ہمارا آج کل کا سوشل میڈیا ’’سعودی عرب ایک شاہی ریاست ہے اور ایران خود مختار مضبوط ملک‘ سعودی عرب کی حرمت پر آنچ نہیں آنے دیں گے‘ ایران کی طرف کسی کو آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت بھی ہوئی تو ہم کٹ مر جائیں گے‘ سعودی پیسے سے پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ مل رہا ہے تو ایرانی پیسے سے بلوچستان میں دہشت گردوں کی ہونے والی امداد پر بھی کئی مسلمان سیخ پا ہیں‘‘۔ سوشل میڈیا پر ہونے والی ایسی خودمختارخبروں نے عام آدمی کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔ بقول جون ایلیاء ! ہم بھی بہت عجیب ہیں اتنے عجیب ہیں کہ بس۔خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں۔
ہمارا مسئلہ کیا ہے، سعودی عرب اس پر سوچتا ہے۔ہمیں کیا کرنا چاہئے، ایران یہ دیکھتا ہے۔ چینیوں کے لیے کیا بہتر ہے، چین کا یہ مسئلہ ہے۔ ہم کیسے کامیاب قوم بن سکتے ہیں، امریکی اس سوال کا جواب تلاشتے رہتے ہیں ۔روس اپنی عظمتِ گم گشتہ کو واپس پانے اور قائم رکھنے کے لئے کیا کر سکتا ہے، یہ سوال روسی حکمرانوں کے لئے درد سر بنا ہوا ہے۔حتیٰ کہ ہمارا ازلی دشمن بھارت بھی خود غرضی کی انتہاؤں کو چھوتے ہوئے صرف اپنے آپ کو مضبوط،کامیاب اور ترقی یافتہ بنانے میں لگا ہوا ہے۔ نیز آسٹریلیا،کینیڈا،جرمنی ،ناروے،نیوزی لینڈ،انگلینڈ ہو یا فرانس سب کو اپنی اپنی پڑی ہے۔
سب اپنے ہی غم میں دبلے ہوئے جا رہے ہیں ۔ سب کو اس بات کی فکر ہے کہ کیسے معاشی ترقی میں قوم کا آگے جانے کا آسان سے آسان رستہ بتایا جائے۔کیسے لوگوں کو تعلیم کی افادیت اور ضرورت سے آگاہ کیا جائے، کیسے اس بات کو یقینی بنائے کہ ملک میں انرجی بحران نہیں آئے، کیسے سرحدوں کو دشمن سے محفوظ رکھا جائے تا کہ عام شہری سکون کی نیند سو سکیں۔ کیسے ملکی حدود میں کالجز، یونیورسٹیز کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور دوسرے ممالک کے نوجوانوں کو بھی بلایا جائے تاکہ ہمارے نوجوان دنیا کے جوانوں سے سیکھیں اور اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کریں۔
چائنہ اپنے بدترین دشمنوں بھارت اور امریکہ سے بھی تجارت کو عیب نہیں سمجھتا۔ بھارتی حکمران چائنہ جا جاکے معاہدے کرنا قابلِ فخر سمجھتے ہیں، امریکہ اپنے بدترین دشمن اور حریف چائنہ کے ساتھ تجارت کرنا حرام نہیں سمجھتا، بلکہ آنے والے وقت کو بھانپتے ہوئے اپنے جوانوں کو اپنے دشمن کی زبان سے بھی آشنا رکھنا چاہتا ہے اور یہ امریکی تو اتنے۔۔۔ہیں کہ کوئی کیا کہے جہاں اپنا فائدہ نظر آئے،جھک جاتے ہیں۔ ہونہہ۔۔۔ہم خود غرض قوم نہیں، ہم بہادر ہیں، ہم دشمن کے دانت کٹھے کرنا جانتے ہیں، ہمارے جوان سرحدوں کی حفاظت سے بالکل بھی غافل نہیں ہیں، ہمارے کچھ جوان بہک گئے ہیں جوخود اپنے جسموں کے ساتھ بم باندھ کر اپنے مسلمان بھائیوں کو شہید کر دیتے ہیں، لیکن ہم جانتے ہیں کہ مسلمان ایسا نہیں کرسکتے، اس لئے جیسے ہی ان کو غلطی کا احساس ہوگا ہم انہیں پھر اپنا لیں گے۔ کیا ہوا جو ہمارے پاس انرجی بحران ہے، ہمارے گھر روشن نہیں، لیکن دشمن نہ بھولے ہمارے سینے منور ہیں۔
ہمارے گھروں میں بھوک، افلاس اور غربت کے ڈیرے ہیں، مائیں اپنے جگر گوشے اٹھا کردریا میں اسی لئے چھلانگ لگا دیتی ہیں کہ اپنے بچوں کو روٹی نہیں سکتیں لیکن ہماری مائیں قربانی دینا جانتی ہیں تو ہمیں کیسے جھکایاجا سکتا ہے۔ ہم ہر بجٹ میں عام آدمی کے ٹیکس میں اضافہ کر کے غربت کو ختم کر دیں گے،صحت کا شعبہ کوئی ایسا جن نہیں جس کو ہم قابو نہیں کر پائیں، ہم نے بڑے بڑے دشمن قابو کئے ہیں،ہمارے تو معصوم بچے اتنے مجاہد ہیں کہ پولیو ،چیچک اور کینسر سے مر جاتے ہیں ۔۔اف تک نہیں کرتے۔
تعلیم۔۔۔تعلیم ہمارا مسئلہ نہیں، اس دنیا کو ہمارے پرکھوں کی دین ہے یہ جو آج گورے شانے چوڑے کرکے پھرتے ہیں اپنے علم کی شمع اٹھائے یہ ہمارے ہی بڑوں کا ورثہ ہے۔ہم بھوکے مر جائیں گے لیکن سمجھوتے نہیں کریں گے۔۔ہم ایمان نہیں بیچیں گے، امریکہ، چائنہ، بھارت، اسرائیل ،روس یا پھر کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی طرح ترقی کرنے کے لئے ہم اور راستے ڈھونڈیں گے۔اور وہ وقت دور نہیں جب ہم ہوں گے کامیاب۔فی الحال ہمارا مسئلہ تعلیم، جہالت، بیروزگاری، لوڈ شیڈنگ، صحت نہیں، فی الحال سوشل میڈیا پر یہ فیصلہ ہونا زیادہ ضروری ہے کہ ہم سعودی عرب کے ساتھ ہیں یا ایران۔
نوشین نقوی اے آر وائی نیوز سے وابستہ صحافی ہیں ‘ سوالوں کے جواب تلاشنا اپنا صحافتی حق سمجھتی ہیں