The news is by your side.

ہائے عشق! ہم بھی آدمی تھے کام کے

عبداللہ ممتاز-سیتامڑھی‘ ہندوستان

اس دنیا کی ہنگامہ آرائیوں میں جہاں دیگر چیزوں کا شور بپا ہے وہیں ’عشق‘ کا چرچا بھی زوروشور پر ہے، یوں تو اس کی تقسیم حقیقی ومجازی میں کی جاتی ہے لیکن مجازی پر اس کا اطلاق شائع و ذائع ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ اس لفظ کی بدنمائی کی وجہ سے پورے قران اور تمام ذخیرۂ احادیث میں سوائے دو تین جگہوں کے اس کا استعمال کہیں نہیں ہوا، اور ان دو تین کو بھی محدثین نے ضعیف وموضوع قرار دیا ہے۔

یہ تین حرفوں کا مجموعہ اپنے اندر کرب واضطراب‘ نامرادی وناکامی اور بربادی تباہی کا ایک سمندر سموئے ہوا ہے‘ بڑے بڑے سورما وجیالے‘ خدا ترس وخدا رساں اس کے سوئے ہوے تاروں کو چھیڑنے کے جرم میں اپنے ہوش وحواس، عقل وخرد اور عزت وناموس کھو بیٹھے۔  بہت سی حکومتیں ان حسیناؤں سے عشق کی پاداش میں زیرو زبر ہوگئیں‘ شجاعت وبہادری کے بڑے بڑے تمغے جیتنے والے ان کے زلف برہم کے اسیر بن گئے اور ان کے گیسوئے دراز پابہ زنجیر ہوگئے۔

کسی کے قلب میں ان کے دل آویز جسم کے زیروبم اور پر کشش نگاہوں کی ایسی تیر پیوست ہوئی کہ وہیں مرغ نیم بسمل کی طرح تڑپ اٹھا اور کوئی ان کی ایک ادا پر مرمٹا اور ایک مسکراہٹ پر جان نچھاور کر ڈالی۔چوں کہ جہاں اس کی تباہ کاریاں عام اور اس کے نقصانات مشہور ہیں وہیں اس کی میٹھی کسکیں اور اس کی رنگینیاں بھی بڑی پرکیف وپر لطف ہیں؛ چناں چہ ایک عاشق گویا ہے کہ۔۔

شرکت ِغم بھی نہیں چاہتی غیرت مری
غیر کی ہوکے رہے یا شب فرقت مری

اس کی ہزارہا خرابیوں اور ناکامیوں سے واقفیت اور اس کی المناکی وستم ظریفی‘ پھر اس کے انجام سے آشنائی کے باوجود ایک عاشق صحرائے لیلیٰ کا آہوئے بیتاب بنا پھرتا ہےاور صہبائے عشق کو جو دراصل اشک غم اور مئے تلخ وترش ہے پرلذت جام سمجھ کر گھونٹ گھونٹ پیتا رہتا ہے، جب کہ پھولوں کا سیج انھیں پرخار نظر آتا ہے، چین وسکون چھن جاتا ہے، زندگی مکدر ہو جاتی ہے، بالآخر ناکامی ونامرادی کو اپنی قسمت سمجھ کر موت کا جام پی لیتا ہے یا پھر رونا اور صرف رونا… زیست کے لمحات گھٹ گھٹ جینا اور ذلت ورسوائی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔

عشق نے غالب نکما کردیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں