The news is by your side.

خواتین کی ترقی کی راہ میں کون حائل ہے؟

خواتین کی خودمختاری کی حدودآج کی دنیا کے لیے اہم سوال بن چکی ہیں۔آج کے دور میں اس سوچ کے ساتھ آگے بڑھنامشکل ہے کہ خواتین کو قومی دھارے میں شامل کیے بنا ملکی ترقی کا حصول ممکن بنایا جائے۔جہاں کئی ذہن عورت کو برابری کی سطح پر قبول کرتے ہیں‘ وہیں کئی اس حقیقت سے منہ موڑنا چاہتے ہیں کہ دنیا کی آبادی کا نصف اگر ساتھ شامل ہو تو ترقی کے زینے جلد طے ہو جائیں گے۔خود مختاری کا سفر عورت کے لئے کہیں بھی کسی بھی سماج میں آسان نہیں،خواہ وہ سیاسی ہو،سماجی یا معاشی خود مختاری ہو۔

اس وقت دنیا کی آبادی کی دوتہائی خواتین مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ معاشی لڑائی لڑ رہی ہے۔۔جہاں وہ بڑی بڑی پوزیشنز پر کارپوریٹ سیکٹرز کا حصہ ہیں،سرمایہ دارانہ نظام میں بہتر پرفارمنس دے کر اپنا منوا رہی ہیں‘ وہیں گھریلو صنعتوں میں بھی ترقی کا باعث بن رہی ہیں۔کیونکہ انہیں جب بھی کوئی کام کرنے کا موقع ملتا ہے وہ اسے ذمہ داری سمجھ کر قبول کرتی ہیں۔مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ابھی معاشی ترقی میں انہیں اپنی بقا کی لمبی لڑائی لڑنا ہے۔

سیاسی خود مختاری کی بات کی جائے تو یہاں بھی حالات معاشی خود مختاری سے مختلف نظر نہیں آتے۔ رپورٹس کے مطابق دنیا کے 195ممالک میں اب تک تقریبا ً19فیصد پارلیمنٹرین خواتین نے اپنا کردارفرنٹ فٹ پر نبھائیں یا نبھا رہی ہیں۔ امریکہ جیسی سپر پاوربھی ایک عورت کو سر براہِ مملکت ماننے کو تیار نہ ہوئی اور ہیلری کلنٹن کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔جب کہ دوسری طر ف مارگریٹ تھیچر ، اندرا گاندھی،آنگ سان سوچی ،انجیلا مارکل ،گروہرلم برنٹ لینڈ،ڈیم کیتھرےن ٹزلینڈ،میری روبنسن،کم کیمبل،رتھ میٹزلر،کرسٹینا فرنینڈس،چندریکا کماراٹنگا،حسینہ شیخ ،خالدہ ضیااور بے نظیر بھٹو جیسی متعددخواتین سربراہِ مملکت اور سربراہِ گورنمنٹ کے طور پر بہترین مثالیں سمجھی جاتی ہیں۔

جہاں کئی رکاوٹیں ہیں‘ وہیں مثبت پہلو یہ ہے کہ خواتین اپنی شناخت منوانے کی خواہش سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں اور سیاسی میدان میں خواتین کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔

ڈاکٹر انعم نجم

ڈاکٹر انعم نجم ایک باشعور پڑھی لکھی خاتون ہیں۔ سنہ 2008ءمیں ایک حادثے میں ڈاکوؤں نے ان کی گردن پر گولی ماری‘ جس کے نتیجے میں وہ عمر بھر کے لئے معذور ہوگئیں۔اس وقت وہ میڈیکل تھرڈ ائیر کی اسٹوڈنٹ تھیں۔اس حادثے کے بعد انہوں نے ہار نہیں مانی اور ایک نئے جذبے کے ساتھ زندگی کی جانب لوٹنے کا فیصلہ کیا۔وہ لوگوں کے رویوں اور اپنے تجربے بارے میں کہتی ہیں کہ ”ایک عور ت کے طورپر اگر آپ بالکل نارمل بھی ہیں تو بھی معاشرہ آپ کو آسانی سے جگہ دینے کو تیار نہیں ہوتا کجا کہ آپ ایک وہیل چیئر پر ہوں۔جب مجھے اس حقیقت کا اندازہ ہوا کہ جو ہو گیا ہے وہ اب ہمیشہ رہے گا تو میرے پاس دو ہی راستے تھے یا معذوری کے اندھیروں میں خود کو دفن کردوں یا اپنی ادھوری تعلیم مکمل کروں،میری فیملی نے میرا بھرپور ساتھ دیا اور مجھے زندگی کی طرف واپس آنے کا پورا موقع دیا،لڑکیوں کے معاملے میں معاشرے کو زیادہ حساس ہونے کی ضرورت ہے“۔

انعم کہتی ہیں کہ ”زندگی ایک پورا پیکج ہے جس میں مسائل کے ساتھ ہی خوشیا ں بھی جڑی ہیں،عورتوں کو زندگی سے اپنا حصہ لینے کے لیے دوسروں کی طرف دیکھنا چھوڑنا ہوگا۔۔تبھی انہیں مکمل خود مختاری حاصل ہو سکتی ہے“۔

ڈاکٹر انعم نجم جیسی خواتین بہترین مثال ہیں‘ ا گرچہ ان کی زندگی مشکل ہے لیکن انہوں نے دوسروں پر انحصار کرنے جیسی بڑی تباہی سے خود کو بچایا اورخود کو معاشی طور پر مضبوط بنایا ہے۔

شاد بیگم

یہ ایک مثال تھی اب دوسری دیکھئے‘ شاد بیگم بین الاقوامی سطح پر جانا جانے والا چہرہ ہیں۔وہ لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے کام کرتی ہیں اور اپنی خدمات پر دنیا بھر سے متعدد ایوارڈز حاصل کر چکی ہیں۔وہ فاٹا اور کے پی کے میں ایسے علاقوں میں کام کر رہی ہیں جہاں سیاست ہو یا معاشیات ،خالص مردوں کے کرنے کے کام سمجھے جاتے ہیں لیکن شاد بیگم ان علاقوں میں خواتین کے روشن مستقبل کے حوالے سے بہت پر امید ہیں ۔

وہ کہتی ہیں”ہم ان علاقوں میں کام کرتے ہیں جہاں ابھی تک یہ بحث چل رہی ہے کہ لڑکی کو پڑھنا چاہئے یا نہیں،معاشرتی دباؤ پر خاندانوں میں فیصلے کئے جاتے ہیں۔ ایسے میں یہ آسان نہیں کہ عورتیں خود مختاری کی بات کریں ‘ مگر ہم نے اس پر کام کرنا نہیں چھوڑا۔اسی کا نتیجہ ہے کہ خواتین سیاست میں سامنے آرہی ہے ۔جب خواتین سیاسی عمل میں شامل ہوں گی تو وہ فیصلوں پر اثر انداز ہوں گی انہیں اپنی اچھائی اوربہتری کاشعور حاصل ہو گا ۔لوکل باڈیز میں خواتین کی شمولیت قابلِ تحسین ہے اور اب جنرل الیکشن میں بھی مزید بہتری نظر آئے گی۔شعور اب مسلسل سفر ہے جس کو جاری رہنا چاہئے اور میں یقین سے کہتی ہوں ہماری خواتین کو جب بھی موقع ملتا ہے وہ اپنا آپ منواتی ہیں اور یہ ثابت کرتی ہیں کہ وہ کسی بھی میدان میں مردوں سے پیچھے نہیں ہیں“۔

خود شاد بیگم نے بہت کم عمری میں خواتین کی بہتری اور آگاہی کے لئے کام کرنا شروع کیا ۔اور اب اپنے 20سال کے سفر کو وہ کامیابی قرار دیتی ہیں۔
خواتین خود اپنی خودمختاری کا شعور حاصل کرلیں تو آدھی مشکلات خود بخود ختم ہوجائیں گی ۔ ان کا کہنا ہے کہ رشتوں کا احترام اپنی جگہ مگر اپنی ذات سے مکر کر خوش نہیں رہا جاسکتا۔

ان مثالوں سے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ خواتین کے ساتھ معاشرتی رویوں کی بات کی جائے تو پاکستان جیسے ترقی پزیر ممالک میں ابھی یہ سوچ پوری طاقت کے ساتھ موجود ہے کہ عورت کو گھر تک محدود ہونا چاہئے۔خواتین کے حوالے سے عزت اور غیرت کے خود ساختہ فارمولے ہیں جن کی بناء پر انہیں شدید معاشرتی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ہمارے ہاں ایسی خواتین کو مثالی سمجھاجاتا ہے جوگھریلوذمہ داریوں سمیت رشتوں کو نبھانا جانتی ہوں ،جو اپنی خواہشات کا قتل کرکے دوسروں کی خواہشات کی قدر کریں۔اور جو خواتین معاشرتی خواہشات سے ہٹ کر ہوں انہیں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔

اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کے معاشرے میں بیداری کی ایک تحریک پیدا ہو‘ جس میں شامل افراد خواتین کو انسان سمجھیں اور اپنی آنے والی نسلوں کو بھی یہ بات باور کرائیں کہ خواتین بھی آپ کی طرح جیتی جاگتی انسان ہیں ‘ کسی بھیڑ بکری کی طرح آپ کی محکوم یا ملکیت نہیں اور اس کی شروعات خواتین کو خود ہی کرنا ہوگی اپنی اولاد کو یہ سبق پڑھا کر۔ تب ہی ملک بھر میں خواتین کے لیے سماجی رویوں میں تبدیلی کا تیز عمل ممکن ہوسکے گا۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

+ posts

نوشین نقوی اے آر وائی نیوز سے وابستہ صحافی ہیں ‘ سوالوں کے جواب تلاشنا اپنا صحافتی حق سمجھتی ہیں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں