سب سے پہلے تو یہ واضح کردوں کہ میری اس تحریرکا موضوع غیرسنجیدہ اور غیر اہم بھی ہے۔ یہ کسی سماجی دکھ، کرب، مسئلے اور رویئے کی مذمت میں نہیں بلکہ آپ اس کو سماج اور سیاست سے طنزیہ چھیڑ چھاڑ ضرورکہہ سکتے ہیں۔ میرا موضوع کسی اجنبی اور انجانے سے نسبت ظاہر کرنا یارشتہ جوڑنا ہے۔ معاشرے میں عام میل ملاپ کے دوران تہذیب و روایت کے تقاضے پورے کرنے کے علاوہ ضرورتاًبھی کسی کو مخاطب کرنے کے لیے نسبت یا رشتہ پکارا جاتا ہے۔اس کی مثال ایک بہت معتبر اور پاکیزہ رشتہ ’’ماں ‘‘ ہے جسے ہم حقیقی ماں کے علاوہ بھی ان عورتوں کے لیے استعمال کرتے ہیں جنھیں ہم نہیں جانتے۔ اسی طرح بازاروں میں دکان دار شاپنگ کے لیے آنے والی خواتین کو باجی ، بہن جی کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ خالو اور چاچا بھی اسی طرح ہمارے ہاں بڑی عمر کے اجنبی افراد کے لیے سنا جاسکتا ہے۔ بڑے بوڑھے بھی اجنبی لڑکے لڑکی کو بیٹا، بیٹی کہہ کر بات کرتے ہیں۔یہ کسی بھی معاشرے کی تہذیب و شرافت کا عکس ،ا خلاقیات کا حسن اور ایک خوبصورت روایت ہو سکتی ہے۔ دنیا بھر میں کسی کو متوجہ کرنے، پکارنے کے لیے نسبت کا اظہار یقیناًاسی فطری انداز میں کیا جاتا ہے، مگردوسری طرف نظر ڈالیں تو ہمارے معاشرے میں یہی رشتے یا نسبتیں طنزو مزاح ، تنقید اورکسی کا مذاق اڑانے کے لیے بھی استعمال ہوتی ہیں اورعام لوگوں کے ساتھ سیاستدان بھی اپنے مخالفین پر تنقید اور طنز کے لیے ایسا ہی کرتے نظر آتے ہیں۔ سیاستدانوں کی طرف بعد میں چلیں گے، پہلے میں سڑکوں، بازاروں ، گلی محلوں میں’’ رشتے داریوں‘‘ کا بھانڈا پھوڑتی ہوں۔
میں جانتی ہوں کہ آپ کے لیے یہ جملہ ہرگز نیا نہیں ہو گا کہ ’’ میری ماں، معاف کر دو غلطی ہو گئی۔ ‘‘ یہ بات نوجوان کسی بھی بڑی خاتون کے علاوہ لڑکی سے بھی اس وقت کہہ دیتے ہیں جب وہ ان کی کسی بات سے تنگ آچکے ہوں۔ ایک اور مثال حاضر ہے کہ ’’ ہاں میری ماںآپ ٹھیک کہہ رہی ہیں اب جان چھوڑیں۔ ‘‘ اگر آپ کی عمر پچاس سال سے زائد ہے تو کبھی ، ایک بار ہی سہی یہ ضرور سنا ہو گا’’ چچا سائڈ پر تو ہو جاؤ۔ چچا پیچھے تو دیکھ کر چلیں۔‘‘ یہ کوئی نوجوان ہو سکتا ہے جو سڑک پر پیدل یا سواری پر گزرتے ہوئے آپ سے ٹکراتے ٹکراتے بچا ہواور آگے بڑھتے ہوئے یہ جملے ادا کر گیا ہو ۔یہاں چچا طنزیہ یا مذاق اڑانے کی غرض سے نہیں کہا گیا ہو گامگر بعض تہذیب اور تمیز سے عاری نوجوان بڑی عمر کے اجنبی کو ستانے یا کسی بات پرتلخی کا اظہار کرنے کے دوران خاص طور پرسامنے والے کو چچا کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ اسی طرح لفظ خالہ بھی ہے۔ محلے کے بچے اور نوجوان کسی بڑی عمر کی عورت کوعزت اور احترام سے خالہ کہتے ہیں اور بعض اوقات یہی نسبت طنز اور غصے کا اظہار بھی کرتے ہے۔ آپ نے سنا ہو گا کہ ’’خالہ ذرا سائڈ پکڑ لو، سڑک گھیر کر کھڑی ہو گئی ہو۔ دکان دارگاہک بنانے کے لیے بڑی عمر کی خاتون کو خالہ اور اماں کہتا ہے اور یہ عزت و وقار کا احساس بھی دلاتا ہے، مگروہی دکاندار سودے پر تکرار سے تنگ آجائے تو انہی رشتوں کا استعمال کرتے ہوئے دکان سے باہر بھی نکال سکتا ہے۔’’بیٹا‘‘ جیسی نسبت کا اظہار گھر والوں کے علاوہ باہر بھی بڑے بوڑھے لڑکوں، لڑکیوں کے لیے کرتے ہیں۔ یہ ایک نہایت محبت بھرا اور پیار جتاتا لفظ ہے اور یقیناًاس کی بہت اہمیت اور حیثیت ہے۔ مگر دیکھئے کہ نوجوان نسل اب اسے کس طرح برت رہی ہے، ’’بیٹا، کل کالج آ، تجھے تو وہیں بتاوں گا۔ چل بیٹا نکل ادھر سے وغیرہ وغیرہ۔ادھر بڑے بوڑھے بھی نوجوانوں کا مقابلہ کرنے کی کمزور سہی مگر کوشش ضرور کرنے لگے ہیں۔ ان کی طرف سے طنزیہ انداز میں گلی محلے اور تمام انجانے نوجوانوں کے لیے’’بھانجا ‘‘ استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمارا یہ جملہ اس استعمال کی وضاحت کر دے گا۔ ’’بھانجے، ادھر بھی دیکھ لو، کب سے آوازیں دے رہا ہوں۔‘‘ اسی طرح متوجہ کرنے کے لیے استعمال کے علاوہ بڑی عمر کے لوگ بھانجا کہہ کر یہ باور کرواتے ہیں کہ سامنے والا ابھی کسی بھی معاملے میں ان سے زیادہ سمجھ نہیں رکھتا یاناتجربے کار ہے۔ اس کی مثال یہ جملہ ہے ، ’’ بھانجے، ابھی تم نہیں سمجھو گے۔ ایک رشتہ ماموں کابھی ہے۔ جانے کتنے برس پہلے چاند کو بھی چندا ماموں کہنے کی ریت پڑی ہو گی مگر زمین پر والدہ کے بھائی کے لیے استعمال کی جانے والی نسبت یعنی ماموں اور ہی معنوں میں برتا جانے لگا۔ کسی منچلے نے کبھی ماموں کو دھوکے اور دغا بازی کے معنوں میں استعمال کر دیا اور پھر یہ رشتہ بھی شرارتی لہجے کی زد میں آگیا۔ اسے اب میڈیا بھی اپنی رپورٹوں میں استعمال کرنے لگا ہے۔ مثلاً ’’سائیں سرکار نے سیلاب متاثرین کو ’’ماموں‘‘ بنا دیا۔ متاثرہ فی خاندان تین لاکھ کا اعلان تو کیا مگر ان تک پہنچے فقط تین ہزار روپے۔‘‘ یعنی لفظ ماموں کا استعمال دھوکے باز ی کا شکار ہونے کے حوالے سے ہو رہاہے۔یوں کہیں کہ اگر کوئی شخص آپ کو مالی نقصان پہنچا جائے تو کہا جاتا ہے کہ وہ آپ کو ماموں بنا گیا۔
اب چلتے ہیں سیاست کی طرف اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ سیاستدانوں کی آپس میں رشتے داریاں بھی ہیں۔ ایک ہی سیاسی جماعت میں عزیز و اقارب کے علاوہ مخالف جماعت میں بھی رشتے دار موجود ہیں۔ موروثی سیاست تو ہمارا ایک بڑا مسئلہ بھی ہے، مگر میں کہہ چکی ہوں کہ اس تحریر کا مقصد معاشرتی خامیوں کی نشاندہی کرنا نہیں بلکہ آپ کو مسکرانے کا موقع دینا ہے، اس لیے آگے بڑھتی ہوں۔ سب سے پہلے بلاول بھٹو زرداری کا ذکر کریں گے جنھوں نے حالیہ جلسے میں اپنے بڑے سیاسی مخالف عمران خان کو’’ چاچا‘‘ کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا۔ مجھے ٹھیک سے یاد نہیں مگر اس سے قبل عمران خان نے بھی بلاول کو جواب میں بھتیجا کہا تھا۔ بلاول کا وہ مشہور چیلنج تو آپ کو بھی یاد ہو گا: انکل الطاف، اپنے نامعلوم افراد کو سنبھالیں اگر
ماضی میں جائیں تومرحوم سیاستدان اور حروں کے روحانی پیشوا پیر پگاراصاحب بھی بانی متحدہ کو انکل کہہ کر مخاطب کرتے رہے ہیں۔
اسی طرح بعض موقعوں پر مخالف اور حلیف دونوں ہی ایک دوسرے کو کسی رشتے سے مخاطب کر کے حمایت یا تنقید کرتے نظر آئے۔ بڑا بھائی اور چھوٹا بھائی کہنا تو عام بات ہے۔ رحمان ملک پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما ہیں۔ وہ متحدہ بانی کو بڑے بھائی کہتے ہوئے کبھی نہیں شرمائے۔ شیخ رشید بھی کہہ چکے ہیں کہ عمران میرا بھائی ہے اور کوئی ساتھ دے یا نہ دے میں ضرور اس کا ساتھ دوں گا۔ جلسوں کے دوران اس قسم کی نسبتوں اور رشتوں کے ساتھ تنقید اور مخالفت کا جواب دینا عام بات ہے، مگر موجودہ سیاست میں بلاول اپنی عمر کا خوب فائدہ اٹھاتے نظر آتے ہیں۔ وہ کسی بھی سیاستدان کو چاچا، بھائی اور بلا جھجھک بڑے میاں کہہ سکتے ہیں کیونکہ تمام ان سے عمر میں بڑے ہی ہیں۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اسے ہم سیاست میں شائستگی اور تہذیب کی ابتداء سمجھیں یا پھر رشتوں کی ارزانی کہیں؟ ویسے یہ اوئے اوئے کی سیاست سے تو بہتر ہی ہے۔
سدرہ ایاز صحافتی اداروں اور مارکیٹنگ کمپنیوں سے وابستہ رہی ہیں، سیروسیاحت کا شوق رکھتی ہیں، گھومنا پھرنا پسند ہے، اور اپنے انہی مشاغل اور مختلف سرگرمیوں کی انجام دہی کے ساتھ شاعری اور مختلف سماجی موضوعات پر مضامین اور بلاگ لکھنے کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔