The news is by your side.

منیشا اور بلال، محبت کی ایک نئی مثال

 ہمارے معاشرے میں پیار کی بہت ساری کہانیاں رونما ہوتی ہیں جس کا اختتام عمومی طور پرتحفظ فراہم کرنے کی اپیلوں سے لیکر پیار کرنے والوں کی زندگی کو ختم کرنے کے ساتھ اختتام پذیر ہوتی ہیں۔

نوجوان لڑکا اور لڑکی گھر والوں کی طرف سے شادی کی اجازت نا ملنے پر جب کورٹ کا رخ کرتے ہیں تب انھیں یہ  پتا نہیں ہوتاکہ ا س عمل کا انجام کیا ہوگا ،   پسند کی شادی کرنے پر کہیں بنت حوا کو غیرت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے تو کہیں اس کے پریمی کونکاح کرنے کے جرم میں بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے  یا جس کا ازالا اسے اپنی بہن کو ونی دیکر کرنا پڑتا ہے یا پھر اسے اس گاؤں یاعلاقے سے ہی ہمیشہ کے لیے نکال دیا جاتا ہے۔

یہ ساری باتیں ایک حقیقت ہیں جو ہمارے معاشرے میں روزانہ رونماہوتی ہیں

ایسی ہی پیار کی کہانی سندھ کے شہر میرپورخاص میں بھی رونما ہوئی ، جہاں ایک ہندو ڈاکٹر گوردھن کھتری کے گھر پیدا ہونے و الی منیشاکھتری نے اپنے ہی علاقے کے ایک نوجوان بلال قائم خانی سے پسند کی شادی کی ہے۔ منیشا کھتری نے جب بلال قائم خانی سے اپنی محبت کی بات اپنے گھر والوں کو بتائی تو اسکے والد ڈاکٹر گوردھن کھتری نے اپنی بیٹی کو چپ رہنے پر زور دینے کے بجائے اپنی بیٹی کا رشتہ اپنے ہی ہمسائے اور دوست کے بیٹے بلال کو دینے کا فیصلہ کیااور یوں منیشا کے والد ڈاکٹر گوردھن کھتری نے مولوی صاحب کو اپنے گھر بلا کر اپنی بیٹی کو مسلمان کر کے اسکا نکاح اپنے ہمسائے کے بیٹے بلال قائمخانی سے کروایا۔

محبت کی شادی کرنے والے ڈاکٹر کی ڈاکو بننے کی کربناک داستان

ڈاکٹر گوردھن کھتری کے اس عمل کے باعث ہندو برادری نے ڈاکٹر گوردھن کھتری سے قطع تعلق کرلیا ہے، جب کے اس کی برادری نے ڈاکٹر گوردھن کھتری اور اسکے گھر والوں کو اپنی برادری سے باہر نکالنے کے لیے ہندو پنچائت پر زور بھی دے رہی ہے۔

ڈاکٹر گوردھن کھتری اپنی بیٹی کی شادی ایک مسلمان لڑکے سے کرنے کے بعد چائنا کے دورے پر چلا گیا ہے، جہاں سے اسکا کہنا ہے کہ وہ اپنی اولاد کی زندگیوں کے فیصلے کرنے کا حق رکھتا ہے اور اسنے وہی کیا ہے جو اسکی اولاد کے لیے ٹھیک ہے۔

ڈاکٹر گوردھن کھتری نے اپنی بیٹی کی شادی کسی ہندو لڑکے سے کرنے کے بجائے مسلمان لڑکے کے ساتھ کر کے انسانیت کی ایک بڑی مثال قائم کی ہے۔ ہمارے معاشرے میں جرگے کے فیصلوں کی کمائی پر بیٹھے نواب اور جاگیردار و ں کے لیے ایک ہندو ڈاکٹر نے کیا مثال قائم کی ہے، جو شریعت محمدی  کے مطابق شادی کرنے والے نوجوان جوڑے کے گھر والوں کی آ پس میں صلاح کرانے کے بجائے ایسے فیصلے سناتے ہیں جس کے باعث غیرتمند باپ بھائی اپنی بہن یا بھائی کو اس شادی کی سزا میں ہمیشہ کے لیے ختم کردیتے ہیں اور پھر اپنی باقی زندگی جیل میں ہی گذار دیتے ہیں  اور یہ عمل  ہمارے معاشرے کے لیے ایک ناسور بن کر رہ گیا ہے۔

ایک ہندو ڈاکٹر کا اپنی بیٹی کی زندگی کا یہ  فیصلہ ہمارے لیے ایک سبق ہے کہ ہم انسانیت اور زندہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی اولاد کے لیے ایسے فیصلوں سے گریز کریں جس کا خاتمہ  انکی زندگی کے  اختتام پر ہو۔ ہمیں بھی چاہئے کہ اپنی اولاد کی اچھی تربیت کے ساتھ انکی زندگی کے اچھے فیصلے بھی کرکے ایک زندہ دلی انسان ہونے کا ثبوت دیں۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں