The news is by your side.

ہمیں کیا چاہیئے‘ دعوے یا امن

 فون کی گھنٹی بجی  اوررندھی آواز میں پوچھا گیاآ پ کا بچہ نر سری میں پڑھتا تھا۔تھا کیا مطلب،پڑھتا ہے! کانپتے ہونٹوں سے بمشکل نکلا۔ ۔وہ ! وہ سکول میں حملہ ہوا اور کئی بچے شہید ہو گئے۔آپ سکول پہنچ جائیں۔نہیں !نہیں یہ نہیں ہو سکتا،آج تو  اسکول سے آکر اس نے اپنے پسندیدہ نئے شوز   پہننے تھے ‘ کل ہی تو خریدے تھے،کہ ماں مجھے کل سکول سے واپسی پر یہی شوز پہننے ہیں اور شوز لینے کے بعد اس کی آنکھوںمیں مسکراہٹ۔کہیں اس کی آنکھوںمیں گولیا ں تو نہیں مار دیں۔گزشتہ حادثے    میں بھی تو ایسا ہی ہوا تھا۔میں چیخ چیخ کر رو رہی تھی ۔ابھی ہی تو میں اس کو خدا حافظ کہہ کر بیٹھی تھی۔وہ کتنا پیارا ،کتنا معصوم تھا‘ تھا!نہیں ،نہیں وہ ہے،وہ تھا نہیں ہو سکتا وہ ہے۔۔میرا بیٹا نہیں مر سکتا۔اور میں چیخ چیخ کر روتی رہی ۔

اچانک میرے رونے کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی تو  احساس ہوا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔بس یہ میرے اندر کا ہی خوف تھا جس نے میرے اور میرے جیسی کئی ماؤں کے گرد حصار بنا لیا تھا،جو روز جیتی  ہیں ‘ روز مرتی ہیں  ‘ جو روز شکر کرتی ہےکہ ان کے بچے کے ساتھ ابھی تک یہ حادثہ نہیں ہوالیکن اس خوف سے نہیں نکل پاتےکہ ایسا نہیں ہوگا۔کیونکہ ایسا ہوا بھی تو تھا  نہ کئی ماؤں کے ساتھ۔ابھی کل ہی کی بات ہے ۔16دسمبرکے حادثے کو دو سال گزرنے کو ہیں لیکن اس حادثے نے ماں باپ کے دل  میں وہ خوف پیدا کردیا ہے کہ وہ سوچ کر بھی ایسا تصور نہیں کرسکتے کہ ان کے بچے کی شہادتکی خبر آئے گی اور وہ ’مجھے فخر ہے‘قسم کا بیان ریکارڈ کروائیں گے۔

school-post-5

16دسمبر2014 کا دن150خاندانوں کے لئے قیامت کا دن تھا تو کروڑوں عوام کےلئے خوف و ہراس کا دن،ایک طرف یہ خیال کہ ’نہیں نہیں آرمی سکول میں حملہ کیسے ہو سکتا ہے وہاں تو فوجی محافظ ہیں،وہاں درندوں کی رسائی کیسے ممکن ہے۔۔۔؟‘ تو دوسرے طرف بین کرتی مائیں،سر پیٹتے باپ،روتے کرلاتے رشتے دار یہ باور کروا رہے تھے کہ جو ہوا وہ کوئی وہم نہیں،خوف نہیں، سچ ہے۔

ذرائع کہتے ہیں کہ آرمی پبلک سکول پشاور میں دہشت گردوں کا حملہ ہو ا توسات درنددں نے معصوم بچوں کے سروں پر،چمکتی آنکھوں پر،بھاگتی ٹانگوں پرگولیاں برسائیں۔ اساتذہ اور پرنسپل بچوں کی ڈھال بنے  تو ان کو جلادیا گیا۔ دہشت گردبچوں کو گولیاں مار کر ان کو بھاگنے کا کہتے رہے جو معصوم بھاگنے کی کوشش کرتے ان کو زمین پرگھسیٹتے رہے۔

کتابوں کو زمین پرپٹختے رہے ،دہشت زدہ بچوں کی آنکھوں میں خوف اور وحشت دیکھ کر قہقہے لگاتے رہےاور پھر جب سکیورٹی اداروں کے لوگوں نے جا کر وہاں آپریشن کا آغاز کیا تو بالآخر وہ ٹوٹی کمر والے جو اپنے جسموں کے ساتھ بیلٹس باندھ کر مرنے آئے تھے، وہ مار دیے گئے لیکن کاش کہ ہمارے بچے نہ مرتے ۔ہماری ماؤ ں کے دلوں میں باقی رہ جانے والے بچوں کی موت کا خوف نہ ہوتا۔

school-post-3

مجھے یاد ہے اپنے بچپن میں جب ہم سکول کالج جاتے تھے تو مائیں بڑے سکھ کا سانس لے کے کہتی تھی کہ ’یہی وہ وقت ہے جب ہم کوئی کام کر لیتے ہیں ورنہ تو بچے سکون سے کوئی کام ہی نہیں کرنے دےتھے  ،بس انہی کے ساتھ لگے رہو‘۔

وقت بدلا تو اپنے تلخ حقائق کے ساتھ ماں کا سکھ چین بھی ساتھ لے گیا ہے۔ دفتروں میں بیٹھے باپ ،کمپیوٹرز کے ساتھ سر ٹکراتی مائیں یہی سوچتے ہیں جانے کب بھاگ کے سکول جانا پڑ جائے۔کوئی ان کے  بچوں کو مارنہ  جائےاور جانے گولیاں کہاں مارے۔ خوف  ہے کہ ختم ہونے کو نہیں آرہا۔

school-post-1

موت کے خوف سے رومانس صرف وہی کرسکتے ہیں جو اپنے جسم پر بارود باندھ کر کئی جسموں کا نام و نشان مٹانے کا ہنر رکھتے ہوں ۔وہ ماں موت کے کسی بھی کانسپٹ سے محبت نہیں کر سکتی جس نے اپنے بچے کو گود میں اٹھا کروہ مسکراہٹ پائی ہوجس کا دنیا کی کسی خوشی میں متبادل نہیں ہے۔گئے وقتوں کی بات لگتی ہے جب بچے سے محبت کا اظہار صرف ماں کیا کرتی تھی اور باپ کو صرف شیرکی آنکھ سے دیکھنے تک کی ہی اجازت تھی۔اب دنیا بھر میں باپ اور ماں برابری کی سطح پر بچے پالتے،ان کے ساتھ مسکراتے، ان کوگود میں جھولا جھلاتے،  ان کی موت پر روتے  بھی ہیں۔

حکومت  اور متعلقہ افراد کے  تعزیتی بیانات غم غلط کرنے کو کافی نہیں ہیں۔ ہمارے بچے مرے ہیں اور مر رہے ہیں۔ہمارے گھر  جلے ہیں اورجل رہے ہیں۔ہمیں شہادت کےنغمے درکار نہیں بس ہمارے بچوں کی زندگی کے دشمنوں کو ختم کردو‘ کافی ہے۔

 

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں