روشنیوں کا شہر کراچی جو کچھ عرصہ قبل اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا، آئے روز کی ٹارگٹ کلنگ سے شہری عاجز آچکے تھے، ایسے میں عسکری اور سیاسی قیادت نے نیشنل ایکشن پلان کے تحت کراچی میں رینجرز کو اختیارات دئیے اور رینجرز نے شہر میں امن و امان کے قیام میں اہم کردار ادا کیا جو اللہ کے فضل و کرم سے آج تک قائم و دائم ہے، کیا ہی بہتر ہوتا کہ نیشنل ایکشن پلان کے دائرہ کار کو بڑھاتے ہوئے رینجرز کو پورے سندھ میں بھی اختیارات دے دئیے جاتے۔
کراچی کے امن و امان میں پولیس کا کردار بھی نمایاں ہے اور کالعدم تنظیموں کے خلاف آپریشن میں پولیس اہلکاروں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے اور کئی اہم مقدمات جیسے سانحہ صفوا گوٹھ اور امجد صابری قتل کیس کے ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا، تاہم کراچی آپریشن کی کامیابی کا سہرا مجموعی طور پر رینجرز کے سر جاتا ہے۔
لیکن دوسری جانب اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں کے گراف پر نظر دوڑائی جائے تو ہوشربا اضافہ دکھائی دیتا ہے جس کے سدباب کے سندھ پولیس کو فوری اور موثر اقدام اٹھانے ہوں گے جبکہ شہریوں کا کہنا ہے کہ سندھ پولیس اور سندھ رینجرز مشترکہ آپریشن کے ذریعے اسٹریٹ کرائمز پر قابو پاسکتی ہے۔
پولیس کے بارے میں عوام کی شکایات اپنی جگہ لیکن کراچی آپریشن میں شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کی تعداد ظاہر کرتی ہے کہ پولیس کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتی اورکراچی آپریشن کے دوران قیام امن کے لیے پولیس کے سپاہیوں اور افسران جن میں ڈی آئی جی حیات، ایس ایس پی چوہدری اسلم، شفیق تنولی، ایس ایچ او ناصر الحسن، سب انسپکٹر نثار، سب انسپکٹر ریحان، ایس ایچ او ذیشان کاظمی، عرفان حیدر، شہباز بھٹی، اے ایس آئی شہباز، اے ایس آئی سجاد، عامر رضا، پولیس اہلکار وقار ہاشمی، پولیس اہلکار راشد اقبال کے نام قابل ذکر ہیں، بلدیہ ٹاؤن میں پولیس اہلکار عامر رضا کو گھر میں گھس کر بیوی بچوں سمیت قتل کیا گیا، مقتول بلاول ہاؤس میں تعینات تھا، گلشن حدید میں ڈی ایس پی اور تین اہلکاروں کو مئی 2015 میں شہید کیا گیا ن کی قربانیاں کسی طور نظر انداز نہیں کی جاسکتیں۔
اسی طرح محکمہ پولیس کو اس تاثر کو غلط ثابت کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے کہ شہری رینجرز کی موبائل اسنیپ چیکنگ کے دوران خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں جبکہ پولیس موبائل کو دیکھ کر شہریوں کے ذہن میں کئی طرح کے خدشات جنم لیتے ہیں۔
آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو عوام میں پولیس کا مورال بلند کرنے اور تھانہ کلچر کی تبدیلی کے لیے صحت افزا اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ محکمہ پولیس میں انقلابی تبدیلیوں کے لیے سیاست دانوں بالخصوص حکمرانوں کو اپنا کردار نہایت ایمانداری اور خلوص نیت کے ساتھ ادا کرنا ہوگا کیونکہ پولیس نظام میں خرابی کی سب سے بڑی وجہ سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں ہیں جو کہ میرٹ کا قتل عام کرکے کی جاتی ہیں۔ جب انصاف مہیا کرنے والے اداروں میں ہی بھرتیاں انصاف کا گلا گھونٹ کر کی جائیں گی تو ایسے اداروں سے انصاف کے حصول کی توقع کرنا دیوانے کے خواب کے مترادف ہوگا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ پولیس اہلکاروں اور افسران کی پیشہ وارانہ تربیت کے ساتھ ساتھ کردار سازی پر توجہ مرکوز کی جائے جبکہ ان کی مالی حالات کو بہتر بنانے اقدامات کی بھی اشد ضرورت ہے۔
نعمان ناصر اے آروائی نیوز سے وابستہ صحافی ہیں ، کھیل اور سماجی نوعیت کے معاملات پر لکھتے ہیں- بلاگز میں اپنی ذاتی رائے کا اظہار کرتے ہیں