آپ کا انداز نرالا اور فیصلے بھی عجیب ہیں۔ وقت کی پابندی کی اور برسوں سے دفاتر میں دیر سے آنے اور جلدی جانے کے عادی سرکاری افسران اور عملے سے بھی کروائی، بارش ہوئی تو سڑکوں پر نظر آئے او ر شہر کی انتظامیہ کو بھی متحرک ہونا پڑا۔ ایک صبح عوامی ہوٹل پر ناشتہ کیا اور عوام یہ سمجھنے لگے کہ واقعی سندھ کے طرزِ حکمرانی میں کوئی تبدیلی آئی ہے اورسندھ کا موجودہ ’’شاہ‘‘ سابق ’’شاہ‘‘ سے خاصا مختلف ہے۔ آپ بڑے ’’ایکٹو‘‘ ، ذمہ داراور دوراندیش معلوم ہوئے ۔آپ کہتے ہیں کہ کراچی میں رہا، گھوما پھراہوں، یہاں کے مسائل کو سمجھتا ہوں، لوگوں کو جانتا ہوں، مگر کچھ دن پہلے آپ نے ایک عجیب بات کی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نہیں جانتے کہ یہ کراچی ہے، ملک کا معاشی حب، سب سے بڑا شہر جس میں ہر رنگ، نسل اور قومیت سے تعلق رکھنے والے لوگ روزی کمانے کے لیے آتے ہیں اور یہاں بسے ہوئے ہیں۔اسی لیے شہر کو منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں سرکاری و نجی دفاتر اور دیگر کام کاج کے لیے ملازمین کے عام اوقات کار صح نو تا شام پانچ ہیں جبکہ بعض ملازمین دس بجے سے شام چھ تک بھی کام کرتے ہیں اور کئی ادارے اپنی ضرورت اور کام کی نوعیت کے مطابق ہی ملازمین کے آنے اور جانے کے اوقات مقرر کرتے ہیں۔
اب دوسری طرف چلتے ہیں۔ شام کو دفتر سے نکلنے کے بعداسٹاپ پر مطلوبہ بس کا انتظار اور پھر رینگتے ہوئے سفر کرنے والا کوئی بھی شہری کم از کم ڈیڑھ گھنٹے میں گھر پہنچ پاتا ہے۔ ٹریفک جام اس شہر کا ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے نجات کا کوئی راستہ نہیں نظر آرہا۔ بارش ہو جائے یا حادثہ پیش آجائے اور کوئی گاڑی تک سڑک کے بیچ خراب ہو تو شاہراہوں پر گھنٹوں ٹریفک جام رہتا ہے۔ بسوں کی حالت کون نہیں جانتا۔ ہماری اکثریت ان بسوں میں سفر کرتی ہے اور جب لوگ گھر پہنچتے ہیں توتھکن سے چور ہوتے ہیں۔ ذرا دیر آرام اور اپنوں کے درمیان وقت گزارنے کے ساتھ گھڑی دیکھتے ہیں تو رات ہوچکی ہوتی ہے ۔ اس دوران اور کئی گھریلو کام،آنا جانا، ملنا ملانا بھی کرنا پڑتا ہے اور اگر اس کی تفصیل میں جاؤں تو بہت وقت لگ جائے گا۔ انہی گھریلو ذمہ داریوں میں مختلف ضرورت کی اشیاء کی خریداری بھی شامل ہے۔ فیملی کے لیے کپڑے وغیرہ کی خریداری کے لیے قریبی مارکیٹ کے علاوہ گھر سے دور واقع شاپنگ مالز جانا ہی پڑتا ہے۔ اسی طرح شہریوں کی اکثریت کئی ضروری اور عام استعمال کی اشیاء خریدنے کے لیے تجارتی مراکز اور بڑی مارکیٹوں کا رخ کرتی ہے۔
حال ہی میں وزیراعلی سندھ نے ایک تقریب کے دوران خواہش ظاہر کی کہ شہر کی تمام مارکیٹیں اور دکانیں صبح 9 بجے کھلیں اور شام 6 یا 7 بجے بند کر دی جائیں ۔ اس طرح وہ غالبا توانائی کی بچت چاہتے ہیں، مگر یہ اب تک واضح نہیں ہے۔ اسی طرح تاجر برادری کی طرف سے بھی اس بیان پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ ایسے علانات ماضی میں بھی ہوتے رہے لیکن ان پر عمل نہیں ہو سکا کیونکہ تاجروں نے اس کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ بجلی کا غیرضروری استعمال یقیناًمارکیٹوں میں عام ہے اور تجارتی مراکز میں غیرقانونی طریقے سے یعنی کنڈے کی بجلی بھی چل رہی ہو گی مگراس کی روک تھام اور بجلی کی بچت کے دوسرے طریقے بھی ہو سکتے ہیں۔ صرف مارکیٹیں اور شاپنگ مالز پر ہی حکومت کی نظر کیوں جاتی ہے؟ پھر یہ بھی تو دیکھیں کہ شام کو کاروباری مراکز بند ہونے کے بعد خریداری کیسے کی جائے گی؟ کیا سندھ کی حکومت سرکاری اور نجی دفاتر میں کام کے اوقات بھی صبح نو سے دوپہر دو تک کرنے کا حکم جاری کرے گی تاکہ لوگ جلدی گھروں کو پہنچ سکیں اور ان کو خریداری کا وقت بھی مل جائے؟
سندھ کابینہ کے حالیہ اجلاس میں کچھ اچھے فیصلے بھی کیے گئے ہیں جن پر عمل درآمد کیا جائے تو عوام کو فائدہ ہو گا۔ اس میں شادی بیاہ میں ون ڈش اور شادی ہالز رات کو جلد بند کرنے کے علاوہ ملازمتیں دینے کا فیصلہ شامل ہے، مگر مراد علی شاہ کو میرٹ یقینی بنانے کے لیے سخت ترین احکامات جاری کرنا ہوں گے اور اس حوالے سے چیک اینڈ بیلنس کی ضرورت بھی ہو گی۔ اسی طرح ون ڈش کئی لوگوں کی سفید پوشی کا بھرم رکھ سکتی ہے۔ہم حکومت کے ان اقدامات اور فیصلوں کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور شاہ جی کے ساتھ ہیں، مگر یہ سمجھ نہیں آرہا کہ ان جیسے سمجھدار اور انتظامی صلاحیت کے حامل حکمران نے تجارتی مراکز کے بارے میں ایسی خواہش کیوں ظاہر کی؟ میری عقل میں یہ بات نہیں آتی کہ کوئی بھی سمجھدار فرد جو کراچی کی سڑکوں اوریہاں کے تمام حالات سے واقف ہو وہ ایسا کوئی فیصلہ یا خواہش کیسے ظاہر کرسکتا ہے؟
سندھ حکومت کو چاہیے کہ وہ شہر کی سڑکوں کی مرمت اور ٹریفک کے نظام پر توجہ دے اور شہر سے کچرا اور گندگی صاف کرنے کے لیے اداروں کو متحرک کرے۔ رشوت اور کرپشن کا خاتمہ کرنے کی کوشش کرے تب بات بنے گی۔ اگر مراد علی شاہ اپنی اس خواہش پر عمل کر نے کا ارادہ رکھتے ہیں تواس بڑے شہر میں پیدا ہونے والے مسائل اور عوامی مشکلات کا حل بھی سوچ لیں اور ہمیں بتا دیں۔ اگر حکومت آنے والے دنوں میں اس حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ کرنا چاہتی ہے تو پہلے اس کا تجربہ کسی چھوٹے شہر پر کیا جائے۔ آپ اندرون سندھ کا کوئی شہر منتخب کر کے وہاں اس پر عمل کروائیں اور نتائج دیکھیں۔ اگر وہاں عام لوگوں کی زندگی اس طرح متاثر نہ ہوتی ہو تو کراچی جیسے اہم شہر اور معاشی حب کے لوگ بھی آپ کے ساتھ ہوں گے۔