفوظ نہ رہے تو فنکار بھی اپنی زندگی کے تحفظ کے لیے بھیک مانگتے نظر آنے لگے ، دوسری جانب تعلیم کے نظام سے لے کر اسپتالوں کے نظام برباد ہوگئے، بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ اس نظام نے اتنی تقویت اختیار کی کہ گلیوں محلوں میں دیکھتے ہی دیکھتے کچروں کے انبار لگ گئے اور کٹر بدہضمی کی وجہ سے پانی باہر پھینکنے لگے۔

POST 1

گٹروں کی بدہضمی اور کچرے کے انبار نے کئی علاقوں میں وبائی صورت اختیار کی تو اسپتال پہنچنے والا مریض وہاں کے نظام کو دیکھ کر بجائے صحیح ہونے کے مزید بیمار ہوگیا ، یوں سمجھیں کہ اگر کوئی شخص بخار کی حالت میں سرکاری اسپتال پہنچا تھا تو اب اُس کو وارڈ میں گندگی اور تعفن کی وجہ سے الٹیاں شروع ہوگئیں۔

کراچی میں کسی بھی ادارے کا مسئلہ ہو بجائے اُس کو حل کرنے کے ترجمان کی جانب سے ٹکر کی صورت میں بیان جاری کردیا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں کراچی کے سب سے بڑے انڈسٹریل ایریا کی ایک فیکٹری میں آگ لگنے کا واقعہ پیش آیا تو فائربریگیڈ حکام کے ترجمان جاگے اور بیان داغ ڈالا کہ اتنے فیصد آگ پر قابو پالیا ہے جلد پوری آگ پر قابو پالیا جائے گا ، دوسری طرف سندھ حکومت کے ترجمان نے آگ پر جلد ی قابو پانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانے کی ہدایت کی تو ایڈمنسٹریٹر کراچی کے ترجمان نے بھی آگ پر جلد قابو پانے کی نوید سنائی ، جبکہ اصل صورتحال قدرے مختلف تھی آگ اس قدر تیزی سے پھیلی کہ اُس نے دوسری فیکٹری کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا اور دونوں جل کر خاکستر ہوگئیں ، ترجمان کی یقین دہانیوں کے برعکس 23گھنٹوں کی جدوجہد کے بعد اس آگ پر بمشکل قابو پایا گیا۔

POST 3

کراچی میں حالیہ بارشوں کے بعد کے الیکٹرک کے 1400میں سے 700سے زائد فیڈر ٹرپ کرگئے ، جس کے بعد تقریباً پورے شہر میں بجلی کی فراہمی معطل رہی ، مگر وہ لوگ جو جنریٹر اور یو پی ایس استعمال کرتے ہیں، انہوں نے ٹیلی ویژن پر دیکھا کہ ترجما ن کی جانب سے شہر میں بجلی کی بحالی کے دعوے کرتے رہے ، کئی علاقوں میں تو بجلی کی بحالی تین روز بعد تک بھی نہ ہوسکی تھی مگر ترجمان کی جانب سے بارہا دفعہ یہ بتایا گیا کہ اتنے فیصد کام ہوگیا ہے بس تھوڑا باقی ہے جلد پورے شہر میں بجلی کی فراوانی ہوگی اور کسی صارف کو کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔

رمضان المبارک میں زکوۃ ، فطرہ جمع کرنے کے حوالے سے باقاعدہ ضابطہ اخلاق جاری کیا گیا ، جس کے مطابق کراچی میں عطیات صدقات خیرات جمع کرنے والے بغیر رسید کے کسی قسم کی کوئی امدادی رقم جمع کرنے والے گروہ یا افراد جر م کے مرتکب ٹھرائے گئے مگر وہی حقیقت اس کے برعکس نظر آئی ، عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ایک جماعت نے دعویٰ کیا کہ اُن کی جماعت نے اس سال سب سے زیادہ فنڈ اکٹھا کرنے کا ریکارڈ بنایا ہے تو کئی مساجد کے باہرلمبے بالوں اورسر کے عین بیچوں بیچ ٹوپی لگائے حضرات کشمیر اور افغانستان میں لڑنے والے افراد کے نام پردیے گئے فنڈ پر جذاک اللہ کی صدائیں بلند کرتے نظر آئے۔

اس ساری صورتحال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹھنڈے کمروں اورموبائل فون پر بیانات دینے سے بہترہے کہ شہر کی زمینی صورتحال کو سمجھتے ہوئے اس کے لیے اقدامات کئے جائیں اور کراچی کے عوام کو ذہنی اذیت و کرب سے نجات دلائی جائے تاکہ پاکستان کا معاشی حب ایک بار پھر پھلتا پھولتا دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرسکے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں