The news is by your side.

کیا سندھ یونی ورسٹی کی طالبہ نے واقعی خودکشی کی؟

سال 2017کی پہلی شام میں جامشورو کی سندھ یونیورسٹی میں گرلز ہاسٹل سے طالبہ کی لاش برآمد ہونے کی خبر آئی، جس نے پوری سندھ کے لوگوں کو ایک سکتے میں ڈال دیا کہ سندھی ڈپارٹمنٹ کے فائنل ایئر کی طالبہ نائلہ رند نے خودکشی کیوں کی؟۔سندھ کے شہر قمبر سے تعلق رکھنے والی نائلہ رند کے لاش کی یونیورسٹی انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے کرائی گئی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں اسے خودکشی قرار دیا گیا جسے طالبہ نائلہ کے گھر والوں نے جھوٹا قرار دیتے ہوئے اسے ماننے سے انکار کردیا ۔نائلہ کے بھائی نثار احمد کا کہنا ہے کہ اسکی بہن اپنے ڈپارٹمنٹ کی پوزیشن ہولڈر اسٹوڈنٹ تھی جسے پڑھائی کے دوران بہتر کارکردگی دکھانے پر ایوارڈ سے نوازا گیا بہر آخر وہ ایسا کیسے کرسکتی ہے۔

یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے اس واقعے کو خودکشی قرار دیا گیا ہے پر پنکھے سے لٹکی ہوئی لاش انتظامیہ کے بیان کے برعکس کچھ اور ہی بیاں کررہی تھی کیونکہ نائلہ کا قد، بیڈ، نیچے گری ہوئی کرسی، کمرے کا منظر اور اسکی شرٹ کا ٹوٹا ہوا بٹن ہر کسی کہ دل میں کئی سوال پیدا کررہے ہیں۔

نائلہ رند سندھ یونیورسٹی کے انڈرگریجوئیٹ ہاسٹل میں رہتی تھی اور وہ سندھی ڈپارٹمنٹ میں فائنل ایئر کی اسٹوڈنٹ تھی، وہ اپنی موت سے ۲ دن قبل ہی فائنل ایئر کی تھیسس کے سلسلے میں ہاسٹل گئی ہوئی تھی، نائلہ یو جی ہاسٹل کے 34 نمبر روم میں رہتی تھی پراسکی لاش دپہر ۳ بجے ہاسٹل کے روم نمبر36 سے ملی جسکے بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے طالبہ کے ورثا پہنچنے سے پہلی ہی پولیس کی مدد سے لاش کو پوسٹ مارٹ کے لیے ہسپتال لے جایا گیا، جس کے رپورٹ میں خودکشی قرار دیکر لاش کو ورثا کے حوالے کی گئی۔

نائلہ کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ نائلہ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ انکے ہسپتال پہنچنے سے پہلے کی گئی اور انکے اسرار کے باوجود انہیں نائلہ کی خودکشی والا روم  نہیں دکھایا گیا جس سے انکے شکوک اور بھی بڑھ گئے ہیں کہ نائلہ نے خودکشی نہیں بلکہ اسے قتل کیا گیا ہے۔

نائلہ رند کی مبینہ خودکشی کے بعد جہاں انکے گھر والے دکھی کیفیت میں ہیں ، وہیں دوسری جانب انکی کلاس میٹس، سہلیاں اور یونیورسٹی کی ہر طالبہ صدمے میں آگئی ہیں، نائلہ کی موت کی خبر سننے کہ بعد اسکی کلاس میٹ اور سہیلی 24 سالہ نسیم ملاح صدمے میں آنے کے بعد نائلہ کی موت کے تیسرے دن وفات پاگئیں ، نسیم کی طرح اور ناجانے انکی کتنی سہیلیاں اس وقت گہرے صدمے میں ہوں گی کہ آخر اپنی کلاس کی پوزیشن ہولڈر رہنے والی نائلہ رند کو ایسی کون سی پریشانی ہو سکتی ہے جس سے وہ دل شکستہ ہوکر ایسا قدم اٹھانے پر مجبور ہوئی۔

طالبہ نائلہ رند کے مبینہ خودکشی کی میڈیا پر خبر نشر ہونے کہ بعد وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے بھی اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ڈی آئی جی حیدرآباد کورپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے، اعلی ٰ حکام کے نوٹس لینے کہ بعدجامشورو اور حیدرآباد پولیس کی جانب سے طلبہ کے مبینہ خودکشی کی تفتیش کے لیے ٹیم تشکیل دی گئی ہے جس نے طلبہ کے ہاسٹل روم کا بھی دورہ کیا ہے اور وہاں کام کرنے والی ہاسٹل وارڈن اورچوکیدار کے بیان قلمبند کررہی ہے، جبکہ اس وقت پولیس کیس کی مزید تفتیش کے لیے سندھی شعبے کہ چیئرمین انور افگار سمیت نائلہ کی سہیلیوں اور ہاسٹل پرووسٹ کو بھی جانچ میں شامل کرتے ہوئے انکے موبائل فون ضبط کرلیے ہیں، دوسری جانب جامع سندھ کی طرف سے بھی طالبہ کی خودکشی کی تفتیش کے لیے رجسٹرار غلام محمد بھٹو کی نگرانی میں پانچ رکنی یونیورسٹی کے فیکلٹی ڈینز کی ٹیم تشکیل دی گئی ہے ۔

پولیس کی طرف سے نائلہ کیس کو سلجھانے کہ لیے گرفتاریوں کا عمل بھی جارہی ہے، پولیس کے مطابق نائلہ کے موبائل فون کی مدد سے ملی معلومات کی بنا پر یونیورسٹی کے انگلش شعبے کہ ایک طالب انیس خاصخیلی کو حراست میں لیا گیا ہے جس سے نائلہ سے بات کرنے کے بارے میں مزید تفتیش کی جارہی ہے، پولیس کا کہنا ہے کہ یکم جنوری کو انیس نے نائلہ سے تقریباََ 40 منٹ تک فون پر بات کی جس کے بعد نائلہ نے ایسا قدم اٹھایا، پولیس کی طرف سے انیس کو ہی نائلہ کے قتل کا جوابدار ٹھرایا گیا ہے اور اسے عدالت پیشی کے بعد جامشورو پولیس کے حوالے کیا گیا ہے جس سے مزید تفتیش کی جارہی ہے، جبکہ نائلہ رند کے گھر والوں نے انیس کہ خلاف کوئی درخواست درج کرانے کہ بجائے نامعلوم افراد کے اوپر نائلہ کو ہراس اور فون پر تنگ کرنے کی رپورٹ درج کرائی ہے۔

سندھ یونیورسٹی میں نائلہ واقعے  سے پہلے بھی طالبہ کے ساتھ کئی واقعات پیش آنے کی خبریں بھی میڈیا پر آتی رہیں ہیں، کبھی یونیورسٹی کی پوائنٹ بس کے ڈرائیور کی جانب سے طالبہ کو ہراساں کیا گیا تو کبھی اساتذہ کی جانب سے وائی وا کے دوران طالبہ کے ساتھ بدسلوکی کی خبریں سامنے آتی رہیں اور کبھی چلتی راہ  سے  کسی نوجوان طالب علم کو یونیورسٹی سے اٹھا کر گم کر دیا گیا ۔پر یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے  طالبات کے ان مسائل کے خلاف کوئی بھی عملی طور پر قدم نہیں اٹھایا گیا، ظاہر ہے جب انتظامیہ کی طرف سے طالب علم کہ بڑھتے ہوئے مسائل کے حل کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا جائے گاتو پھر یونیورسٹی میں نائلہ رند جیسے واقعے پیش آنا ایک معمول سا بن جاتا ہے اور جب ایسے حادثے ایک معمول بن جائیں تو کوئی والد اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم کے لیے یونیورسٹی بھیجنے سے پہلے یہی سوچنے پر مجبور ہوجائیگا کہ کہیں کبھی ایسا حادثہ ان کی اولاد کے ساتھ پیش نہ آئے۔

سندھ یونیورسٹی میں طلبہ کی لاش ملنے کہ بعد وہا ں پولیس کی بار بار آمد اور انکے بیانات لینے کی وجہ سے ہاسٹل میں خوف سا ماحول پیدا ہوگیا ہے، ہاسٹل کے باہر پولیس کی بڑی نفری مقرر ہونے کہ باعث ہاسٹلوں میں رہنے والی دوسری طلبہ خوف کے باعث ہاسٹل خالی کر کے اپنے گھروں کو واپس جا چکی ہیں، ا س وقت یونیورسٹی میں موسم سرما کی چھٹیوں کے بعد کلاسز کا آغاز ہوچکا ہے لیکن نائلہ رند کا معاملہ نا سلجھنے کہ باعث طالبہ اپنے گھروں سے واپس ہاسٹل نہیں گئیں۔
سندھ میں روشن خیال والدین جو اپنی بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم کی روشنی سے آراشنہ کرنے کے لیے یونیورسٹی بھیجتے ہیں وہ اس وقت ایک پریشانی کی کیفیت میں ہیں کہ ایسے ماحول میں وہ کیسے اپنی بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کے لیے یونیورسٹی بھیجیں جہاں ایسے حادثے پیش آتے ہوں، یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی سینکڑوں لڑکیوں کے والدیں خوفزدہ ہیں کہ کہیں ایسا حادثہ انکے بچوں کے ساتھ پیش ناآئے ۔

سندھ کے شہر قمبر سے تعلق رکھنے والی نائلہ رند کو انکے آبائی قبرستان میں سپردخاک کیا گیا ہے جہاں انکے لواحقین کا کہنا ہے کہ نائلہ کے جسم پر زخموں کے نشان بھی پائے گئے تھے اور جاری کردہ تصاویر میں انکی شرٹ کے بٹن بھی ٹوٹے ہوئے ہیں جس سے انہیں کئی شکوک پیدا ہورہے ہیں۔

نائلہ کی مبینا خودکشی کہ بعد یونیورسٹی کے اساتذہ کی تنظیم سوٹاکی جانب سے متاثر خاندان کو انصاف دلوانے کی یقین دھانی تو کرائی گئی ہے پر ابھی تک انکی طرف سے کوئی بھی ایکشن ہوتا ہوا نظر نہیں آیا، اس وقت ایک طرف سوشل میڈیا پر سندھ یونیورسٹی کی طالبہ نائلہ رند کی مبینا خودکشی کو خوب اٹھایا جارہا ہے تو وہیں دوسری جانب پوری سندھ میں سیاسی وسماجی پارٹیوں ، ہیومن رائٹس اورصحافی تنظیوں کی جانب سے نائلہ واقعے کی شفاف انکوائری کے لیے احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔
نائلہ کا قتل ایک بیٹی کا قتل نہیں بلکہ ایک خاندان کا قتل ہے ایک خاندان سے جڑی ہر اس امیدکا قتل ہے جو نائلہ کے ساتھ ختم ہوگئی ہیں، نائلہ تو دوبارہ نہیں لوٹ سکتی پر سندھ اور وفاقی حکومت کے ساتھ اعلیٰ عدالتوں پر بھی یے ذمیداری عائد ہوتی ہے کہ وہ نائلہ کی ہاسٹل میں مبینا خودکشی کی جوڈیشل انکوائری تشکیل دیکر شفاف تفتیش کر کے رپورٹ پیش کرے، تا کہ کبھی کسی اور نائلہ کے ساتھ ایسا کوئی ایسا حادثہ پیش نہ آئے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں