The news is by your side.

ستاروں پررہنے والی مصنفہ

امی یہ گزر گیا کیا ہوتا ہے؟ میری سہیلیاں کہتی ہیں تمہارا ابا گزر گیا ہے۔ امی نے بہت بھول پن سے کہا ، گزر گیا ۔ یعنی چلا گیا ۔ یہ دیکھو ۔ وہ ایک کمرے سے نکل کر دوسرے کمرے میں چلی گئیں۔

اور آج جب میں یہ تحریر سپرد ِ قلم کر رہی ہوں تو بانو قدسیہ کو رخصت ہوئے کئی دن ہو چکے ہیں، مگر وہ یوں نہیں گزری کہ ایک کمرے سے نکل کر دوسرے کمرے میں چلی گئی ہوں ، وہ اپنے پیچھے ایک پوری تاریخ ، ایک عہد رقم کر گئیں ہیں۔نہ میرے قلم میں اتنی طاقت ہے نہ ہی میری علمی سطح اتنی بلند کہ میں اس نامور ترین مصنفہ پر چند سطریں بھی رقم کر سکوں جو بلاشبہ اردو ادب میں سکول آف تھاٹ کا درجہ رکھتی تھی۔

” جو لوگ بیج سے پودا ، پودے سے جھاڑ، جھاڑ سے درخت اور درخت سے جھٹا داری گھنی چھاؤں بن جاتےہیں ، ان کے متعلق مکمل درستگی، سچائی اور یقین کے ساتھ کچھ بھی کہنا بہت مشکل ہوتا ہے، بانو قدسیہ بھی بہت سے نوواردوں کے لیئے گھنی چھاؤں تھیں ، جس کے سائے تلے کتنے ہی مسافر دم لیکر آگے بڑھے اور اردو ادب میں نام بنایا۔ جن کی تحریروں نے آج کی نوجوان نسل کے اندر بھکڑ پوہلی کی طرح اگتے ان گنت سوالات کو نا صرف عنوان دیا بلکہ یہ ہمارے لیئے اردو ادب کے اصل معیار کی الم بردار بھی ہیں ورنہ آج کی ڈائجسٹ مافیا نے ادب کی لٹیہ ڈبونے میں بھلا کہاں کسر چھوڑی ہے۔

BANO POST 2

بانو قدسیہ بلاشبہ ایک عہد کا نام تھا اور گروتھ ایک مسلسل پراسس ہے ، جن لوگوں نے انہیں ابتدائی دور میں پرکھا جب وہ اشفاق احمد کے رسالے ” داستان گو ” کے لیے ضرورتاً لکھا کرتی تھیں ان کا مشاہدہ مختلف ہوگا ، جنھوں نے دوسرے مرحلے میں ” راجہ گدھ” کے ذریعے بانو کو جانا ان کی رائے کچھ اور ہوگی، اور جو آخری عہد میں ان کےساتھ رہےان کا تجزیہ یکسر مختلف ہوگا ، “جو شخص محض لاروے کی شکل کو جانتا ہو وہ کبھی بھی تتلی کو اسی لاروے کی تبدیل شدہ شکل میں نہیں سمجھ سکتا”۔

ٹیچران دی کورٹ

28 نومبر 1928 کو مشرقی پنجاب ضلع فیروز پور میں جنم لینے والی اس نامور مصنفہ۔ ڈرامہ نگار اور نقاد کا اصل نام قدسیہ بانو چٹھہ تھا ، چھوٹی عمر میں یتیم ہوجانے والے بچوں کی زندگی میں باپ کی غیر موجودگی سے ایک ایسا خلا پیدا ہوجاتا ہے جو ساری عمر نہیں بھر پاتا ، باپ کے نام سے منسلک ایک ہیولہ ایک پرچھائیں سی ہوتی ہے ۔ مگرہر موڑ پر زمانے کی ہر نئی ٹھوکر پر کوئی مضبوط کاندھا ، کو ئی سینہ نہیں ملتا جس میں منہ چھپا کر آپ آنسو بہا سکیں ۔ بانو اس حوالے سے خوش قسمت رہی کہ اسے ایک باہمت اور بہادر ماں کا ساتھ میسر آیا ” جو کبھی سوال نہیں بنی ہمیشہ جواب بن کر جیتی رہی، جس نے کبھی شکوہ نہیں کیا کہ یا الہیٰ ستائیس برس کی عمر میں بیوہ ہوکر اتنی لمبی عمر کس کے سہارے کاٹی جا سکتی ہے؟۔

قیامِ پاکستان کے ابتر حالات میں ، لٹے پٹے قافلوں کے ساتھ جب قدسیہ بانو لاہور پہنچی تو اسے سفر کی کھٹنائیوں اور خون آشام داستانوں نے یکسر بھلا دیا تھا کہ وہ دھرم شالہ سے بی اے کا امتحان دیکر چلی تھی ۔ چند ماہ بعد بی اے کا یہ رزلٹ ان کی پژ مردہ سی زندگی میں خوشگوار ہوا کا جھونکا ثابت ہوا ،اور 1949 میں انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے میتھ میٹکس کرنے کے لیئے کمر باندھی ، مگر قدرت اس کی زندگی میں ایک نیا موڑ لانے والی تھی ، کانونٹ اور کنیئرڈ کالج کی فارغ التحصیل بانو نے جب ایم اے اردو کا انتخاب کیا تو اِس فیصلے سے اں کی ماں ہی نہیں بھائی پرویز کو بھی حیرت کا شدید جھٹکا لگا ، کیونکہ اردو ادب سے بانو کی واحد واقفیت پنڈت رتن ناتھ سرشار کا ” فسانۂ آزاد” تھی، ُاس پر ستم یہ کہ پوری کلاس میں اشفاق احمد نامی اس شاگرد کا سکہ چلتا تھا جو ایم اے سے پہلے ہی صاحبِ کتاب تھا سو کس کی مجال تھی کہ وہ اس کے سامنے پر بھی مار سکے ، مگر قدسیہ بانو ایک دفعہ یہ جسارت کر بیٹھی۔ ففتھ ایئر کے امتحان میں وہ فرسٹ اور اشفاق سیکنڈ ٹہرے۔ یہ اشفاق احمد کے لیئے ایک بہت بڑا چیلنج تھا ، اب وہ ہر روز راہ داری میں اس دھان پان سی لڑکی کا انتظار کرتا اور سامنا ہوتے ہی ہاتھ پھیلا دیتا، قدسیہ کو بھی اس شغل کا کچھ ایسا چسکا پڑا کہ وہ دھیان سے پرس میں سکے رکھنے لگی ، یہ سکے اور سگریٹ کا تعلق ایک ایسے رشتے کا سبب بننا جو انہیں تاریخ میں امر کر گیا۔

BANO POST 1

اشفاق احمد خان خاندانی پٹھان تھےاور قدسیہ جاٹ ، ان کا ملاپ کسی طور ممکن ہی نہ تھا مگر ان کی سچی محبت راستے کی ہر رکاوٹ کو تہس نہس کرتی پنپتی رہی اور یوں 1956 میں وہ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے، عجیب بے سرو سامانی کا عالم تھا نہ رہنے کو کوئی مناسب ٹھکانہ تھا نہ ہی نوکری، پھر جلد ہی انیق خان اور انیس خان نے آکر جہاں انکی زندگی مکمل کی وہیں ذمہ داریاں اور پریشانیاں بھی بڑھتی گئیں ۔ بانو امراؤ جانِ ادا کی طرح چوڑی دار پاجامہ اور سلیم شاہی جوتے پہن ، بالوں میں گجرا سجا کر، دلربا اور محبوبہ بنی رہنے پر مصر تھی مگر وقت ، حالات اور خود اشفاق احمد کا تقاضہ کام، کام اور صرف کام تھا ۔ سو قدسیہ بھی گردن جھکا ، پاؤں میں سلیپر پہن کر رکتی چلتی ، گھسٹتی کام کی پٹھری پر چڑھتی چلی گئی۔ مالی پریشانیوں سے نمٹنے کے لیے اشفاق احمد نے اپنا رسالہ” داستان گو” نکالا تو بانو اس کے لیئے آپ بیتیاں ، ناولٹ اور مضامین سب ہی کچھ لکھا کرتی، اشفاق احمد بے شک بادشاہ گر تھے وہ چاہتے تھے کہ جس قدر فیتہ قدرت نے قدسیہ کے اندر لپیٹ رکھا ہے کم از کم اتنا قد تو نکلے ، سو پہلے پہل قدسیہ بانو چٹھہ ” بانو قدسیہ بنی اور پھر ریڈیو اور ٹی وی کی سکرپٹ رائٹر ، مگر دنیا نے اسے ” راجہ گدھ” کے ذریعے جانا ۔

قدرت اللہ شہاب کے روحانی کمالات اور انکی ذات سے منسلک ہزار ہا داستانوں میں ا یک قدر ہمیشہ مشترک رہی ہے کہ لوگوں نے ہمیشہ ان سے فیض پایا ، کافی کے رسیہ جگت گرو ممتاز مفتی سے لیکر ، اثیر خان اور عکسی مفتی تک ہر کسی کو اپنے اندر چکراتے بگولوں جیسے سوالات ٹھاٹے مارتے اندیشوں کا مؤثر جواب ہمیشہ شہاب صاحب سے ہی ملا ۔ قدسیہ سراپا سوال تھی ، ہر شے کو کھوجنا ، اس کا پوسٹ مارٹم کرنا ان کا بچپن سے اولین مشغلہ رہا تھا ۔ قدرت اللہ شہاب کی نظر ِ کرم سے اس کے ان گنت اندیشے کن جوڑ منجمد شکل اختیار کرتے گئے اور یوں چھوٹے چھوٹے پیراگرافوں کی صورت میں راجہ گدھ تخلیق ہوتا گیا ۔ کرب کے ایک طویل سفر کے بعد بانو ٹھنڈے سائبان تلے آبیٹھیں۔

” ہر شخص ساری عمر ایک ہی سزا نہیں بھگت سکتا ، پھانسی کے تختے سے اتر کر بجلی کی کرسی پر بیٹھنا ، بجلی کی کرسی سے اٹھ کر صلیب چڑھنا ، تہہ آب ہو کر بھی نہ مر نا۔” آج کل کم و بیش ہر کوئی زندگی کی کسی نہ کسی سٹیج پر ان حالات سے ضرور گزرتا ہے ، بلاشبہ راجہ گدھ آج کی نوجوان نسل کے اندرونی خلفشار کی کہانی ہے ، اندرون میں جاری نیکی اور بدی کی اس جنگ کی داستان ہے جو اس کی ناؤ کو کہیں پار لگنے نہیں دیتی۔”

یوں آلو پیاز چھیلتے چھیلتے قدسیہ ادبی محافل اور میٹنگز میں جا بیٹھی ، اس قلم سے شاہکار پر شاہکار تخلیق ہوتے گئے ، “آسے پاسے” ،” آتشِ زیرپا “، “فٹ پاتھ کی گھاس “، “ایک دن “،” دوسرا دروازہ”،” سورج مکھی “، “حوا کے نام ” ہر گزرتا برس بانو کے ادبی قد میں اضافہ کرتا گیا ، اس پر کہانیاں وارد ہونے لگیں ، کبھی چلتے پھرتے ، کبھی سوتے جاگتے ، کبھی مٹر گوشت پکاتے۔ تخلیقی اور ادبی کام کبھی بھی انسان کی اپنی مرضی سے وجود میں نہیں آتا ، غزل ہو یا کہانی ۔ ناول ہو یا افسانہ یا کوئی پینٹنگ فن کار پر یہ ہمیشہ اس طرح وارد ہوتے ہیں کہ وہ خود ان کی تخلیق کے پراسس سے لاعلم رہتا ہے ۔ اشفاق احمد کی گھنی چھاؤں تلے قدسیہ کا ادبی سفر بلندیوں پر محوِ پرواز رہا ۔ وہ پتی بھگت تو ہمیشہ کی تھی مگر اب مریدنی بھی بنتی جا رہی تھی ۔وہی انہیں ہاتھ تھام کر ریڈیو سے ٹیلی وژن لیکر گئے ، جہاں چند ہی سالوں بعد ان کے نام کا سکہ چلنے لگا ، شاید اس لیے کہ بانو قدسیہ کے ڈراموں میں مرکزی کردار عورت اور اس کی زندگی کے گرد گھومتے گوں نہ گوں مسائل تھے ۔1956 میں قدسیہ کو زندگی کا پہلا ” گرایجویٹ ایوارڈ فار بیسٹ پلے رائٹ “ملااور یوں ایوارڈز کا ایک سلسلہ شروع ہوا جس کی معراج ” ستارۂ امتیاز ” اور ” ہلالِ امتیاز ” جیسے اعلیٰ سول اعزاز ٹہرے۔” بازگشت” ” توجہ کی طالب” اور “امر بیل “کو اردو ادب کی بہترین مختصر کہانیوں میں شمار کیا جاتا ہے ، جبکہ ” پیا نام کا دیا ” وہ کلاسک ناول ہے جس نے ناول نگاری ہی نہیں ڈرامہ نگاری میں بھی قدسیہ کو ہمیشہ کے لیئے امر کر دیا ۔ ” مردِ ابریشم” قدرت اللہ شہاب سے بانو قدسیہ کی والہانہ عقیدت زیر ِ اثر تخلیق ہوا وہ شاہکار ہے جس میں ان کا قلم ہر اس سچ کو بے دھڑک منظرِ عام پر لایا ہے جو زمانے کے نشیب و فراز میں وہ اپنے ارد گرد مشاہدہ کرتی رہیں۔

BANO POST 3
سن 2004 میں طویل علالت کے بعد جب اشفاق احمد ہمیشہ کے لیئے با نو قدسیہ کا ساتھ چھوڑ گئے تب سے یہ پتی بھگت پیا نام کا دیا جلائے بیٹھی تھیں، ان کی صبح انہی کی یادوں سے ہوتی تھی تو رات بھی وہ اسی نام کی مالا جپتے جپتے نیند کی گہری وادیوں میں اتر جاتی ، جہاں خوابوں میں بھی بس وہی ایک من موہنا بستا تھا ، جو اس کے شوہر سے بڑھ کر ایک مشفق باپ سا مہربان تھا ، جو باپ ہی کی طرح ان کی پرورش اور حفاظت کرتا، زمانے کے سرد و گرم سے بچاتا انہیں شہرت اور ناموری کے آسمان تک لے کر گیا ۔ دنیا کہتی ہے کہ ہر نامور مرد کی کامیابیوں کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے مگر دنیا کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ عروج کی چوٹی کو سر کرنے والے ہر عورت کے پیچھے ایک نہیں کئی مردوں کا ہاتھ ہوتا ہے ۔ بانو اس لحاظ سے بہت خوش قسمت رہی کہ اسے قدرت اللہ شہاب ، اشفاق احمد اور ممتاز مفتی جیسے سکہ بند دانشوروں کا ساتھ میسر آیا جنھوں نے ان کے ریئل ٹیلنٹ کو پرکھتے ہوئے ہر قدم ، ہر موڑ پر بھرپور راہنمائی اور حوصلہ افزائی کی ، وہ جھٹا داری چھاؤں بنے ادبی گیدڑوں اور لومڑیوں سے بچاتے اسے آگے بڑھاتے ایک ایک کر کے رخصت ہوتے گئے۔ گذشتہ 12 برس سے بانو اپنے سارے خوف ، اندیشوں اور وسوسوں سے نہتی لڑتی زندگی سے نبرد آزما ء تھیں ۔

BANO POST 5
دن کے وقت وہ دھوپ دریچوں میں بیٹھ کر اُن جانے پہچانے چہروں کو تلاشتی تو شام کو پہلے ستارے کی آمد کے ساتھ ہی اس کا احساسِ تنہائی کچھ اور سوا ہوجاتا ، وہ منتظر تھی کہ کب اسی ستارے کو لوٹ جائیگی جہاں ، اشفاق، قدرت اور مفتی بستے ہیں ،سو 4 فروری 2017 کو ان کا یہ احساسِ جلاوطنی تمام ہوا ، بانو قدسیہ اپنے ستارے کو لوٹ گئیں اور اب ان کے پیچھے ہم اپنے اپنے خوف اور اندیشوں سے نبردآزما ء زندگی کے طوفانوں سے لڑتے رہیں گے۔

کیا ہم میں سے کسی کے اندیشے یقین کے ساحلوں سے ٹکرا کر ” راجہ گدھ” جیسا کوئی شاہکار تخلیق کر پائیں گے؟ کیا ہم میں سے کوئی اشفاق، کوئی مفتی ، کوئی بانو، یاکوئی شہاب میدان ِ عمل میں آکر اردو ادب کی اس ڈوبتی ناؤ کو بچانے کی کوشش کر ے گا ؟؟ کیا ہم میں سے کوئی پانچواں اس ستارے تک رسائی حاصل کر پائیگا جہاں اردو ادب کے یہ چار ستون سکونت پذیر ہیں ؟؟۔

ایسے بہت سے سوالوں کو میں نے اپنے اندر گرداب بننے چھوڑ دیا ہے ، کیونکہ بانو کہتی تھی ” جو سوال کوہنی ٹیک کر کھڑکی میں آ بیٹھیں ان کے حل کی کوئی صورت کبھی نہ کبھی نکل ہی آتی ہے”۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں