درس و تدریس ہو، رپورٹنگ ہو، کالم نویسی ہو، تبصرہ نگاری ہو، تجزیہ کاری ہویا پھر شاعری ہی کیوں نہ ہو کامران غنی صباؔ نے ہر میدان میں جدیدیت اور انفرادیت کے زیرِاثر رہتے ہوئے بھرپور قابلِ رشک دادِ آفرین حاصل کی ہے۔ میں کوئی تبصرہ نگار، نقاد یا کوئی تجزیہ کار تو نہیں اورشاعری کا شغف تو مجھے بس سننے یا پڑھنے کاہی ہے مگر کامران کی شاعری کے حوالے سے صرف اتنا ضرورکہوں گا کہ انکی شاعری میں گہری بصیرت، بالغ نظری، بے ساختگی، حسن خیال کی معنی آفرینی، احساس کی نزاکت، معنویت، شفافیت، حلاوت، بلند آہنگی، مسائل حیات کے احاطے، امیدوں کے روشن چراغ، درد مندی، انتہائی وسعت،رنج و مسرت کے علاوہ فلسفیانہ موشگافیوں، صوفیانہ روموز و نکات بھی ملتے ہیں۔ مگر ان کی ایک شاہکار نظم ’’مجھے آزاد ہونا ہے‘‘ کے مطالعے سے ان کے پاکیزہ قلب و ذہن میں اترکران کی نکھرتی سوچ و فکر کو پرکھ کر جو ان کے حوالے سے ایک نیا روپ نئے تاثرات مجھ پر منکشف ہوئے، فی البدیع بیان کررہا ہوں۔
کہا جاتا ہے کہ نظم زندگی کے حسن و قبح کا خوبصورت اندازِ اظہار ہے۔ عام فہم الفاظ کے چناؤ، باوقارمگرسادہ طرزِ بیان کی بدولت محبوب کو راغب کرنے کے لیے شاعروں کا تقریباً ہردور میں نظم لکھنے کے لئے مرغوب ترین موضوع محبت،محبت اورصرف محبت ہی رہا ہےمگریہاں ایسا سراسرکچھ نہیں بلکہ یہ نظم’’مجھے آزاد ہونا ہے‘‘ ایک روایت شکن نظم ثابت ہوئی ہے جس نے بھرپورایمانی جذبے کے ساتھ ضمیروں کو جھنجھوڑ کرزندگی و موت کی حقیقت کاایسا لطیف سا احساس اجاگر کیا ہے کہ عصرِحاضر میں موجود سخن سنج اصحاب ششدررہ گئے ہیں۔ اتنی کم عمری میں ہی اللہ تعالی نے کامران کو ولایت کی اعلیٰ نعمت سے نواز کر اپنے برگزیدہ بندوں میں شامل کر لیا ہےکیونکہ نظم کا عنوان ’’مجھے آزاد ہونا ہے‘‘ہی درحقیقت ایمانی علامتوں میں سے ایک علامت ہے، جیسے حدیث کا مفہوم ہے کہ دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے۔ تو اِس ایمانی کیفیت میں کہ’’جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے‘‘ اب کامران کو آزاد ہونا ہے اِس دنیا میں نام ومقام کی قیدِ فکر سے۔
نظم چارحصوں مشتمل ہے، (۱) موت اٹل حقیقت ہے (۲)، یہاں سب فانی ہے(۳)، کئی ناموربے نام ہوچکے(۴)، تواب بس آزاد ہونا ہے۔
کہاں تک بھاگ پاؤ گے؟۔
کہاں کس کو پکارو گے؟۔
کل نفس ذائقۃ الموت:ہر جاندار کو موت کا مزا چکھنا ہے(الانبیاء ۳۵)۔
موت سے کوئی فرار ممکن ہے کوئی بچاؤ ممکن نہیں، کہیں چھپنا ممکن نہیں۔ قرآن میں ہے:’’آپ کہہ دیں، جس موت سے تم بھاگتے ہووہ تمہیں ضرور ملے گی(الجمعہ ۸) ‘‘، سید وارث شاہ لکھتے ہیں ’’جو کوئی جمیا مرے گا سب کوئی بھجی واہ سب دیہن گے وے‘‘مگر صد افسوس کہ ہم اپنی تمام تر استطاعت دھوکے کے گھر اِس دنیا میں لگا رہے ہیں جسے کسی بھی لمحہ خیرآباد کہہ جانا ہے۔ آج کل مسلمان خرافاتِ دنیا میں اتنا مگن ہے کہ موت کی اٹل حقیقت کو بالکل ہی بھلائے بیٹھا ہے۔نظم کے اگلے مصرعے پیش خدمت ہیں۔
یہ عزت اور شہرت، علم و حکمت
مال و دولت کی فراوانی
یہیں رہ جائے گی اک دن
بہت ہوگا تو بس اتنا
کہ کچھ دن کچھ مہینوں تک
تمہارے نام کا چرچا رہے گا
کسی اخبار میں، جلسے میں، محفل میں
بہت ہوگا تو چلئے مان لیتے ہیں
کہیں کوئی
تمہارے نام کو تحقیق کی بھٹی میں ڈالے گا
کوئی کندن بنائے گا، کوئی شہرت کمائے گا
تمہیں اس سے ملے گا کیا؟
کبھی سوچا ہے تم نے؟
غلغلہ جتنا اٹھے، جب تک اٹھے
آخر بھلا ڈالیں گے سب تم کو
کامران کے اِن مصرعوں میں ایک درد ہے ایک کرب ہے ایک چبھن ہے وہ جان چکا ہے کہ موت سب سے بڑی حقیقت ہے او رزندگی سب سے بڑا دھوکا ہے۔ کبھی سوچا ہے کہ روپ رنگ، باغ و بہار، حسن و شباب،شان و شوکت،رشتے ناطے کچھ بھی سدا نہیں رہیں گے نام لیوا بھی بے نام ہو جائیں گے۔ میاں محمد بخشؒ نے بھی اِس منظر کو بڑی خوبصورتی سے اپنے صوفیانہ کلام میں قلم بند کیا ہے۔
سدا نہ روپ گلاباں اُتے سدا نہ باغ بہاراں
سدا نہ بھج بھج پھیرے کرسن طوطے بھور ہزراں
چاردیہاڑے حسن جوانی مان کیا دلداراں
سکدے اسیں محمد بخشا کیوں پرواہ نہ یاراں
وقت کی برق رفتاری کون روک پاتا ہے بقول امجد اسلام امجد کے ’’وقت سے کون کہے یار ذرا آہستہ۔۔۔۔!‘‘۔ کروٹ بدلتے ،آنکھیں جھپکتے سب بھول جائیں گے بقول پروین شاکر کہ’’ابھی ابھی وہ ملا تھا ہزار باتیں کیں، ابھی ابھی وہ گیا مگر زمانہ ہوا‘‘۔
نظم کا لفظ لفظ تیر بن کرہمارے دلوں میں پیوست ہورہا ہے، وہ ہر زاویے سے بتا ہے کہ بعدازموت دنیا تیرے لئے صفر ہے ایک بار پھر ہمیں یادر دہانی کراتے ہوئے کہتا ہے کہ کیا۔
تمہیں معلوم ہے!۔
اس زندگی کے سارے شعبوں میں۔
سیاست میں، صحافت میں، ادب میں۔
صوت و رنگ و چنگ میں۔
دولت کمانے، سینتنے میں اور لٹانے میں۔
ہزاروں نام ایسے ہیں۔
کہ جن کے سامنے سورج دیے کی لو سا لگتا تھا۔
مگر کوئی کہاں باقی رہا، دائم رہا؟۔
سارے عدم کی راہ کے راہی؟۔
کسی ایسے جہانِ بے نشاں میں جا بسے۔
میرا نام و نامود، میری دولت میری شہرت میرے عہدے سب آنکھ کا دھوکا ہیں، بابا بلھےؒ شاہ اِسے اپنے صوفیانہ کلام میں لکھتے ہیں کہ ’’نہ کر بندیا میری میری، نہ تیری نہ میری، چاردناں دا میلہ، دنیا فیر مٹی دی ڈھیری‘‘، سلطان باہوؒ فرماتے ہیں کہ ’’ہر کوئی آکھے میری میری، نہ میری نہ تیری ہو‘‘۔
ملے خاک میں اہلِ شان کیسے کیسے
مکیں ہوگئے لامکاں کیسے کیسے
مگر افسوس ہم دنیاوی زندگی کی موت اور اخروی زندگی کی ابتداسے بے فکرہیں اور مقصدِ حیات سے بالکل لاپروا بھی لیکن کامران پراِس راز و حقیقت سے پردے ہٹ چکے ہیں کہ موت صرف فنا یا مرگ نہیں بلکہ لمحہ فکرتو یہ ہے کہ حیات انسان کی نئی شکل میں ایک دنیا سے دوسری دنیا میں منتقلی کا نام ہے،اِسی لئے وہ مقصدِ حیات سے بخوبی واقف بھی ہو چکا ہے وہ قلم کاروں میں ایک نمایاں مقام حاصل کرنے کے باوجود اپنی شہرت سے متاثر نہیں کیونکہ اُسے اب آخروی زندگی کی فکر نے جکڑ رکھا ہے۔ کامران اپنے زیرِ تبصرہ نظم کے آخری مصرعوں میں کچھ بیان کیا ہے کہ۔
جانو، کسی کا نام تک کوئی نہیں ہوتا۔
یہی سب کچھ میں اکثر سوچتا ہوں۔
اور جب بھی سوچتا ہوں۔
تب مجھے یہ سب فقط کارِ عبث محسوس ہوتا ہے۔
مرا جی چاہتا ہے تیاگ کر سب کچھ۔
کسی گمنام بستی میں چلا جاؤں۔
جہاں میرے کسی پہچاننے والے۔
کسی بھی جاننے والے کے جانے کا۔
کوئی امکاں نہ ہو۔
اس گوشۂ عزلت میں، اس پاتال میں۔
گم نام ہو جاؤں۔
مجھے آزاد ہونا ہے۔
زمانے بھر کی ہر خواہش سے۔
ہررعنائی سے، جھوٹی نمائش سے۔
مجھے آزاد ہونا ہے۔
سوچتے سوچتے ایک گہری سوچ میں کامران نے حقیقت کو بڑی ہی خوبصورتی سے بیت کے سانچے میں ڈھالتے ہوئے مان لیا ہے کہ جیسے بدصورتی کے تناظر میں حُسن حُسن ہے ایسے ہی موت کے تناظر میں ہی زندگی زندگی ہے۔
زندگی کیا ہے فقط طائرِ قفس روح
موت کیا ہے اسے زنداں سے گریزاں ہونا
بس۔۔۔۔ تو کیوں نہ مختصر سی زندگی میں اِس دنیا کی رعنائیوں، چکا چوند آسائشوں،خواہشات،مراعات،مفادات کی غلامی سے آزادی حاصل کر لی جائے اور انکے حصول کے خلاف واضح اور واشگاف الفاظ میں بے زاری کا اعلان کر دیا جائے اورایسی گمنام بستی میں قیام پذیر ہوجایا جائے، جہاں میرا نام میرا کام پیچھا نہ کریں۔ جہاں اللہ اور اُس ذکر کے سوا کوئی نہ ہو۔ جیسے بابا بلھے شاہؒ نے فرمایا ہے کہ ’’چل بلھیا چل اوتھے چلئے، جتھے سارے اَنہے، نہ کوئی ساڈی ذات پچھے، نہ کوئی سانوں منے‘‘۔ اِس سے قبل کہ وقتِ مقررچوکھٹ پرآجائے، زادِ راہ باندھ لیا جائے کیونکہ جانا تو اٹل ہے آج بلاوا آ جائے یا کل۔
کوئی بن گیا رونق پکھیاں دی، کوئی چھوڑ کے شیش محل چلیا
کوئی پلیا ناز تے نخریاں وچ، کوئی ریت گم تے تھل چلیا
کوئی بھل مقصد آون دا، کوئی کرکے مقصد حل چلیا
اتھے ہر کوئی فرید مسافر اے کوئی اج چلیا کوئی کل چلیا
(بابا فریدؒ )۔
دعاہے کہ مسلم کے دل و دماغ میں ’’مجھے آزاد ہونا ہے‘‘ جیسی ایمانی علامت کا ظہور ہوجائے ،تا کہ قیدِ دنیا سے بیزاری اورآخرت کی تیاری کے سوا کوئی فکر لاحق نہ رہے ، وقت نزع کلمہ نصیب ہو جائے اورہم کامیاب آخروی زندگی میں قدم رکھ سکیں۔