The news is by your side.

اور پھر ایدھی ہار گئے

بالاخر وہ خبر آہی گئی جس کی آمد کا اندیشہ گذشتہ کئی دن سے سر پر منڈلارہا تھا انسانیت کے شفیق رہنما عبدالستار
ایدھی اٹھاسی برس کی عمر میں اس جہانِ فانی سے اس جہان رخصت ہوگئے جہاں حیات ویسی ہی ہے جیسی وہ اس
جہان میں چاہتے تھے

دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے کوشاں عبدالستار ایدھی نے اپنی تمام زندگی دکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف
رہ کرگزاردی، ان کا نام پاکستان کے لیے باعثِ فخر اورقابلِ احترام ہے اور یقیناً رہے گا۔

تقسیم ہند کے بعد 1947 میں ہندوستان سے ہجرت کر کے کراچی میں بسنے والے عبد الستار ایدھی نے بچپن سے ہی
کڑے وقت کا سامنا کیا،اُن کی والدہ پر فالج کا حملہ ہوا تھا جس سے وہ ذہنی و جسمانی معذروی کا شکار ہو کر بستر
سے جا لگی تھیں، جس کے بعد اس ننھے بچے نے کراچی کی سڑکوں پر اپنی ماں کے علاج کی غرض سے در در کی
ٹھوکریں کھائیں تا ہم ماں کی نگہداشت کے لیے ایک بھی ادارہ نہ پایا تو سخت مایوسی میں متلا ہو گئے اور اکیلے ہی
اپنی کا ماں کی نگہداشت میں دن و رات ایک کر دیے۔

اسی ابتلاء اور پریشانی کے دور میں انہیں ایک ایسے ادارے کے قیام کا خیال آیا جو بے کسوں اور لاچار مریضوں کی
دیکھ بھال کرے،اپنے اسی خواب کی تعبیر کے نوجوان عبد الستار ایدھی نے 1951 ء میں صرف پانچ ہزار روپے
سے ایک کلینک کی بنیاد رکھی،یہ کلینک کراچی کے علاقے کھارادر میں کھولا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایسے کئی
رفاحی کلینک کا جال پورے ملک میں پھیلا دیا۔

دوسری جانب ایدھی فاونڈیشن کی ایمبولینسس بد سے بد ترین حالت میں بھی زخمیوں اور لاشوں کو اُٹھانے سب سے
پہلے پہنچ جاتی ہیں،میتوں کے سرد خانے اور غسل و تدفین کا ذمہ بھی اس محسن انسانیت نے اُٹھایا اور تعفن زدہ
لاشوں کو اپنے ہاتھوں سے غسل دینا شروع کیا۔

وہ مذہب وفرقے، رنگ و نسل اور ادنی و اعلیٰ کی تفریق کے بغیرسب کی خدمت کے لیے ہمہ وقت مگن رہتے، وہ اپنے
ادارے کے لیے سڑکوں پر، گلیوں میں در در جا کر چندہ اکھٹا کرتے اور اسے انسانیت کی خدمت میں لگا دیتے اور
اپنی ذات پر گھر و اہل و عیال پر سادگی اور میانہ روی اپنائے رکھتے۔

یہی وجہ ہے انسانیت کے لئے بے لوث خدمات پر انہیں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا،
1980 میں پاکستانی حکومت نے انہیں نشان امتیاز دیا،1992 میں افواج پاکستان کی جانب سے انہیں شیلڈ آف آنر
پیش کی جب کہ 1992 میں ہی حکومت سندھ نے انہیں سوشل ورکر آف سب کونٹی نینٹ کا اعزاز دیا۔ بین الاقوامی
سطح پر 1986 میں عبدالستار ایدھی کو فلپائن نے Ramon Magsaysay Award دیا جب کہ1993
میں روٹری انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کی جانب سے انہیں پاؤل ہیرس فیلو دیا گیا، یہی نہیں 1988 میں آرمینیا میں زلزلہ
زدگان کے لئے خدمات کے صلے میں انہیں امن انعام برائے یو ایس ایس آر بھی دیا گیا۔

دنیا کے نزدیک عبدالستار ایدھی جو کہ بلاشبہ دنیا کی سب سے بڑی فلاحی تنظیم کے روح رواں اورتنہا بانی تھے،
ایک انتہائی کامیاب انسان تھے ، ان کا ادارہ دنیا کی سب سے بڑی فلاحی ایمبولینس سروس کا مالک اور ان کا فلاحی نیٹ
ورک انتہائی وسیع اور عریض اور منظم ہے۔ کہنے والوں کا کہنا ہے کہ بغیر کسی ملکی اور عالمی ادارے کے تعاون
کے محض عوام کی مدد سے اتنا بڑا اورکامیاب فلاحی نیٹ ورک تشکیل دینا صرف ایک معجزہ اور عبدالستار ایدھی کے
عضم و حوصلے کے ہی مرہونِ منت تھا۔

نصف شب سے ایک شور برپا ہے کہ انسانیت کےمحسن عبدالستار ایدھی اب اس دنیا میں نہیں رہے، ایدھی انتقال
کرگئے ، ایدھی اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے، ایدھی صاحب مرگئے اور ان کے انتقال سے پیدا ہونے والاخلا تا دیر
پورا نہیں ہوسکتا وغیرہ وغیرہ۔ نہیں ہرگز نہیں یہ ساری آوازیں جھوٹ بول رہی ہیں ایدھی صاحب مرے نہیں ہے ہاں
یوں کہیے کہ ایدھی صاحب ہار گئے۔

ہائیں! یہ کیا کہہ رہے ہیں فواد رضا آپ، جس ادارے سے آپ تعلق رکھتے ہیں وہ تو یہ کہہ رہا ہے کہ ایدھی صاحب
کامیاب ترین فلاحی شخصیت تھے اور آپ کہتے ہیں کہ وہ ہارگئے۔

جی ہاں! میں یہی کہہ رہا ہوں کہ ایدھی صاحب ساری زندگی جو جنگ لڑتے رہے بالاخر وہ اس جنگ میں ہارگئے۔
دیکھیں نہ آج سے پینسٹھ سال قبل ایدھی صاحب نے ایک کمرے کے دفتر سے ادارے کی بنیادر کھی جس کانام رکھا
ایدھی فاونڈیشن جس کا مقصد تھا دکھی انسانیت کی خدمت کرنا، اس وقت پاکستان ایک نوززائیدہ مملکت تھا جسے پناہ
مسائل کاسامنا تھا لہذا یہ امر درست سمجھا جاسکتا تھا کہ مملکت ہر کام انجام دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے لیکن اس
کے بعد کیا ہوا، جیسے جیسے ایدھی صاحب کا کارواں آگے بڑھتا گیا ویسے ویسے انسانیت کے دکھ بڑھتے گئے
ایدھی صاحب ایک کے بعد ایک شعبہ تشکیل دیتے گئے جس سے بلامبالغہ لاکھوں نہیں کروڑوں افراد ان پینسٹھ سالوں
میں مستفید ہوئے لیکن وہ ایک خواب جو جوان ایدھی نے دیکھا تھا کہ اس جہان سے دکھوں کا خاتمہ ہو شرمندہ تعبیر نہ
ہوسکا، ایدھی اپنے مشن میں آگے بڑھتے گئے تو دوسری جانب انسانیت کے دکھوں میں بھی اضافہ ہوتا رہا، وہ ایک کے
بعد دوسرے محاذ پر معرکہ آرا ہوتے رہے ، ایک جانب سارے جہان کے سارے غم تھے اور دوسری جانب تنِ تنہا
ایدھی۔

اور اس جنگ میں ہم نے کیا کیا ، خوب نعرے لگائے کیا بات ہے ، آگے بڑھو ایدھی صاحب ہم تمہارے ساتھ ہیں لیکن ہم
ناسمجھ محض زبانی نعروں تک ہی محدود رہے دوسری جانب ضعیف ایدھی تھے جن کا حوصلہ جوان تھا وہ انسانیت کے
دکھوں کو مداوا کرتے رہے اور ہم تماشا دیکھتے رہے۔ ان کی اس جنگ کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ تھا کہ ان کے
ارد گرد بسے سماج نے ہی ان پر کیا کیا نہ مکروہ الزام لگادیے لیکن کمال کا حوصلہ تھا کہ ہمیشہ مسکرا کر اپنے مشن
میں مشغول رہے۔

ایک مرتہ کسی نے ان سے سوال کیا کہ آپ ہندوں اور عیسائیوں کی لاشیں کیوں اٹھاتے ہیں تو ایدھی نے جواب دیا
کہ”اس لیے کہ میری ایمبولینس آپ سے زیادہ مسلمان ہے”۔ آہ! لوہے کا جگر چاہیے ایدھی کے اس جواب کی تاب
اٹھانے کو، کس دل سے انہوں نے یہ جواب دیا ہوگا۔

ہاں تو میں کیا کہہ رہا تھا کہ ایدھی مرے نہیں ، ایدھی ہار گئے غربت سے،ایدھی ہار گئے بیماری سے، ایدھی ہارگئے
ظلم سے ، ایدھی ہارگئے وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم سے، ایدھی ہارگئےنظام زر سے ،ایدھی ہارگئے ان بونوں
سے جنہوں نے پاکستانی سماج کوسوائے دکھوں کے کچھ نہیں دیا۔ ان کی آنکھوں میں ایک خواب تھا کہ کسی طرح
انسانیت کے دکھوں کا مداوا ہو، کروڑوں افراد ان کے دستِ فیض سے مستفید ہوئے لیکن انسانیت آج بھی سسک رہی ہے
بلک رہی ہے تڑپ رہی ہے۔

ایدھی کی فتح پندرہ سو ایمبولینسیں نہیں بلکہ ایسے سماج کا قیام ہے جہاں کوئی ماں غربت کے سبب بغیر دوا کے
تڑپ تڑپ کر نہ مرجائے، جہاں کوئی باپ بڑھاپے میں دربدر نہ ہو، جہاں کوئی بیوہ بے سہارا و بے آسرا نہ ہو،
جہاں کوئی یتیم کچرے کے ڈھیرسے کوڑا چننے پر مجبور نہ ہو، کیا آج کوئی ہے جو ایدھی کو فتح سے ہمکنارکرے،
کیا ایدھی کی موت پر سرکاری سطح پر سوگ منانے والی حکومتیں آج ان کے جنازے پر کھڑے ہوکر یہ عزم کریں گی
کہ آئندہ اس معاشرے کو کسی ایدھی کی ضرورت نہ پڑے ۔ ہرگز نہیں نہ تو پھر ایدھی مرے نہیں، وہ زخمیوں کو
سڑک سے اٹھاتی ایمبولینس کے سائرن میں، بے سہارا لڑکیوں کوسائبان فراہم کرنے گھر کی چھت میں، ایدھی سنٹرز
کے باہر جھولتے گہواروں میں زندہ ہیں۔

میں تو جیتا ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں