ایک وقت تھا جب اسلامی کتابوں میں پڑھا کرتے تھے کہ اللہ پاک نے حواکو آدمؑ کی پسلی سے پیدا کیا، جب شعور کی منزلیں طے کیں اور اس مقام تک پہنچے کہ خود تحقیق کر کے سچ کی کھوج لگا سکیں توقران نے یہی بتایا کہ انسان کی تخلیق کا آغاز گارے جیسی مٹی اور پانی سے ہوا، سائنس سے ر جوع کیا تو تب بھی یہی عقدہ کھلا کہ بگ بینگ سے تقریبا 4 کروڑ سال کے ارتقائی عمل کے بعد پہلا جرثومہ وجود میں آیا جس سے کرۂ ارض پر جانداروں کی باقاعدہ افزائشِ نسل کاآغاز ہوا۔ یعنی نیوٹرل تحقیق کے مطابق مرد اور عورت کی تخلیق میں کوئی تخصیص نہ تھی ۔(سورۂزمر)۔
آدم اور حوا دونوں ہی معاشرتی زندگی میں ایک دوسرےکے لیے لازم و ملزوم ہیں ۔ ان کی باہمی وفا، ایثار ، سچے جذبے اور سمجھوتہ نہ صرف ایک مکمل گھر بلکہ ایک مثالی خاندان اور معاشرے کی تخلیق کا سبب بنتےہیں۔ لیکن مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اس میں عورت کا حصہ زیادہ ہوتا ہے ، پہلے ماں باپ اور بھائیوں کی عزت کا بھرم تو شادی کے بعد شوہر کی ناموس کی حفاظت ، بچوں کی پیدائش اور عمدہ تعلیم و تربیت عورت کی اولین ذمہ داری سمجھے جاتےہیں جس میں مرد کا حصہ تقریبا نہ ہونے کے برابر ہے۔بڑھتی ہوئی بے راہ روی میں ہر آن یہ دھڑکا اس کے لیے الگ سوہان ِ روح بنا رہتا ہے کہ کب شوہر صاحب کا ’دل‘ بے ایمان ہوا ،اور سوتن حاضریعنی اس خودکار مشین کو اپنی مرمت اور مرہم پٹی بھی خود ہی کرنی ہوتی ہے ورنہ ناکارہ اور فرسودہ کا ٹیگ لگانے میں مرد نا تو زندگی بھر کے ساتھ ، بیوی کی وفا اور قربانیوں کو دیکھتا ہے اور نہ ہی بچوں کے مستقبل کی کوئی فکر اسے ’دل لگی‘سے روک پاتی ہے۔
یہ بھی ایک عام مشاہدہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں انا کا حق صرف مرد رکھتا ہے، عورت کو ماں، بہن ، بیوی یا بیٹی ہر روپ میں زندگی کے ہر نئے موڑ پر، ہر رشتے کو نبھانے کے لیئے اپنی انا اور خود داری کی قربانی دینا پڑتی ہے، اپنے اندر کی عورت ، اسکی امنگوں اور جذبوں کو مار کر صرف مرد کی خواہش کے مطابق جینا ہی عورت کی اصل زندگی ہے۔ وہ جن رشتوں کو نبھاتے نبھاتے خود کو فنا کر لیتی ہیں انہیں ہی اسکی کوئی قدر نہیں ہو ۔ملازمت پیشہ خواتین دوہری چکی میں پاٹوں میں پستا ہوا وہ گیہوں ہے جسے صبح سات بجے سے رات گیارہ بجے تک پھرکی کی طرح گھوم کر ہر ذمہ داری نبھانا ہوتی ہے اور پھر بھی یہی سننے کو ملتا ہے کہ تم نے آخر ہمارے لیئے کیا ہی کیا ہے ؟
لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے ، ہر مرد عورت کو مٹی کی مورتی ،یا پلاسٹک کا کھلونا نہیں سمجھتا ۔بےنظیر ، حنا ربانی ، نرگس ماول والا، شرمین عبید ،ارفع کریم اور فضا فرحان جیسی خواتین بھی اسی معاشرے کی پیداوار ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ انہیں خوش قسمتی سےایسے مردوں کا ساتھ میسر آیا جنھوں نے ان کی صلاحیتوں کو اپنی انا کا مسئلہ بنانے کے بجائےان کا بھرپور ساتھ دیا ۔ آج جب نرگس کا لیگو پراجیکٹ ساری دنیا میں دھوم مچاتا ہے اور دنیا کے ذہین ترین افراد میں ا سکا شمار کیا جانے لگتا ہے ، شرمین اپنی ان اعلیٰ اور نڈر شارٹ فلمز پر آسکر ایوارڈ جیتتی ہے جو معاشرے کے گھناؤنے المیوں سے بہت بیباکی کے ساتھ پردہ اٹھاتی نظر آتی ہیں، فضا اقوام ِ متحدہ کے اعلیٰ سطحی پینل میں شامل کی جاتی ہے یا حبا رحمانی ناسا جیسے ادارے میں فلائٹ انجینئر کی سخت ترین ذمہ داریاں نبھاتی ہیں ، تو گویا ساری دنیا اس عورت کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتی ہے جسے کچھ عرصے پہلے تک ہانڈی، روٹی اور ڈائپرز کا ایکسپرٹ سمجھا جاتا تھا۔
بلاشبہ کسی معاشرے میں عورت کا ایک با عزت مقام ہی اس قوم کی عظمت کا نشان ہے اور ہمیں بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ خواتین کو عزت دیے بغیر ہم کبھی بھی ترقی کی شاہراہ پرگامزن نہیں ہوسکتے۔