آٹھ اگست – پاکستان کے جسم پر ملک دشمن عناصر ایک اورکاری ضرب لگا کر لہو کی ندیاں بہانے میں کامیاب ہوگئے ، بلوچستان کا صوبائی دارالحکومت کوئٹہ اوراس کا سول اسپتال اپنے ہی شہریوں کے خوں سے سرخ ہوگیا، اطلاعات ہیں کہ سانحے میں تریسٹھ افراد شہید ہوئے ہیں جبکہ چالیس سے زائد زخمی ہیں جن میں سے بیشتر کی حالت تشویش ناک ہے۔
کوئٹہ شہر میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ پاکستان کا کونسا ایسا شہر ہے جو دہشت گردی کے اس عفریت کے پنجوں سے محفوظ رہا ہو، اس وطن کی ہر ایک رگِ جاں نے لہو چھڑکا تھا تب کہیں جاکرنیشنل ایکشن پلان طے پایا تھا اور آپریشن ضربِ عضب کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ آپریشن ضرب عضب ابھی جاری ہی تھا کہ آرمی پبلک اسکول پشاور، کا سانحہ ہوا اور ابھی اسکے زخم سوکھے بھی نہ تھے کہ کراچی میں صفورا میں اسماعیلی برادری کی بس کو لہو سے نہلادیا اور ابھی یہ لہو بھی خشک نہ ہواتھا کہ چارسدہ کی یونیورسٹی میں حملہ ہوا۔ لاہور کا گلشن اقبال پارک ہو یا شکار پور کا امام بارگاہ الغرض اس وطن کے ہر ایک حصے پر دہشت گردوں نے اپنے کاری نقوش ثبت کیے ہیں۔
آپریشنِ ضرب عضب اپنی درست سمت میں جاری و ساری ہےاور ملک کے شمالی علاقہ جات سے اب خیر کی خبریں آرہی ہیں لیکن اب مشکل یہ ہے کہ دہشت گردوں نے اب آسان اہداف کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے جس کے سبب وہ ایک کاروائی کرتے ہیں لیکن ایسی کہ سینے سے دل نوچ لیتے ہیں، آہ کیسے کیسے جوان تھے جو اس جنگ کی نظر ہوگئے اور جنگ بھی ایسی کہ سمجھ ہی نہیں آتا کہ جو سامنے ہے وہ دشمن ہے یا جو ہمارے ہی پہلو میں اس سامنے والے کو بچانے کی کوشش کررہا ہے ۔
یہ وار کرگیا ہے پہلوسے کون مجھ پر؟
تھا میں ہی دائیں بائیں اور میں ہی درمیاں تھا
جون ایلیا
سمجھ سے باہر ہے کہ آخر کچھ لوگ کس طرح ایسے انسانیت سوز واقعات پر اگر، مگر ، یہ اور وہ کی گنجائش پیدا کرلیتے ہیں اور دہشت گردوں کے لیے جواز پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں۔ کیا ایسا کرنے والے لوگ انسانیت نام کی شے نا واقف ہیں ، کیا ان کے سینوں میں دل نہیں دھڑکتے یا انہیں یہ خوف نہیں ہے کہ دہشت گردی کی یہ آگ کہیں ان کا دامن نہ جلادے۔
میں آج اگر زد پہ ہوں تو خوش گماں نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
جون ایلیا
پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے نامساعد ترین دور سے گزر رہا ہے بلکہ پاکستان کیا پوری امت مسلمہ ہی دہشت گردی کے اس عفریت کی شکار ہے، چاہے وہ افغانستان ہو یا عراق، شام ہو یا ترکی ، بم دھماکے اور گولیوں کی تڑتڑاہٹ نے فرزندانِ توحید کی اجتماعی زندگی مسخ کرکے رکھ دی ہے اور اس کی ذمہ دار جو ہیں وہ ہر صورت قابل مذمت و سزا ہیں ، چاہے وہ کسی مسلمان دشمن ملک کی ایما پر ایسا کررہے ہوں یا کسی نظریے کی بنا پر انسانیت کا خون بہا رہے ہوں۔ امت مسلمہ کی اکثریت کا عالمی بیانیہ آج بھی یہی ہے کہ ایک انسان کا قتل ( بلاتفریق مذہب) پوری انسانیت کا قتل ہے۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاکِ کاشغر
علامہ اقبال
سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد لکھے گئے ایک بلاگ میں میں نے کہاتھا کہ وہ قوم جو ایسے دردناک حالات سے گزررہی ہو اسے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ سڑکوں پر آئے ، غل مچائے اور نئے سال کا جشن منائے ۔ ایک جشن ابھی نزدیک ہی ہے اور کوئٹہ کو شاید اسی جشن کی عظیم الشان تیاریوں کی ہی سزا دی گئی ہے لیکن نئے سال کے جشن اور جشن ِ آزادی میں ایک فرق ہے، جشن آزادی ہم ان قربانیوں کی یاد میں مناتے ہیں جو ہمارے بزرگوں نے آزادی جیسی انمول نعمت حاصل کرنے کے لیے دیں اور اسی آزادی کو قائم و دائم رکھنے کے لیے ہم اتنے مصائب جھیل رہے ہیں لاشے اٹھار ہے ہیں لیکن اپنے دشمن کو خود پر غالب نہیں آنے دے رہے بلکہ اس کو اس کی کمیں گاہوں تک پہنچ کر مارر ہے ہیں لہذا سانحہ کوئٹہ میں شہید ہونے والے میرے بہن بھائیوں کا غم اپنی جگہ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جشن آزادی اسی جوش وجذبے سے منا جائے جیسا کہ اس سانحے سے قبل منانے کا سوچاتھا اورتیاریاں کی تھیں کیونکہ ہم بحیثیت ایک آزاد قوم اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں اورآزاد قومیں ایسے نامساعد حالات سے سراٹھا کر سرخرو ہو کر نکلا کرتی ہیں ۔