The news is by your side.

یومِ آزادی: خبردار نعمت کو زحمت مت سمجھو

 یومِ آزادی  ایک خاص اہمیت کا حامل اور حب وطنی کا جذبے بھرپور ایک خاص دن ہوتا ہے ۔۔ ایک ایسا دن جس کا بچوں اور نوجوانوں کوعید کے دن کی طرح ہی انتظار ہوتا ہے ۔۔ گھروں ، چھتوں ، گاڑیوں ، موٹر سائیکلوں کو لوگ سجانا شروع کر دیتے ہیں ۔۔ بچوں کے سکولوں کالجوں وغیرہ میں بھی خاص پروگرام ہوتے ہیں ۔ کچھ تجزیہ نگاروں کے تجزیے، کالم نویسوں کے کالم بہت عجیب اور حیران کن انداز میں بات کرتے ہیں 14 اگست کی اہمیت اور اسکی بنیاد کو کھوکھلا کرنے کے لیے سازشیں کرتے رہتے ہیں اور کچھ حضرات بیرون ِ ملک سے خرچہ لے کر پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی ہیں انھیں غیرت کھانی چاہیں اور انھیں بتانا چاہتا ہوں کہ 14 اگست صرف ایک دن نہیں بلکہ ایک خاص تہوار ہے جس دن پاکستان معرض وجود میں آیا ۔

14 اگست، آزادی، اور جشنِ آزادی کا مفہوم کیا ہے، عام لوگ اور بالخصوص نئی نسل کی اکثریت اس سے بالکل بے بہرہ ہے۔ ان پڑھ تو چلو پروپیگینڈے کا شکار ہیں، لیکن پڑھے لکھے بھی غیر تاریخ کے طوطے بنے ہوئے ہیں۔ آزادی کا تصور ان سب کے لیے ایک مجرد اور رومانوی تصور کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ بس یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے 14 اگست کو آزادی حاصل کی۔ کس سے حاصل کی، کیوں حاصل کی، اور کیسے حاصل کی؛ ان بنیادی سوالات سے انھیں کوئی سروکار نہیں۔ اس روز ایسے بینر بھی آویزاں کیے جاتے ہیں، جن پر آزادی کے شہیدوں کو سلام پیش کیا جاتا ہے۔ اس بے خبری کا نتیجہ یہ برآمد ہو رہا ہے کہ 14 اگست اور آزادی کا تصور محض ایک خالی خولی نعرے میں تبدیل ہو گیا ہے اور ظاہری ٹپ ٹاپ، دکھاوا، ہلڑ بازی اور لاقانونیت اس دن کی پہچان بنتی جا رہی ہے۔

aug-post7

ہم لوگ سارا سال پاکستان کی کمزوریوں پر مباحث میں اُلجھے رہتے ہیں جو خصوصاً اگست کے مہینے میں مزید دھواں دھار صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ لیکن اگر سال میں ایک دن یہ بھی سوچ لیا جائے کہ گزشتہ ایک سال میں ہم نے ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے کیا کیا؟ ہمارا کون سا عمل صرف اور صرف پاکستان کے مفاد کے لئے تھا؟ تو شاید بہت سی بے مقصد باتوں پر بحث میں وقت ضائع نہ ہو۔

14 اگست کا دن پاکستان میں قومی تہوار کے طور پر بڑے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے اس کے علاوہ پاکستانی جو بیرونِ ملکوں میں مقیم ہیں وہ بھی بہت جوش خروش سے اس دن کی تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں ۔۔ بالخصوص پچھلے سال مجھے دبئی میں 14 اگست منانے کا موقع ملا ۔ یہ دن وہاں موجود پاکستانیوں کے لیے باعث فخر اور پرمسرت ہوتا ہے ۔۔اس دن نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک میں بھی لوگ پاکستان جھنڈوں سے گھروں کمروں ، اپنی رہائش گاہوں کو سجاتے ہیں ۔ دنیا کو دکھاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ پاکستان اس دن آزاد ہوا تھا اور دو قومی نظریہ کی اہمیت اجاگر کرتے ہیں کہ پاکستان کیوں بنا ۔

پاکستان بنانے کے لیے بزرگوں ، نوجوانوں ، بچوں ، یعنی مسلمانوں نے بہت قربانیاں دی ہیں ۔

14 اگست 1947ء کا سورج برصغیر کے مسلمانوں کے لیے آزادی کا پیامبر بن کر طلوع ہوا تھا۔ مسلمانوں کو نہ صرف یہ کہ انگریزوں بلکہ ہندؤوں کی متوقع غلامی سے بھی ہمیشہ کے لیے نجات ملی تھی۔ آزادی کا یہ حصول کوئی آسان کام نہیں تھا جیسا کہ شاید آ ج سمجھا جانے لگا ہے۔ نواب سراج الدولہ سے لے کر سلطان ٹیپو شہید اور آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر تک کی داستاں ہماری تاریخ حریت و آزادی کی لازوال داستان ہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے المناک واقعات بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ سات سمندر پار سے تجارت کی غرض سے آنے والی انگریز قوم کی مسلسل سازشوں، ریشہ دوانیوں اور مقامی لوگوں کی غداریوں کے نتیجے میں برصغیر میں مسلمانوں کی حکومتیں یکے بعد دیگرے ختم ہوتی چلی گئیں۔ اگرچہ مسلمان حکمرانوں اور مختلف قبائل کے سرداروں نے سر دھڑ کی بازی لگا کر اور جان و مال کی عظیم قربانیاں دے کر انگریزوں کو یہاں تسلط جمانے سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوششیں کیں تھیں۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے کیا خوبصورت بات کی تھی کہ’’ پاکستان اسی دن یہاں قائم ہو گیا تھا، جس دن برصغیر میں پہلا شخص مسلمان ہوا تھا‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے کبھی بھی انگریز کی حکمرانی کو دل سے تسلیم نہیں کیا تھا۔ انگریزوں اور ان کے نظام سے نفرت اور بغاوت کے واقعات وقفے وقفے کے ساتھ بار بار سامنے آتے رہے تھے۔ برطانوی اقتدار کے خاتمے کے لیے برصغیر کے مسلمانوں نے جو عظیم قربانیاں دی ہیں اور جو بے مثال جدوجہد کی ہے۔ یہ ان کے اسلام اور دو قومی نظریے پر غیر متزلزل ایمان و یقین کا واضح ثبوت ہے۔ انہی قربانیوں اور مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں بالآخر پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا۔

aug-post4

جب ہم تحریک پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو اس تاریخی جدوجہد میں یہ بات سب سے زیادہ نمایاں طور پر ہمیں نظر آتی ہے کہ مسلمان اپنے جداگانہ اسلامی تشخص پر مصر تھے۔ یہی نظریہ پاکستان اور علیحدہ وطن کے قیام کی دلیل تھی۔ ہر قسم کے جابرانہ و غلامانہ نظام سے بغاوت کرکے خالص اسلامی خطوط پر مبنی نظام حیات کی تشکیل ان کا مدعا اور مقصود تھا۔ جس کا اظہار و اعلان قائد اعظم محمد علی جناح نے بار بار اپنی تقاریر اور خطابات میں کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ تحریک پاکستان کے دوران برصغیر کے کونے کونے میں: لے کے رہیں گے پاکستان، بن کے رہے گا پاکستان۔ مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ ؛ اور پاکستان کا مطلب کیا؟، لا الہ الا اللہ

یہ نعرے برصغیر کے مسلمانوں کے دلی جذبات کے حقیقی ترجمان تھے۔

عرصہ دراز سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے مسلمانوں کو آزادی ملنے کی امید پیدا ہو چلی تھی۔ وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ اگر یہ موقع ہاتھ سے نکل گیا تو پھر انگریزوں کے چلے جانے کے بعد وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہندو بنیا کی غلامی میں چلے جائیں گئے۔ وہ ہر طرح کے سامراج سے چھٹکارا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے بڑی سے بڑی قربانی دی جاسکتی تھی، مگر اس مقصد سے پیچھے ہٹنا انہیں گوارا نہ تھا۔

پاکستان کا قیام شب قدر، جمعۃ الوداع ماہ رمضان المبارک 1368ھ بمطابق 14 اگست 1947ء عمل میں آیا۔ ظہور پاکستان کا یہ عظیم دن جمعۃ الوداع ماہ رمضان المبارک اور شب قدر جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، محض اتفاق نہیں ہے بلکہ خالق و مالک کائنات کی اس عظیم حکمت عملی کا حصہ ہے۔

13اپریل 1948 ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں تقریر کرتے ہوئے بانی پاکستان نے فرمایا۔۔۔


ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا بلکہ ہم ایسی

جائے پناہ چاہتے تھے جہاں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں


پاکستان کرہ اراض کا واحد ایسا ملک ہے جس کی بنیاد ایک نظریہ پر رکھی گئی اور وقت کی سفاک طاقتوں سے اس نظریہ کو منوانے کیلئے اسلامیان ہند نے جو انگنت قربانیاں دیں اقوام عالم کی تاریخ میں ان کی مثال نہیں ملتی۔ برسہا برس کی جدوجہد کے بعد ایک خدا، ایک رسولؐ اور ایک قرآن پر ایمان رکھنے والوں نے ایک قائد کی قیادت میں پاکستان اس نظریہ کی بنیاد پر حاصل کیا کہ مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں جس کا طرز زندگی، ثقافت اور دین سب سے الگ ہے۔ اس قوم کا کسی بھی دوسری قوم میں یا قومیت میں ضم ہونا قطعی طور پر ناممکن ہے۔

دو قومی نظریہ کیا یا اس کی بنیاد کیا ہے؟ اس کا انداز بانی پاکستان حضرت قائداعظمؒ کی اس تقریر سے کیا جا سکتا ہے جو انہوں نے 8 مارچ 1944 کو علی گڑھ یونیورسٹی میں طلبا کے اجتماع میں کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا۔ ’’پاکستان اس دن معرض وجود میں آ گیا تھا جب ہندوستان میں پہلا غیر مسلم مسلمان ہوا تھا‘‘ اسی طرح 17 نومبر 1945 کو بابائے قوم نے ایڈورڈ کالج پشاور میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’ہم دونوں قوموں میں صرف مذہب کا فرق نہیں، ہمارا کلچر ایک دوسرے سے الگ ہے۔ ہمارا دین ہمیں ایک ضابطہ حیات دیتا ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے ہم اس ضابطہ کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔

اب کچھ عرصے سے ان عناصر کی طرف سے بھارت کو پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دینے کا واویلا کیا جا رہا ہے۔ ایسے لوگوں کی عقل کا ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ ان سے پوچھا جائے کہ کیا پاکستان بھارت کو اس لئے پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دے دے کہ اس بھارت نے 1947ء سے پاکستان کی شہ رگ کشمیر کو اپنے پنجہ استبداد میں لے رکھا اور اپنے وطن کشمیر کو آزاد کرانے کی جدوجہد کرنے والے لاکھوں کشمیری نوجوانوں کو شہید کرچکا اور کرتا رہتا ہے۔

بھارت پاکستان آنیوالے دریاؤں پر اپنے زیر تسلط علاقوں میں غیر قانونی بند باندھ کر پاکستان کے حصے کا پانی روکنے کی روش پر قائم ہے جس کا مقصد پاکستان کے سرسبز علاقوں میں پانی کی ترسیل بند کرنا اور اسے ریگستانوں میں تبدیل کرنا ہے۔ تاکہ پاکستان کے مسلمانوں کو ایتھوپیا ایسے سنگین حالات کا سامنا کرنا پڑے یہاں کے لوگ اناج کے ایک ایک دانے کو ترسیں۔

aug-post2

دوقومی نظریہ اور پاکستان کے بارے میں جو لوگ غلط باتیں کرتے ہیں انھیں کشمیر کے حالات نظر نہیں آ رہے
جمعوں کشمیر میں بھارتی کیسے ظلم و ستم کی داستانیں رقم کر رہے ہیں ؟۔

برصغیر میں دو قومی نظریہ اتنا ہی پرانا ہے جتنی تاریخِ اسلام پرانی ہے ۔ پاکستان بنانے کا مقصد بہت عظیم تھا۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان 14 اگست کو نہیں بلکہ پندرہ اگست کو بنا جناب بات یہ کہ اعلان کو ہوا ، اور ہجرت بھی لوگوں نے 14 اگست سے شروع کر دی ، یہ بات نہیں ہے کہ کب پہنچے یا کب انکو منزل پر پہنچے کی مبارک باد دی گئی ۔۔ جب اعلان ہوا کہ پاکستان بن گیا ہے لوگ ہجرت کر کے یہاں آجائیں ۔۔ وقت اوردن تو وہ نوٹ کیا جاتا ہے ۔۔ اور سب سے بڑھ کر شب قدر کی مبارک شب تھی اور 14 اگست کا دن تھا ۔

کچھ لوگ نئی نسل کو کس بحث مباحثے میں ڈال رہے ہیں ؟؟ اس سے کیا حاصل ۔ ملک اور آزادی کی قدر غلام ملکوں سے پوچھو ، کشمیریوں سے فلسطینیوں ، عراقیوں سے پوچھو ۔

aug-post1

پاکستانیوں آپ کی نگاہ اس طرف کم گئی ہے دنیا کی تاریخ میں اتنی قلیل مدت میں یہ وہ پاکستان ہے جس نے 63 سال کی عمر میں 8 جنگیں لڑیں تقسیم کے وقت1948 کشمیر کی جنگ، 1965 میں ہندستان کی مسلط کردہ جنگ، 1971 میں ہندوستان کی مسلط کردہ جنگ، 1999 میں کارگل کی جنگ، دنیا کی سپر پاور روس سے افغانستان میں جنگ، دنیاکی سب سے بڑی 50 لاکھ مہاجرت کو اپنے ملک میں پناہ دی. موجودہ دوسری سپر پاور امریکہ سے جنگ اس کے باوجود پاکستانیوں پاکستان زندہ بلکہ ایٹمی قوت بھی ہے. یہ وہ پاکستان ہے جس کے خلاف اسرائیل، انڈیا اور امریکہ نے اتحاد کرلیا ہے لیکن اس وقت تک اللہ کے حکم سے ناکام ہیں یہ وہ پاکستان ہے جس نے عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل کے چھ ایف سولہ جہاز گرائے تھے جب کہ سارا عرب اسرائیل کے آگے گھٹنے ٹیک چکا تھا. یہ وہ پاکستان ہے جس نے سری لنکا کی 60,000 آرمی کو انڈیا کے تربیت یافتہ تامل ٹاگر کے خلاف تربیت و مدد فراہم کی۔

کوئٹہ میں خودکش بم بلاسٹ ہوا ہے  جس کا مقصد صرف اور صرف جشن آزادی کی تقریبات کو خراب کرنا ، آزادی کے رنگ میں بھنگ ڈالنا ، مگر سوال یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پرنٹ کر کے صرف دراز میں سمبھال کر رکھنے کے لیے بنایا گیا ہے ؟؟ حکومت کب نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کروا کرسکیورٹی صورتحال بہتر بنائے گی ؟؟ 14 اگست کے جشن کو خراب کرنے کے لیے دہشت گرد ، پاکستان دشمن مزید دہشت گردی کی کاروائیاں کر سکتے ہیں ۔ دہشت گردوں کو سبق دینے کا وقت آگیا ہے ۔ ہمارے حوصلے پست نہیں ہونگے اس جیسی بزدلانہ کاروائیوں سے ۔

امید ہے آرمی کا کومبنگ آپریشن دہشت گردی کی کارئیوں کی رکوک تھام میں مدد دے گا ۔ اور دہشت گردی کو ختم کرے گا انشاء اللہ ۔۔ مگر حکومت کو نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کروانے کے لیے شاید کوئی نیا پلان بنانا پڑے گا  جو کہ اگلی دفعہ حکومت میں دوبارہ آنے کے بعد سوچیں گے شاید ۔

ہمیں اس جشن آزادی کے موقع پر پاکستان کی خاطر سوچنے اور کام کرنے کا پختہ ارادہ کرکے اس پر عمل کرنا ہوگا ۔۔ یہ مت سوچو کہ پاکستان نے کیا دیا بلکہ یہ سوچو کہ تم نے پاکستان کو کیا دیا ہے ۔۔ امید ہے اس 14 اگست کا سورج پاکستان میں امن و خوشحالی کا پیغام لے کر طلوع ہوگا انشاءاللہ ۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں