The news is by your side.

ویلنٹائن ڈے یا یومِ حیا‘ انتخاب ضروری ہے؟

دنیا بڑی تیزی سے ترقی کر رہی ہے بعض اوقات تو یہ تیزی اتنی تیز لگتی ہے کہ ترقی بھی پیچھے کھڑی منہ دیکھتی رہ جاتی ہے۔۔۔خاص طور پر گزشتہ دس سالوں میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ایسی کہ محض دس سال پہلے کا کوئی ترقی یافتہ فوت شدہ شخص بھی اچانک زندہ ہوجائے تو شام تک تبدیلیوں کی تعداد دیکھ کرچیخیں مار مار کے واپس مرجائے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے ویلنٹائن ڈے منانے سے روک دیا

ہم تیسری دنیا کے باسی یوں بھی ترقی یا تبدیلی کو بساند سمجھ کے پہلے خوب ناک بھوں چڑھاتے ہیں،پھر اسے دشمن کی سازش قرار دیتے ہیں(پہلی کوشش کرتے ہیں دشمن کو یہودی بنا دیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ انسپائر ہو سکے اور تبدیلی نامی برائی سے دور رہ سکیں)۔۔۔۔جیسے جیسے دنیا میں ٹیکنالوجی یا مشینیں بدلتی ہیں ویسے ویسے ہی رویے اور روایات میں بھی اتار چڑھاؤ آتا ہے،ہم تیسری دنیا کے باسی اس کو بھی جرم سمجھتے ہیں کہ روایات میں اگر کچھ خرابیاں ہیں تو انہیں دھیرے دھیرے دور کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ہم ایک آنکھ ہلکے سے بند کرکے چور نظروں سے دنیا کو دیکھتے ہیں۔ آدھے ہونٹوں کی سیٹی بنا کے مسکراتے بھی ہیں،لیکن باقی آدھے بچے ہونٹوں کو بھی آدھے ہونٹوں کی خوشی سے محظوظ نہیں ہونے دینا چاہتے۔۔۔نظریہ یا نظریات مختلف ہونا کوئی اخلاقی یا انسانی جرم نہیں ہے لیکن محض اسی بنیاد پر بنیاد پرستی کی بنیاد رکھ دی جائے کچھ اچھا نہیں لگتا۔ویلنٹائنز ڈے کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہے جیسے جب پاکستان میں لاؤڈ اسپیکر آیا تو ہر طرف اس کو شیطان کو بھونپو کہا گیا، ریلوے ٹریک کو غیر اسلامی کہا گیا،ڈاک خانے کو بھی شراب خانے جیسی نفرت سے نوازا گیالیکن کم بخت تبدیلی آتی رہی، وقت نے دیکھا بھونپومسجدوں کی علامت بن گیا،ریلوے کو ملاؤں کی پسندیدہ سواری کی سند ملی، بڑے بڑے اجتماع میں شرکت کرنے والوں نے ٹرین کا سفرکیا اور اس کو محفوظ سمجھا۔ڈاک خانے سے ڈاک لانے والے شریف صفت بزرگ بھی داڑھی شدہ تھے ۔یعنی ہم ایک ایسے وقت کا انتظار بھی کر سکتے ہیں جب محض نظریات یا نظریہ کسی ویلنٹائن ڈے کا دشمن نہیں ہوگا۔جب کسی کھلے میدان میں لگنے والے عوامی اجتماع کی طرح ویلٹائن ڈے کوقبول کرلیا جائے گا،جب کوئی بھی حیا ڈے کسی ویلنٹائن ڈے کا متبادل نہیں ہوگا۔ آخر ہم نیو ایئر بھی تومناتے ہی ہیں نہ۔

بعض اوقات ہم بالکل عادتاًبنا سنے کسی بات کی مخالفت ایسے کرتے ہیں جیسے ہم اپنے بچوں کی رائے جو بنا سنے کچلنا اپنا فرض سمجھتے ہیں،جب گلی بازاروں میں نفرت کے خطبے پڑھے جا سکتے ہیں تو محبت کے ترانے چھپ کے کیوں گنگنائے جائیں۔۔۔جینے دیں دنیا کو ،خوش رہنے دیں۔۔۔کوئی حرج نہیں۔۔۔۔یہودی کا صابن ،شیمپو،موبائل،گاڑی سب استعمال کرتے ہیں تو محبت کے پھیلنے اور پھیلانے کا پیغام بھی قبول کرنے میں برائی کیا ہے۔یا اس دن کو بالکل ایزی لیا جائے جیسے جو کام کر رہے ہیں ان میں ہی مصروف رہا جائے۔۔۔ سڑک کنارے دل بنے لال غبارے دیکھ کر منہ پھیر لیں،دکان پر خوش رنگ بنے محبت کے کارڈ دیکھ کر نظر چرا لیں،اور جن سے آپ محبت کرتے ہیں بس انہی سے چھپا لیں۔۔۔جیسے پہلے بھی کر رہے ہیں۔۔۔اور زور زور سے نفرت کی باتیں کریں،غصے بھرے لہجے میں تنفر بھر لیں،دنیا کو دکھائیں آپ کچھ نہ کر سکیں تب بھی نفرت کر سکتے ہیں۔

 

+ posts

نوشین نقوی اے آر وائی نیوز سے وابستہ صحافی ہیں ‘ سوالوں کے جواب تلاشنا اپنا صحافتی حق سمجھتی ہیں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں