قوموں کی زندگیوں میں عروج و زوال ایک لازمی امر سمجھے جاتے ہیں مگر تاریخِ عالم گواہ ہے کہ آج تک وہی اقوام سر بلند اور سرخرو رہی ہیں جن کی عوام اپنے جفاکش ، محبِ وطن اور بے لوث قائدین کی قیادت میں ظلم و جبر اور نا انصافی کےخلاف ڈٹ گئے اور ہر طرح کے مزاحمت کو روندتے ہوئے اپنا حق لیکر دم لیا ۔ تحریکِ پاکستان بھی بلاشبہ عالمی تاریخ کا ایک ایسا ہی سنہرا باب ہے ، جب قائدِاعظم محمد علی جناح کی دلیرانہ قیادت میں برِ صغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے صدیوںپرانے ظلم و جبر کے نظام کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے اپنے لیئے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا جہاں نہ کوئی نہرو انہیں اذان و نماز سے روکتا ،نہ ہی کوئی گاندھی محض گائے ذبح کرنے پر منٹوں میں تہہ تیغ کرنے کی جرات کر سکتا تھا ۔
تحریکِ پاکستان میں 23 مارچ 1940 کی قرارداد کو بنیادی حیثیت حاصل ہے یہی وہ دن تھا جب قیامِ پاکستان کی پہلی اینٹ رکھی گئی ۔ سوچ اور نظریات کے اختلاف کے باعث آل انڈیا مسلم لیگ بھی مختلف دھڑوں میں بٹی ہوئی تھی اور قائدِ اعظم طویل عرصے سے سب گروہوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لیئے دن رات ایک کیے ہوئے تھے، اسی مقصد کے لیئے 1940 میں مسلم لیگ کا سہہ روزہ سالانہ اجلاس بائیس سے چوبیس مارچ کو منعقد کیا گیا اور تئیس مارچ کو منٹو پارک کےایک بڑے اجتماع میں قرارداد پیش کی گئی جس کے مطابق مسلم اکثریت والے تمام علاقوں کو مکمل خود مختاری دیکر ایک آزاد مملکت بنائی جائے جہاں وہ اسلامی احکامات ، آئین و قوانین کے مطابق پر امن زندگی بسر کر سکیں ۔ اس قراداد کوظفراللہ خان نے تحریر کیا تھاجبکہ اسی اجلاس میں علیحدہ مملکت کے لیے لفظ ” پاکستان ” چوہدری رحمت علی نے تجویز کیا ۔
اگرچہ اس قرارداد کے لگ بھگ سات سال بعد پاکستان ایک علیحدہ خطۂ زمین کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا،مگر برطانوی راج معتصب ہندوؤں سمیت اقوامِ عالم کو 23 مارچ کو منٹو پارک میں مسلمانوں کا جذبۂ ایثار ، اتحاد اور یگانگت دیکھ کراندازہ ہوگیا تھا کہ تعداد میں مٹھی بھر سہی مگر اِن جوشیلے ، متوالوں ،سر پھروں کو اپنی منزلِ مقصود تک پہنچنے سے روکنا اب کسی طرح بھی ممکن نہیں۔
آج ایک خود مختار اسلامی مملکت میں تیسری نسل پروان چڑھ رہی ہے اور ہم آزادی رائے جیسے تمام تر انسانی حقوق سے مکمل فیض یاب ہورہے ہیں تو یہ سب ہمارے انہی باہمت اور عظیم قائدین کی ان تھک محنت کا ثمر ہے جنھوں نے یہ بے شمار قربانیاں کسی ذاتی مفاد کے لیے نہیں دی تھیں۔ کیا سوچ اور نظریات کا کبھی کوئی اختلاف قائدِ اعظم اور لیاقت علی خان کے درمیان نہ ہوا ہوگا؟ کیا چوہدری رحمت علی کو ظفراللہ خان سے ہمیشہ مکمل اتفاق رہا ہوگا ؟ کیا مسلم اکثریت والے مشرقی علاقوں کے قا ئدین کی سوچ وہی رہی ہوگی جو دوسرے علاقوں کے سرکردہ قائدین رکھتے تھے ؟؟ نہیں ہر گز نہیں جہاں چار افراد جمع ہوں وہاں سوچ اور نظریات کا ہی نہیں جذبات کا اختلاف بھی سامنے آتا ہے۔ مگر منٹو پارک میں ایک جھنڈے تلے جمع ایک بڑےمجمع میں کوئی بلوچی ، پنجابی ، بنگالی یا اجمیری نہ تھا وہ سب ظلم و جبر اور نا انصافی کی چکی میں پستی مظلوم عوام کے نمائندہ تھے جن کا اولین مقصد اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کا تحفظ تھا۔
اور آج 77 سال بعد ہم کہاں کھڑے ہیں ؟ صرف عالیشان طریقے سے مسلح افواج کی پریڈ اور اکیس توپوں کی سلامی کےساتھ یومِ پاکستان منا لینا ہی کارنامہ نہیں ، اتحاد و اتفاق اور مکمل یگانگت کے اس پیغام کا پرچار کرنا بھی ضروری ہے جو اس عظیم قراداد کی گہرائیوں میں کہیں پنہاں ہے، اور وہ یقیناً یہی ہے کہ بلند مقاصد کے حصول کے لیئے اپنے ذاتی مفادات ہی نہیں ، آپس کے اختلافات کو نظرانداز کرکے ، مل جل کر ، ایک دوسرے کا سہارا بن کر آگے بڑھنا پڑتا ہے۔ مگر آج تو مسلم لیگ ہی اتنے دھڑوں میں بٹ چکی ہے کہ انہیں بیان کرنے کے لیئے پوری الف ، ب، پ دہرانا پڑتی ہے ۔ عمران خان جو یوتھ کے لیئے امید کی ایک کرن تھے اپنے سارے اعلیٰ نظریات اور آدرش بھلا کر صرف ن لیگ کا کچا چھٹا کھولنے میں مصروف ہیں تو حکومتی مشینری پانامہ لیکس کی وجہ سے ڈوبتی اپنی کشتی کو بچانےمیں سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہے ۔
عمران خان کے بلائنڈ فولوورز ہوں یا ن لیگ کے جیالے ، یا لندن والی ایم کیو ایم کے متوالے ہر کسی کا اپنا ایک علیحدہ نظریۂ سیاست ہے جس میں لفظ پاکستان کو اگر خوردبین سے بھی ڈھونڈو تو مشکل سے ملے۔
کہیں زیادہ بہتر تھا کہ سپریم کورٹ اور میڈیا پر ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے کے بجائے ، ہمارے یہ قائدین آل پارٹیز کانفرنس بلا کر اپنے اپنے اختلافات کو مل بیٹھ کر حل کر لیتے ، کیونکہ پاکستانی سیاست کےاس متعفن تالاب میں پارسا تو کوئی بھی نہیں ، کرپشن کہاں نہیں ہے، ایک پرائمری سکول ہیڈ مسٹر سے لے کر نادرا کے ڈی جی تک ہر کوئی اپنی اپنی طور پر لوٹ مار میں مصروف ہے،اس کو جڑ اکھاڑنے کے لیئے سپریم کورٹ کوئی اعلیٰ ترین فیصلہ صادر کر بھی دے تب بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ اس پر عمل ہو سکے گا۔
وقت کی ضرورت ہے کہ اتحاد و اتفاق اور آپس کے اختلافات کو بھلا کر آگے بڑھا جائے ۔ بلاشبہ پاکستانی قوم کو اس وقت قائد ِ اعظم جیسے جفا کش، محنتی اور دھن کے پکے قائد کی شدید ضرورت ہے ، جو سندھی ، بلوچی، پٹھان اور پنجابی کے اختلافات کو ختم کرکے ہمیں ایک پرچم تلے جمع کر سکے۔ ایک اور یومِ پاکستان مناتے وقت ہم اپنے رب کی رحمت سے پر امید ہیں ، انشاءاللہ سویرا جلد ہوگا۔
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک تھے ۔۔۔اور انشاء اللہ ایک رہیں گے ۔۔ پاکستان زندہ باد