The news is by your side.

سانحہ حیدرآباد اورہم

ستمبر30، 1988حیدر آباد میں ایک قیامت بپا کر کے چلا گیا۔ اُس روز سورج روز کی طرح اپنی ہلکی زرد کرنوں کے ساتھ غروب ہورہا تھا ۔ بازار اور گلیوں میں روز کی طرح  آج بھی رونق تھی۔ اسٹاپ پر لوگ کھڑے اپنی منزلوں پر جانے کے لئے گاڑیوں کا انتظار کر رہے تھے ۔ کچھ لوگ منزلوں کی جانب رواں دواں تھے ۔ چونکہ یہ جمعے کا روز تھا تو اس دن کو اہلیان حیدرآباد کالے جمعے کا دن بھی کہتے ہیں۔
مغرب کی اذانیں ہوئیں لوگ ادائیگی نماز کے لیے مساجد کی طرف روانہ ہوئے پھر یک دم اندھیرا ہوتے ہی پورے شہر  میں بلیک آؤٹ ہوگیا۔ اُسی اثناء میں حیدرآباد کے مختلف علاقوں میں مسلح افراد کی درجنوں گاڑیاں گھس آئی۔  ہتھیاروں سے لیس ان شرپسندوں نے عوام پر اندھا دھند فائرنگ کی اور یہ فائرنگ بیک وقت حیدر آباد کے مختلف گنجان آباد علاقوں اور بازاروں گاڑی کھاتہ ،ہیر آباد ،پریٹ آباد ،ٹنڈو ولی محمد ،سرے گھاٹ، تلک چاڑی ،کالی موری ، لچپت روڈ ، اسٹیشن روڈ ،کھوکھر محلہ ، پکا قلعہ ، اسٹیشن روڈ صدر ،سرفراز کالونی اور لطیف آباد میں شروع ہوئی۔

اس حملے میں دستی بم بھی استعمال کئے گئے ۔ مسلح دہشت گردوں نے ستر سے زاہد مقامات پر قتل و غارت گیری کا بازارگرم کر ڈالا تھا ۔اس سانحے میں سب سے زیادہ انسانی جانوں کا ضیاء لطیف آباد میں ہوا اسکے بعد دوسرا متاثرہ علاقہ ہیر  آباد تھا ۔
چونکہ حیدرآباد میں بجلی منقطع ہوگئی تھی اسلئے اُس وقت صرف فائرنگ  کی آواز اور لوگوں کی آہ و بکا کی آوازیں سنائی دے رہی تھی ۔بچے چیخ رہے تھے، زخموں سے چور افراد کی رونے کی آوازوں سے شہر گونج اٹھا تھا۔ زندہ بچ جانے والے والدین افرتفری میں بھاگ جانے والے بچوں کو ڈھونڈ رہے تھے۔

جہاں لوگوں کے گلشن میں آگ لگی وہیں اس سانحے میں کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک ہی خاندان کے 7افراد کو بھی موت کی ابدی نیند سُلا دیا گیا تھا ۔ بجلی بحال ہوتے ہی مساجد سے اعلانات ہونے لگے ۔ ہسپتال زخمیوں اور ہلاک شدگان سے بھر گئے تھے ۔ اکثر لوگوں کےجسم کے  اوپری حصے میں گولیاں لگی جو خون بہنے کے باعث ہلاک ہوئے ۔

اس سانحہ میں تقریبا 300کے قریب لوگ اندھی گولیوں کا نشانہ بن کر خالق حقیقی سے جاملے اور تقریبا اسی تعداد میں  لوگ زخمی ہوئے ۔ ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں تقریبا ہر عمر کے بچے اور لوگ شامل تھے ۔ہسپتال میں زخمیوں اور ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی شناخت میں ہسپتال پہنچ رہے تھے اور سب کےمنہ پر ایک ہی جملہ تھا کہ ہمیں یہ کس بات کی سزا دی گئی ہے  یہ حملہ لسانی بنیادوں کے باعث ان بستیوں پر کیا گیا ۔

بعد ازاں حکومت نے نوٹس لیا اور تحقیقات کے لیے پولیس کو حکم نامہ جاری کیا، پولیس کی جانب سے منظر عام پر آنے والی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ یہ یہ حملہ لسانی بنیادوں پر کروایا گیا تھا۔ اس ضمن میں حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے مصنف ظہیر احمدنے اپنی ایک کتاب ’حیدر آباد کا مسئلہ‘ میں تحریر کیا ہے کہ ’یہ سانحہ سندھی اور مہاجروں کو لڑوانے کی سازش تھی‘۔

سانحے کا مقدمہ درج ہوا اور حملے کے ملزمان میں قادر مگسی مرکزی ملزم نامزد کیا گیا ۔ علاوہ ازیں اس وقت کے نامور ڈاکو جانو آرائیں کے علاوہ انکے لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کر کے عدالت میں چالان پیش کیا گیا، سماعت کے دوران کئی لوگوں نے ملزمان کو شناخت بھی کر لیا تاہم ایڈشنل جج منٹھا ر علی جتوئی نے ضمانت منظور کر تے ہوئے ملزمان کو رہا کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔

اس سانحے کو آج 28سال کاعرصہ گزر چکا ہے مگر متاثرین آج بھی انصاف سے محروم ہیں۔ المیہ یہ کہ مرکزی ملزمان آج بھی آزادی کے ساتھ اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں اور وہی لوگ حکومتی وزراء و دیگر اعلیٰ حکام کے ساتھ متاثرین کے زخموں پر نمک پاشی کرتے نظر آتے ہیں۔

دوسری جانب لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں ہونے والی بربریت بیان کرنے والے افراد بھی اس سانحے پر چُپ سادھے نظر آتے ہیں، ہوش سنبھالنے کے بعد سے آج تک 30 ستمبر کی خبروں یا کسی اخبار میں اس حوالے سے کوئی خبر نظر سے نہیں گزری۔ آج بھی وقت ہے کہ متاثرین کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا جائے اور انسانیت کی قدر نہ کرنے والے درندوں کو آئین و قانون کے مطابق سزا دی جائے تاکہ اس سانحے کے غم کا کچھ ازالہ کیا جاسکے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں