The news is by your side.

ووٹ تو وڈیرے کو ہی دینا ہے نا

 ’’رضیہ تم لوگ الیکشن میں کس کو ووٹ دو گے؟‘‘ میں نے یونہی اپنی ماسی سے کام کرنے کے دوران پوچھا تھا۔ وہ تین سال سے ہمارے گھر میں صفائی ستھرائی کا کام کررہی ہے۔ اس کا تعلق سندھ کی ایک تحصیل سے ہے۔

’’باجی، ہمارا تو ووٹ ہمیشہ میر صاحب کو یا اس کے بندے کو ہی جاتا ہے۔ کل میری بیٹی کا فون آیا تھا کہ ادھر ہماری طرف میر صاحب کے لوگ آئے تھے، گاؤں والوں کو کہا ہے کہ اگلے مہینے جلسہ ہو گا، سب کو آنا ہے۔‘‘ اس نے ذرا لمبا جواب دیا۔

’’کیا مطلب؟‘‘ مجھے کچھ تجسس ہوا تو پوچھ بیٹھی۔

’’باجی، یہ سمجھ لو کہ جلسہ ہو گا اور میر صاحب نے کہنا ہے کہ جی اس بندے کو ووٹ دینا ہے عوام نے۔ تو بس وہ جس کا نام لیں گے اسی کو ووٹ ڈالیں گے۔‘‘

میں نے الجھتے ہوئے ایک اور سوال کیا۔ ’’تم ایسے ہی میر صاحب کے کہنے پر کیوں ووٹ دو گی۔ تم کو پتا ہے تمھارا ووٹ کتنا قیمتی ہے اور یہ وڈیرے…‘‘ میری بات مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ بول پڑی۔

’’میری بیٹی میر صاحب کے بنگلے پر ملازم ہے۔ چار ہزار دیتے ہیں جی وہ۔ کھانا الگ، پرانے کپڑے وغیرہ سب۔ ادھر ان کی جو بیگم ہے نا وہ اچھی ہے بہت۔ میری بیٹی کا خیال رکھتی ہے۔‘‘ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا تو وہاں عجیب سا اطمینان اور قطعیت نظر آئی۔ پھر میں نے مزید بات نہیں کی۔

ملک بھر میں سیاسی جماعتیں عام انتخابات کے لیے تیاریاں شروع کرچکی ہیں۔ 2018 کے انتخابات سے ایوانِ اقتدار میں چہروں کی حد تک تو تبدیلی یقینی ہے، مگر کیا اس بار عوام اپنے ووٹ کے ذریعے اپنے حق میں ماضی کے برعکس بہتر فیصلہ کرسکیں گے؟اپنی ماسی کے خیالات جاننے کے بعد تو میں یہی کہہ سکتی ہوں کہ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔

ووٹ کا درست استعمال کسی بھی ملک اور قوم کی سلامتی، بقاء اور ترقی و خوشحالی کا ضامن ہوتا ہے، لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ مخصوص ذہنیت کے حامل سیاسی خاندانوں اور وڈیرہ شاہی نظام نے ووٹ کو مؤثر اور حقیقی تبدیلی کا ذریعہ نہیں بننے دیا۔ہمارے ملک کے عوام اپنے ووٹ کی طاقت اورخود اپنے لیے اس کی اہمیت سے آج بھی آگاہ نہیں۔ اس کی مختلف وجوہات ہیں جن میں حکومتی بے حسی کے باعث زندگی کے مسائل اور دوسری مشکلات شامل ہیں۔ لوگ انہی میں اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ ووٹ کی اہمیت اور اپنے حقوق سے متعلق باتیں ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتیں۔

شہری علاقوں کی بات کی جائے تو اگلے انتخابات میں شاید کسی حد تک کراچی اور دیگر صوبوں کے بڑے شہروں میں تبدیلی یا تبدیلی کے نشان نظر آئیں، مگررضیہ کی بات سن کر میں سمجھ گئی کہ دیہات اور قصبوں کی سیٹوں سے اس بار بھی وہی چہرے اسمبلیوں میں پہنچیں گے جو کل بھی عوام کی فلاح و بہبود کے نام پر اپنے مفادات کی تکمیل کرتے رہے اور اب بھی یہی کریں گے۔

موجودہ حالات میں لگتا ہے کہ وڈیروں اور چودھریوں کا ووٹ بینک اگلے کئی برسوں تک اسی طرح قائم رہے گا، بھئی اس کے لیے وڈیروں اور چودھریوں نے بڑی ’’محنت‘‘ بھی تو کی ہے۔ انہوں نے لوگوں کو تعلیم سے دور رکھا، روزگار کے مواقع نہیں دیئے۔ انہیں دو وقت کی روٹی کے حصول کی فکر میں نڈھال رکھنے کے ساتھ پانی و بجلی سے محروم رکھا۔ منتخب نمائندوں نے اسمبلی میں بیٹھ کر اپنے اگلے پانچ سال پکے کرنے کے لیے پچھلے پانچ سال تک آئین میں موجود شہری حقوق کی دفعات سے نظریں چرائیں، قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے من چاہے فیصلے اور اقدامات کئے، میرٹ کی دھجیاں بکھیریں اور کرپشن کا سہارا لیا۔ اتنے سارے جتن کرنے کے بعد یہ لوگ کیسے ناکام ہو سکتے ہیں۔

قارئین، ہماری سیاسی تاریخ مشکوک انتخابات کے باعث مسخ ہو چکی ہے اور اب ہم یہی سوچتے ہیں کہ یہ نام نہاد عوامی ترجمان اگلے الیکشن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے لیے کیا حربے اختیار کریں گے۔ دیہات کی انتخابی صورتحال تو رضیہ نے میرے سامنے ابھی سے رکھ دی ، مگر جب ہم شہری آبادی کی طرف دیکھتے ہیں تو یہاں بھی حال کچھ ایسا مختلف نہیں ہے۔

لوگ فقط سوشل میڈیا کی حد تک باشعور اور آزاد نظر آتے ہیں۔اس حوالے سے اس قوم کے باشعور ہونے اور سماجی نقطۂ نظر سے بالغ النظری کا جائزہ لیں تو یوں محسوس ہوگا کہ یہ اپنے حقوق کے بارے میں کافی کچھ جان گئی ہے۔ اس پر سیاستدانوں کا مکروہ کردار بھی واضح ہو چکا ہے اور یہ ان سے نجات حاصل کرنے کے لیے تیار بھی ہے، مگرانتخابات میں نتائج وہی ماضی جیسے آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں جس نظام نے جکڑا ہوا ہے وہ اتنی آسانی سے شکست نہیں مانے گا۔ دوسری طرف ہم اس کے خلاف تو ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک اسے یکسر مسترد کرنے کی ہمت پیدا نہیں کرپائے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ابھی اسی سسٹم کو جھیلنا ہو گا اور فی الحال ایسے ہی لوگ ہم پر مسلط رہیں گے۔

شہروں میں شعور اور آگاہی کا سلسلہ پہلے کی نسبت زیادہ ہے مگر ہماری اکثریت دیہات میں رہتی ہے جہاں صرف سرداروں، میروں اور چودھریوں کا حکم چلتا ہے اور وہاں کے لوگ حکم کے بندے ہیں۔ انتخابات میں بااثر سیاستدان ، ان کا بیٹا، بیٹی اور دیگر قریبی رشتے دار ہی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔

رضیہ جیسے بیشمار لوگ اور خاندان ہیں جو چند سو کی نوکری کی خاطر اپنا بیش قیمت ووٹ ان کے نام کردیں گے اس کے علاوہ زور زبردستی، دھمکی اور زندگی کے خوف میں مبتلا رکھ کر بھی تو ووٹ حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ لہذا اگلے انتخابات سے بھی یہ توقع کرنا کہ ملک میں مجموعی طور پرمعمولی حد تک بھی تبدیلی کا سفر شروع ہو گا محض خواب ہے، مگر ہمیں ہمت نہیں ہارنا ہے۔ خواب کی تعبیر کبھی تو ملے گی۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں