The news is by your side.

راہوں میں سجی خواتین کی چھوٹی دکانیں

وہ معصوم سے چہرے والی عورت جب اپنی چھوٹی سی دکان سجائے گاہکوں کو آواز لگارہی تھی تو وہاں سے گذرتا ہرشخص ناچاہتے ہوئے بھی وہ آوازسن کر اس چھوٹی سی دکان کی جانب نظر گھما کر دیکھ ہی لیتا تھا۔

ہم چاہے ملک کے کسی بھی شہر یا گاؤں سے تعلق رکھتے ہوں، وہاں کی اکثر بازاروں، چوراہوں اور عوامی مرکز والی جگہوں پر اپنی چھوٹی سی دکانیں سجائے عورتیں ضرور نظر آتی ہیں۔ کہیں وہ عورتیں مارکیٹ کی بڑی بڑی دکانوں کے سامنے اپنا چھوٹا سا ٹھیلا لگائے نظر آتی ہیں، تو کہیں چوراہوں پر دریاں بچھائے زمین پربیٹھی اپنی اشیاأ فروخت کرتی نظر آتی ہیں۔

ملک کے دیگر حصوں کی طرح خواتین سندھ کے مختلف شہروں میں اپنی چھوٹی سی دکانیں سجائے نظر آتی ہیں ، مختلف شہروں میں کاروبار کرنے والی ان عورتوں میں سے کوئی گھر کی روزمرہ استعمال ہونے والی چیزیں بیچتی ہیں تو کوئی اپنی اس چھوٹی سی دکان پربچوں کے کھلونے بیچتی ہیں، کراچی کی ایمپریس مارکیٹ کے پاس سجیں ان چھوٹی دکانوں پر یہ عورتیں ڈرائے فروٹ بیچ کر اپنے گھر کا چولھا جلاتی ہیں، جب کے شہر کی کچی آبادی والے علاقوں میں یہ عورتیں کریم پاؤڈر وغیرہ ہی بیچ کے اپنی گزر بسر کرتی ہیں۔

سندھ کے مختلف شہروں میں اپنی چھوٹی دکانیں سجانے والی یہ عورتیں اکثر ہندو مذہب کی دلت برادری سے تعلق رکھتی ہیں،جن میں کولھی,، بھیل میگھواڑ کے علاوہ دیگر ذاتیں شامل ہیں۔

یہ عورتیں اپنے کلچر اور روایتوں کو برقرار رکھتے ہوئے ملبوسات میں گھاگھرا اور چولی پہنتی ہیں اوران کے بازو میں روایتی کنگن ہوتے ہیں جو انکے پورے بازوں کو ڈھامپ دیتے ہیں جسے سندھی زبان میں آج جو چوڑوکہا جاتا ہے ۔

صبح کے وقت شہرکی مارکیٹوں میں جب یہ عورتیں منفرد انداز سے اپنی چھوٹی سی دکانیں سجاتی ہیں تو  دیکھنے والے کو ایک دلکش منظر پیش کرتا ہے، ان عورتوں کا کہنا  ہے کہ وہ ایک دن میں ۵ سو سے ایک ہزار روپے تک کماتی ہیں، جس میں سے انھیں کچھ پیسے بڑی بڑی دکانوں کے سامھنے بیٹھنے کے باعث انھیں دینے پڑتے ہیں اورباقی بچے پیسوں سے ہی وہ اپنا گھر چلاتی ہیں۔

ان خواتین کی اس چھوٹی سی دکانوں کا کوئی ایک ٹھکانا نہیں ہوتا، جب شہروں میں ٹریفک جام کی شکایتیں درج ہوتیں ہیں یا پھرکہیں ٹریفک والے صاحب اپنی من مانی چلاتے ہوئے ان خواتین کو ان کی چھوٹی سی دکانوں کے ساتھ وہاں سے نکال دیتے ہیں اورپھر انہیں بلا آخر اس جگہ کو چھوڑ کر کہیں اور اپنا بسیرہ دھونڈنا پڑتا ہے ۔

ان عورتیں کے پاس زیادہ تر سستی اور غیرمعیاری چیزیں ہی ہوتی ہیں جو مارکیٹ ریٹ سے کئی سستی ملتی ہیں ، جس کے باعث اکثر غریب لوگوں کی ان عورتوں کی دکانوں پر بھیڑ ہوتی ہی کیونکہ لوگ کم پیسوں میں زیادہ سے زیادہ چیزیں خرید پاتے  ہیں۔

ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی یہ عورتیں اپنی ان چھوٹی دکانوں کے ساتھ سندھ کے مختلف دیہاتوں میں بھی جاتی ہیں، جہاں دیہات کی عورتیں ان عورتوں سے بڑے پیمانے پر گھریلو چیزیں خرید کرتی ہیں۔ اس ترقی یافتہ دور میں لوگوں کی شہروں تک رسائی آسان ہونے کے باوجود سندھ کے مختلف دیہاتوں کی عورتیں اکثر شادی بیاہ کے وقت ان عورتوں کو مد دکرتی ہیں اور پھر یہ چھوٹی سی دکان والی عورتوں سے لین دین کا سلسلہ جاری وساری رہتا ہے۔

دلت برادری سے تعلق رکھنے والی ان عورتوں کے مرد حضرات مزدوری یا پھر کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرتے ہیں، ان عورتوں کا کہنا ہے کہ مل جل کے کام کرنے سے ہی ایک گھر کا چولھا جل سکتا ہے اور وہ سب ساتھ مل کر کام کرنے سے ہی اپنی زندگی آسانی سے گزار سکتے ہیں۔

ان عورتوں کی زندگی باقی عورتوں سے کچھ مختلف ہوتی ہیں کیونکہ یہ عورتیں زیادہ محنت کش ہوتی ہیں، ان خواتین کی زندگی محض دکانوں تک محدود نہیں ہے، یہ عورتیں بہت تھکن کے باوجود اپنے گھر کا کام بھی سرانجام دیتی ہیں،اور گھر کے ساتھ ساتھ اپنی بچوں کو بھی خوب سنوارتی ہیں ۔زندگی بڑی سادہ اور چھوٹی چھوٹی خوشیوں پر مبنی ہوتی ہے کیونکہ یہ عورتیں اپنی چھوٹی سی دکانوں میں اتنا نہیں کما پاتیں جس سے وہ اپنی کوئی بڑی دکان کھول سکیں ۔

حکومت جہاں بڑے بڑے تاجروں اور بیوپاروں کے لیے نئی حکمت عملیاں جوڑ کر انھیں مارکیٹوں میں آسائشیں فراہم کرتی ہے وہیں اعلیٰ حکام کو چاہئے کہ ان چھوٹی سی دکانوں کو سجانے والی عورتوں کو فروغ دینے کے لیے بھی کوئی مناسب حکمت عملی جوڑی جائے جس سے یہ عورتیں بھی اس معاشرے میں اپنا اہم کردار ادا کر سکیں۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں