The news is by your side.

کیا ہم سب خود غرض ہوتے جارہے ہیں؟

 ’’یار رفعت، یہ بیگ اور شاپر یہاں رکھ رہی ہوں، ذراخیال رکھنا، میں بس دو منٹ میں آئی۔‘‘ وہ کالج کی لائبریری میں کرسی پر بیٹھی اونگھ رہی تھی۔میں اس کے برابروالی خالی کرسی پر اپناسامان رکھ کر پلٹی ہی تھی کہ رفعت ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔’’ارے میں تو خود جارہی ہوں یار! سوری‘‘ اس نے معصومیت سے کہااورتیزی سے آگے بڑھ گئی۔

ایسا ہی ایک موقع وہ تھا جب میں نے امتحانی پرچہ ندا کی طرف بڑھاتے ہوئے بتایا کہ یار مجھے جلدی ہے ذرا، تم یہ نائلہ کو دے دینا،اس نے کہا ہے کہ دس منٹ لگیں گے وہ کالج پہنچ رہی ہے۔

’’یار….کسی اور کو دیکھ لو، میرا کچھ پتا نہیں کب اٹھ جاؤں۔‘‘ اس وقت وہ کینٹین میں چائے پی رہی تھی۔ اصرار یا زبردستی تو اسی سے کی جاسکتی ہے جس سے آپ کی بے تکلفی ہو یاقرابت داری۔ندا سے کالج میں شناسائی ہوئی تھی اور ہم اکثر بیٹھک بھی لگا لیتی تھیں، لیکن اس کی عادات اور مزاج سے میں زیادہ واقف نہیں تھی۔ مجھے مایوس لوٹنا پڑا۔میری اس تحریر کی بنیاد فقط یہی دو واقعات نہیں بلکہ کئی مرتبہ میری درخواست مسترد کی گئی تو میں نے غورکیا کہ یہ سب کیا ہے۔

مجھے محسوس ہوا کہ ہم کسی کی مدد کرنے کو آسانی سے تیار نہیں ہوتے۔ ہم باہمی تعاون اور خوشدلی جیسے جوہرسے محروم ہوتے جارہے ہیں ۔آپ بھی شاید اس بات سے اتفاق کریں کہ ’’انکار‘‘ ہماری عادت بن گیا ہے اور ہم کسی سے معمولی تعاون تک کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ہم ایک دوسرے کی مدد اس وقت کرتے ہیں جب منت سماجت کی جائے۔ شاید کسی کو اپنے سامنے گڑگڑاتا دیکھنے سے کسی جذبے کی تسکین ہوتی ہے، لیکن یہ اخلاقی اور ذہنی پستی نہیں ہے؟ کیا ہم صرف اسی کے کام آئیں گے جس سے برسوں پرانی سلام دعا ہو، جو ہمارا دوست یا قریبی رشتہ دار ہو۔ ہمارے رویوں میں یہ بھونڈا پن جانے کہاں سے شامل ہو گیا ہے۔

اسی الجھن کے ساتھ میں نے ایک اور زاویئے سے سوچا تو سامنے آیا کہ ہماری اکثریت چھوٹی یا بڑی ذمہ داری سے فرار حاصل کرتی ہے۔ معاشرے میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر ذمہ داریوں سے آزاد رہنے کا رجحان بڑھ رہا ہے جو بڑی خرابی کی علامت ہے۔ ہم اپنے روزگار اور گھریلو مسائل کی حد تک ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار ہیں اور بہت اچھی طرح انہیں نبھابھی رہے ہیں، لیکن اپنے گردو پیش سے چشم پوشی عادت بن گئی ہے۔ ہم پڑوسی کے مسئلے سے دور رہنا چاہتے ہیں، سڑک پر کسی کو مدد کی ضرورت ہو تو ہم آگے نہیں بڑھتے کیونکہ اس میں ہماری عقل کے مطابق کچھ وقت برباد ہو سکتاہے۔ اسی طرح اور کئی مثالیں آپ کے ذہن میں بھی ہوں گی۔

قارئین! معاشرہ افراد سے بنتا ہے اور آپس میں بہتر تعلقات اور تعاون و مدد کی عادت معاشرتی نکھار کا ذریعہ بنتی ہے، لیکن ہم اس وصف سے خود کو دور کرتے جارہے ہیں۔ ہم کسی کا بیگ تھامنے کو تیار نہیں تو کہیں کسی کی گری ہوئی چیز اٹھا کر دینے میں تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ البتہ اگر کوئی ہمارے آگے اپنے کام کے لیے گڑگڑائے تو پھر ضرور کردیں گے۔ اگر کوئی ہم سے کسی معمولی اور جائز کام کے لیے بھی تعاون چاہے تو پہلی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اسے ٹال دیں، لیکن منت سماجت کرے تو مزہ ہی اور ہوتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہم سب کو زندگی میں کسی نہ کسی کا تعاون اور ایک موقع پر مدد بھی درکار ہوتی ہے۔ اگر آج ہم کسی کے کام نہیں آرہے تو کیا کل دوسرا ہمارے ساتھ کھڑا ہوگا؟ اس رویے کو ہم ایک قسم کی خودغرضی بھی کہہ سکتے ہیں جس سے وقتی فائدہ ضرور ہو سکتا ہے، لیکن یہ انفرادی طور پر ہمیں شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔سوچئے کسی کو اس کے معمولی کام کے لیے انکار کرنے کے اگلے ہی لمحے ہمیں کوئی ضرورت آن پڑے اور ہم کسی کے تعاون کے طلبگار ہوں ، لیکن کوئی آگے نہ بڑھے تو…؟

ایک استاد نے مجھ سے کہا تھاکہ ’’کسی کی خاطر کبھی اپنی جان جوکھم میں مت ڈالنا، مگرجب کوئی تم سے اپنا زمین پر گرا ہوا قلم اٹھانے کی درخواست کرے تو دیر مت کرنا‘‘۔

+ posts

سدرہ ایاز صحافتی اداروں اور مارکیٹنگ کمپنیوں سے وابستہ رہی ہیں، سیروسیاحت کا شوق رکھتی ہیں، گھومنا پھرنا پسند ہے، اور اپنے انہی مشاغل اور مختلف سرگرمیوں کی انجام دہی کے ساتھ شاعری اور مختلف سماجی موضوعات پر مضامین اور بلاگ لکھنے کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں