The news is by your side.

پی پی 7 – 2018 کے انتخابات کا ضمیمہ ثابت ہوسکتا ہے

ضمنی الیکشن ہمیشہ سے حکومتی جماعت کی جھولی میں گرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا مفروضہ ہے جو حقیقت بھی ہے اور صرف ایک بیان بھی ۔ ہاں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اکثر حکومتی جماعت ہی ضمنی الیکشن میں سرخرو ہوتی ہے مگر جس طرح کا ضمنی الیکشن  این  اے 61جہلم   میں ہوا وہ ایک ایسا معرکہ ضرور کہا جا سکتا ہے جس میں حکومتی جماعت ہارتے ہارتے بچی ہے۔ فواد چوہدری صاحب کے بارے میں تو کم و بیش یقین ہی تھا کہ وہ مقابلے کی سکت نہیں رکھتے کیوں کہ پارٹیاں بدلتے بدلتے وہ اعتماد کھو چکے ہیں۔ لیکن حیران کن طور پرپی پی 232  میں جو نتائج سامنے آئے اس کے مطابق بادی النظر میں تو حکومتی امیدوار کامیاب ہو گئے لیکن غیر جانبدار اندازے اس کو حکومت کی ناکامی ہی گردان رہے ہیں۔ کیوں کہ ہار کا فرق اتنا کم ہے کہ وہ ہار محسوس ہی نہیں ہو پا رہی ۔ پاکستان تحریک انصاف صوبائی حلقے سے ہار کو اس لیے بھی اپنی فتح گردان رہی ہے کہ وہاں اُن کی امیدوار ایک خاتون تھیں۔

جہلم کی نشست گرتے پڑتے محفوظ کر لی گئی ۔ چاہے کم فرق سے ہی سہی۔۔۔ اب پنجاب کے ایک اور صوبائی حلقے میں کانٹے دار مقابلے کا امکان ہے اور یہ حلقہ ہے  پی پی  7 ،   جو پاکستان تحریک انصاف کے ممبر صوبائی اسمبلی خان صدیق خان (مرحوم) کے انتقال کی وجہ سے خالی ہوئی ہے۔ اب تک ہونے والے تمام ضمنی انتخابات میں شاید یہ دلچسپ ترین انتخاب ہو گا کیوں کہ جہاں ایک طرف پاکستان تحریک انصاف کو اپنی یہ سیٹ بچانے کے لالے پڑئے ہوئے ہیں وہیں یہ سیٹ نواز لیگ کے اہم ترین راہنما چوہدری نثار علی خان کے لیے بھی درد سر بنی ہوئی ہے۔ ایک طرف پہلے کی جیت کا بھرم رکھنے کی کوشش جاری ہے تو دوسری طرف اپنی کارکردگی کی بنیاد پہ ماضی کو ہار کو جیت میں بدلنے کے لیے جتن کیے جا رہے ہیں۔ کہنا بعید از قیاس نہیں کہ یہ حلقہ دونوں جماعتوں کے لیے ’’گلے کی ہڈی‘‘ بن چکا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف نے اس حلقے میں انتقال کر جانے والے رکن خان صدیق خان (مرحوم) کے صاحبزادے عمار صدیق خان جب کہ نواز لیگ نے چوہدری نثار علی خان کے بااعتماد ساتھی حاجی عمر فارق کو ٹکٹ سے نوازا ہے۔ دونوں امیدواروں کا تعلق ٹیکسلا اور نواحی علاقوں سے ہے۔ اصل مقابلہ تو بلاشبہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ (نواز)میں ہی ہے لیکن پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرین کے ٹکٹ پر انتخاب لڑنے والے چوہدری کامران اسلم بھی ایک اہم شخصیت کے طور پر سامنے ہیں۔ ان کے لیے ہار جیت سے زیادہ بس اپنا ذاتی تشخص قائم رکھنا ہی اہم ہے۔

غیر جانبدار تجزیہ کاروں کا ایک خیال یہ بھی ہے کہ اس حلقے سے پاکستان تحریک انصاف کے راہنما غلام سرور خان جو قومی اسمبلی کی اہم نشست جیت پاتے ہیں وہ ان کے مرحوم بھائی کی محنت کے مرہون منت ہوتی تھی۔ لہذا ان کے لیے یہ الیکشن نہایت اہمیت اختیار کر چکا ہے کہ اگر وہ یہ الیکشن جیت جاتے ہیں تو یہ ثابت کر پائیں گے کہ ان کا ذاتی تشخص ابھی حلقے میں قائم ہے اور وہ الیکشن جیت سکتے ہیں۔ اگر وہ یہ ضمنی الیکشن ہار جاتے ہیں تو پھر تجزیہ کاروں کی رائے پہ صداقت کی مہر لگ جائے گی کہ اس حلقے سے جیت کا سہرا مرحوم صدیق خان کی وجہ سے بندھتا تھا۔

دوسری جانب چوہدری نثار علی خان کے لیے یہ انتخابات اس لیے اہم ہیں کہ انہوں نے ترقیاتی کاموں کا جال سا بچھا دیا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ یونین کونسل اڈیالہ میں زیر آب آتے مکانات کو بچانے کے لیے بائیس کروڑ کی گرانٹ نہ صرف منظور کروائی بلکہ کام بھی پوری رفتار سے جاری ہے۔ دوسری طرف اڈیالہ روڈ کو دو رویہ کرنے کا کام بھی آخری مراحل میں ہے۔ حکومتی جماعت اگر یہ انتخابات ہار جاتی ہے تو پھر نہ صرف یہ وفاقی وزیر داخلہ کے لیے بہت بڑی ہزیمت ہو گی بلکہ اگلے انتخابات بھی ان کے لیے مشکل ہو جائیں گے۔

پاکستان تحریک انصاف کو جہاں اڈیالہ یونین کونسل میں راجہ طاہر گروپ کی حمایت حاصل ہو گئی ہے وہیں پہ نواز لیگ کو سید واصف شاہ جیسا بڑا گروپ اس حلقے میں مل گیا ہے اس گروپ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چوہدری نثار صاحب نے اس گروپ کے راہنما سید واصف حسین شاہ سے بذات خود پنجاب ہاؤس میں ملاقات کی اور شکریہ ادا کیا۔حاجی افتخار گروپ(اڈیالہ)، حاجی سلیم گروپ( گورکھپور)،ٹیکسلا سے حاجی دلدار گروپ، چن شاہ گروپ، اور دیگر علاقوں سے اہم شخصیات کی اکھاڑ پچھاڑ بھی ان انتخابات میں اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پی پی-7 کے ضمنی انتخابات دونوں پارٹیوں کے لیے گلے کی وہ ہڈی بن گئے ہیں کہ جسے اگلنا بھی ممکن نہیں اور نگلنا بھی بس میں نہیں ۔یعنی نہ تو اس انتخاب کی اہمیت سے انکار کیا جا سکتاہے۔ نہ ہی اس کے نتیجے کو نظر انداز کرنا آسان ہو گا۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں