’’ نائلہ یہ صرف مذاق تھا اورمیرا ایسا ویسا کوئی مقصد نہیں تھا۔ تم پوچھ لو ان سے میں نے ان کو بھی بتایا تھاکہ۔۔۔۔‘‘
’’بکواس بند کرو اسد، یہ گھٹیا مذاق تم کو بہت مہنگا پڑ سکتا ہے، میں کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دوں گی کہ میرے نام سے فیس بک اکاؤنٹ بنا کرکچھ بھی پوسٹ کرے۔ میری تصویریں تو دور کی بات ہے اگر تم مذہبی اور اخلاقی تعلیمات پر مبنی مواد بھی شیئر کررہے ہو تو یہ انتہائی فضول بات اور غلط حرکت ہے ۔‘‘
نائلہ کی زبان گویا شعلے اگل رہی تھی۔ اس نے اسد کو بات مکمل ہی نہیں کرنے دی ۔اسد کا تو جو حال تھا سو تھا، اس کے ساتھ میڈیکل یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس کے اس گروپ میں شامل دوسرے لڑکے لڑکیاں بھی حیران و پریشان کھڑے تھے۔ سعدیہ، فائزہ، عدیل اور منصور سوچ رہے تھے کہ نائلہ کوکیسے سمجھائیں ۔دراصل اسد نے ان سب کی ملی بھگت سے ہی نائلہ کے نام کا فیس بک اکاؤنٹ بنانے کے بعد اس پرکچھ گروپ فوٹوز اپ لوڈ کرنے کے علاوہ مختلف مزاحیہ اور غیرسنجیدہ پوسٹ باقاعدہ ٹیگ کی تھیں مگر ایسا کچھ نہیں تھا جس سے نائلہ کی شخصیت کسی طرح مسخ ہوتی یا اس کے کردار پر پر حرف آتا۔ اگرچہ سب اس مذاق میں برابر کے شریک تھے مگر اکاؤنٹ پرتمام سرگرمیاں اسد کی جانب سے کی گئی تھیں۔اس کی فرینڈ لسٹ میں اب تک کئی لوگ شامل ہوچکے تھے اور یہ سب کے سب نائلہ سے دوستی کرنا چاہتے تھے۔
یہ سلسلہ پچھلے تین ماہ پہلے اس وقت شروع ہوا تھا جب نائلہ نے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے فیس بک سے کچھ عرصہ دور رہنے کا فیصلہ کیا تھا اورسب کو اس بارے میں آگاہ کیا تھا۔نجانے کیا سوچ کر ان لوگوں نے یہ منصوبہ بنایاتھا اور جب نائلہ کی ایک کزن کی نظروں میں وہ جعلی اکاؤنٹ آیا تو بات فورا نائلہ تک پہنچ گئی۔ اسے بہت غصہ آیا لیکن جب اگلے دن یونیورسٹی پہنچتے ہی اس نے اپنے گروپ سے یہ بات شیئر کی تو تھوڑی دیر انجان بننے کے بعد اسد نے اپنے مذاق کا اعتراف کر لیا۔ یہ جاننے کی دیر تھی کہ نائلہ پھٹ پڑی اور اسد کو کھری کھری سنا ڈالی۔ اس دوران فائزہ نے اسد کی حمایت میں منہ کھولا تو نائلہ نے اسے بھی خوب لتاڑا۔’’ میں ایف آئی اے کو رپورٹ کروں تو تم سب کی عزت خاک میں مل جائے گی۔ بہتر یہ ہے کہ آئندہ مجھ سے کوئی بھی رابطہ مت کرنا اور وہ اکاؤنٹ ابھی ختم کر دو۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ کلاس روم کی طرف بڑھ گئی اور وہ سب حیران و پریشان اسے جاتا دیکھتے رہے۔ ان کے کھیل کا سارا مزہ کرکرا ہو گیا تھا۔
دوستو! یہ مختصر سی کہانی سچی نہیں بلکہ من گھڑت ہے ۔ اس منظر کو بیان کرنے کا مقصد صرف اپنے بلاگ کا موضوع اور مقصد آپ پرزیادہ سے زیادہ واضح کرنا ہے۔ اب میں اصل بات کی طرف چلتی ہوں۔ کچھ سال پہلے تک پاکستان میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے صارفین میں خواتین کی تعداد محدود تھی ۔ اس کی ایک وجہ ان ویب سائٹس پر ’’دندناتے پھرتے ‘‘مرد تھے جو انہیں طرح طرح سے تنگ کرتے اور ان کی عام معلومات تک رسائی حاصل کرنے کے بعد غلط استعمال بھی کرسکتے تھے مگر اب صورتحال مختلف ہے۔ فیس بک، ٹوئٹر اور دیگر ویب سائٹس کے صارفین میں اب لڑکیاں بھی شامل ہیں اور ان کی تعدادبڑھ رہی ہے۔لڑکیوں کے نام سے فرضی اکاؤنٹس بنا کر منفی سرگرمیوں کے علاوہ بلیک میلنگ کا سلسلہ تو اب بھی جاری ہے۔اکاؤنٹ سے بغیر اجازت کاپی کی گئی یا دوستی کرنے کے بعد کسی بہانے لڑکی سے حاصل کردہ تصاویرکو فرضی اکاؤنٹ پر اپ لوڈ کر کے آوارہ ذہنیت کی تسکین اور مذموم مقاصد کی تکمیل کی جاتی ہے۔ اس معاملے کی سنگینی کا آپ سب کو علم ہے لہذا اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔
سافٹ ویئر کے ذریعے کسی تصویر میں من چاہی تبدیلی کر نے کے بعد مجرمانہ ذہنیت کے حامل مرد رقم بٹورنے کے ساتھ لڑکی سے مختلف مطالبات منوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر لڑکی ان کا مطالبہ پورا نہ کرے تو وہ تصاویر دیگر افراد کی ٹائم لائن پر ٹیگ کرنے کے علاوہ لڑکی کی کردار کشی کے لیے کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں۔ سوشل ویب سائٹس پرنہ صرف لڑکی کے جاننے والے، اسکول، کالج اور یونیورسٹیز کے ساتھی بلکہ خاندان کے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں اور کسی کاغلط عمل لڑکی کی نجی زندگی کے لیے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ بلیک میلنگ اور کردار کشی کی ایسی کوششوں کے بعد لڑکیوں کے خود کشی کرنے کے واقعات بھی ریکارڈ پر ہیں۔یہ بھی درست ہے کہ ڈیجیٹل کیمرہ اور موبائل فونز کے علاوہ فیس بک و دیگر سوشل روابط کی سائٹس کے بے دھڑک اور غیرضروری استعمال کی وجہ سے اکثر لڑکیاں خود سفاک اور بدکردار عناصر کے چنگل میں پھنس جاتی ہیں اور پھر پچھتاتی ہیں۔
میڈیا رپورٹس اور دیگر ذرائع بتاتے ہیں کہ کس طرح بدصفت اور ناعاقبت اندیش لوگ سوشل میڈیا پر لڑکیوں سے دوستی کر کے یا کسی اور بہانے سے فون نمبرز اور دیگر معلومات حاصل کر لیتے ہیں اور پھر وہ لڑکی ان کی بیمار ذہنیت کا نشانہ بن جاتی ہے۔مگراب ایسے عناصر کی سرکوبی کے لیے سائبر کرائم فورس موجود ہے اور شکایت پر فوری کارروائی بھی کی جاتی ہے۔میں نے حال ہی میں کراچی کے ایک ایسے نوجوان کے بارے میں خبر پڑھی جس نے ایک لڑکی کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی اور اب وہ گرفتار ہو چکا ہے۔ خبر کے مطابق ایف آئی اے نے سائبر کرائم کے قوانین کے تحت پہلا مقدمہ فیس بک پر لڑکی کی قابل اعتراض تصاویر اپ لوڈ کرنے ، لڑکی اور اہل خانہ کو بلیک میل کرنے کے الزام پر درج کیا اور کراچی کے رہائشی نوجوان کو گرفتار کر لیا۔ لڑکی کے والدکی درخواست پر ایف آئی اے نے یہ کارروائی کی تھی۔ سائبر قوانین کے تحت ملزم پر جرم ثابت ہوا تو 5 سال کی سزا یا 50 لاکھ روپے جرمانہ اور دونوں سزائیں ساتھ بھی دی جاسکتی ہیں۔
اسی طرح جعلی فیس بک آئی ڈی بناکر نوجوان لڑکیوں کی تصاویر ان کے فون نمبروں کے ساتھ اپ لوڈ کرنے والے کوایک اورشخص کو بھی ایف آئی اے نے گرفتار کیا تھا۔ سا ئبر کرائم سرکل نے آئی پی ایڈریس کی بنیاد پر سراغ لگاکر ملزم کو گرفتار کیا اور مقدمہ درج کیا جس کے بعد نوجوان نے جرم کا اعتراف کرلیا۔ یہ ایسی خبریں تھیں کہ جن کی تشہیر نہ صرف مجرمانہ ذہنیت کے حامل مردوں کو ان کے ایسے فعل سے باز رکھ سکتی ہیں بلکہ لڑکیوں میں تحفظ کا احساس پیدا ہو گا ۔ یہی خبریں میرے اس بلاگ کو لکھنے کا سبب بنی ہیں۔ سائبر کرائمز کی مختلف شکلوں جیسے انٹرنیٹ پر کسی صارف کی شناخت کی چوری، ڈومین پر اثر انداز ہونے کی کوشش اور دوسرے سنگین جرائم پر کارروائی اور مقدمات بلاشبہ پاکستان کی ضرورت ہیں۔ اب فرضی آئی ڈی بنانے والے صارفین کا سراغ لگانا مشکل نہیں اور اگر وہ ان کے ذریعے کسی جرم کے مرتکب ہوئے تو سخت سزا بھی دی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے ایف آئی اے کے سائبر کرائم یونٹس سوشل ویب سائٹس کی انتظامیہ سے بھی ضرورت پڑنے پر رابطہ کرسکتے ہیں اورملزم کے بارے میں آن لائن معلومات اکٹھا کر کے اس تک پہنچا جاسکتا ہے۔
ایف آئی اے کے افسران کے مطابق سائبر کرائمز یونٹ اس طرح کے پلیٹ فارمز کے استعمال پر نظر رکھنے کے لیے کام کررہا ہے اور عوامی شکایات پر اقدام بھی کیا جاتا ہے۔پاکستان میں اکثریت کو اس ادارے اور اس کے اختیارات کا علم نہیں جس کی وجہ سے کئی لڑکیاں اور گھرانے شاید اب بھی مصیبت میں مبتلا ہوں گے۔یہ ادارہ انٹرنیٹ اورسوشل میڈیا ویب سائٹ جیسا کہ فیس بک پر موثر طریقے سے غیرمطلوب اورنامناسب مواد کی روک تھام کے لیے کام کررہا ہے، یہ یونٹ کسی بھی آئی ڈی کے حامل فرد کو تلاش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جس کے بارے میں شکایت درج کروائی گئی ہو۔
دوسری طرف لڑکیاں اپنے سوشل اکاؤنٹس پر اپنے خیالات کااظہار کرنے کے ساتھ نجی زندگی اور مختلف تقریبات کی تصویریں اپ لوڈ کرنے میں احتیاط برتیں اور اس ضمن میں پرائیویسی آپشنز کا استعمال کریں تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔فیس بک پر اگر وہ چاہتی ہیں کہ ان کی تصویریں اور دیگر شیئرنگ صرف اہلخانہ یا مخصوص لوگوں تک محدود رہے تو یہ بہت آسان ہے۔ اس کی تفصیلات انٹرنیٹ پر مل سکتی ہیں جن کو پڑھنے کے بعداپنے پیجز پر لاگو کیا جاسکتا ہے۔ اور ہاں یہ یاد رکھیئے کہ جرم صرف یہی نہیں کہ کوئی آپ کی مرضی یا اجازت کے بغیر تصویریں اپ لوڈ کررہا ہے بلکہ کسی بھی موضوع پر ایسا مواد جوملکی قوانین یاکسی فرد کی نجی زندگی کو متاثر کرتا ہو قابل گرفت ہے اور اس میں لڑکے یا لڑکی کی تخصیص نہیں ہے۔
سدرہ ایاز صحافتی اداروں اور مارکیٹنگ کمپنیوں سے وابستہ رہی ہیں، سیروسیاحت کا شوق رکھتی ہیں، گھومنا پھرنا پسند ہے، اور اپنے انہی مشاغل اور مختلف سرگرمیوں کی انجام دہی کے ساتھ شاعری اور مختلف سماجی موضوعات پر مضامین اور بلاگ لکھنے کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔