The news is by your side.

پاک فوج کی استعداد میں اضافہ‘ پولیس کب جاگے گی؟

کسی بھی ریاست کی متعین سرحدوں کی حفاظت افواج اور دیگر سیکورٹی ادارے ہی کرتے ہیں جبکہ امن و امان قائم رکھنے اور قانون کی عملداری کے لیے پولیس اپنا کردار ادا کرتی ہے جس سے انصاف کی راہیں کھلتی اور خوشحالی کے اسباب سامنے آتے ہیں۔پاکستان نے الحمد للہ ملکی دفاع ناقابل تسخیر بنانے کے لیے ایک اور سنگ میل عبور کر لیا گیا۔ بری فوج نے فضا میں اہداف کو ڈھونڈ کرتباہ کرنے والے کم بلندی سے درمیانی بلندی تک مار کرنے والے چینی ساختہ ایئر ڈیفنس سسٹم ایل وائی 80 کو رواں ماہ پاک فوج کے فضائی دفاع کے نظام کا حصہ بنایا گیا ہے۔

اس موقع پرچیف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ ایل وائی 80 کی پاک فوج میں شمولیت سے فضائی خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ 80 ایک جدید میزائل شکن نظام ہے جو دشمن طیاروں، بیلسٹک کروز میزائلوں اور داغے گئے راکٹوں کو راستے میں ہی تباہ کرتا ہے۔دوست ملک چین نے روس کے تعاون سے یہ میزائل شکن نظام تیار کیا تھا۔

بری فوج کے پاس کم بلندی تک دفاع کرنے والے میزائل شکن نظام پہلے سے موجود ہیں لیکن اب پاکستان جدید ایئر ڈیفنس کے حصول پر توجہ مرکوز کر رہا ہے اور اس شعبہ میں چین ہی پاکستان کا قابل اعتماد شراکت دار ہے۔ افواج پاکستان آپریشن ضربِ عضب اور رد الفساد کے ذریعے دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے میں مصروف عمل ہے۔ اس جنگ میں مسلح افواج کی دلیری اور شجاعت قابل دید ہے۔ بلاشبہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں پوری پاکستانی قوم پاک فوج اور مسلح سکیورٹی فورسز کو سلام پیش کرتی ہے جو ہمارے محفوظ کل کے لیے اپنا آج قربان کررہے ہیں۔ پاک فوج کی قربانیاں رنگ لارہی ہیں وہ دن دور نہیں کہ جب ملک بھرمیں امن کا سورج طلوع ہوگا پوری قوم کو پاک فوج کی بہادر قیادت پر فخر ہے۔

قارئین کرام! آئیں اب چلتے ہیں کالم کے دوسرے رخ کی طر ف جنوبی ایشیاء اور دنیا کے دیگر کئی خطوں میں پولیس ریاست کے ایک ایسے ادار ے کا نام رکھتی ہے جس کی آنکھ سے معاشرے کی کوئی بھی چیز پوشیدہ نہیں رہتی یہی وجہ ہے کہ امن و امان قائم رکھنے کے حوالے سے پولیس کا کردار فیصلہ کن اہمیت رکھتا ہے ۔تاہم اس کے لیے پولیس کوحاصل آزادی کا عمل ضروری تصور کیا جاتا ہے جو بدقسمتی سے پاکستان میں ناپید ہے۔ صوبائی دارالحکومت لاہور کی سیکیورٹی کے لئے وسائل کا رخ شاہراہوں اور سڑکوں پر سیف سٹی کیمروں کی طرف موڑ دیا گیا ہے پولیس کے جگہ جگہ ناکے موجود ہیں ایلیٹ فورس کے جوان الگ سے چیکنگ کر تے نظر آتے ہیں مشکوک افراد پکڑے جا رہے ہیں پولیس حکام کے دفاتر میں جائیں تو یوں لگتا ہے جیسے یہ کوئی ایسے مقامات ہیں جہاں مغل بادشاہوں کے خزانوں کی دیکھ بھال جاری ہو۔

آپریشن ضرب عضب کی کامیابی اور ردالفسادکے بعد بھی پولیس کی خود اعتمادی بحال ہوتی ہوئی نہیں دکھائی دے رہی کیونکہ پولیس کا ڈھانچہ جن بنیادی اصولوں پر کھڑا ھے اس میں وقت کے ساتھ بہتری لانے کی گنجائش ازحد ضروری ہے لیکن ہمارے ہاں سب نے پولیس کےلئے الہٰ دین کے چراغ اٹھا رکھے ہیں جن سے راتوں رات سب کچھ بدل دینے پر زور لگایا جا رہا ہے لیڈر شپ کسی بھی شعبہ زندگی کی ہو اس میں کچھ کر گزرنے کا حوصلہ اور ہمت کا پہلو موجود رہنا ہی اس ادارے کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔

موبائل فون کے آنے سے نوجوان نسل نے تو اپنے آپ کو بگاڑنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی لیکن اس معاملے میں ہمارے پولیس کے جوان بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہوئے پائے جاتے ہیں نئے پولیس جوان اپنی بک، تھانوں کے رجسٹرسمیت دیگر چیزوں کی جان کاری حاصل کرنے کی بجائے موبائل فونوں کی سکرینیں گھماتے ہی عوام کے مسائل سنتے دکھائی دیتے ہیں بعض دفعہ تو یوں لگتا ہے جیسے ہماری ساری پولیس صرف موبائل فون میں آکر رک گئی ہے۔پنجاب پولیس کے جوانوں کو وہ وقت یاد کرنا چاہیے جب مجھ سمیت ہر پاکستانی کا دل باغ باغ تھا کہ ہماری فوج نے سوات کے باغوں کی کس طرح دیکھ بھال اور حفاظت کی ہے کہ درخت سے نیچے گرنے والا پھل بھی اسی طرح محفوظ پڑا تھا جس طرح آئی ڈی پیز کے واپسی پر انہیں ان کے گھر محفوظ ملے تھے ۔

ہمارے ان فوجی افسروں اور جوانوں نے اس وقت وطن کے دفاع میں جو قربانیاں دیں اور عوام کے جان و مال کی جس طرح حفاظت کی اس پر ملک و قوم ہمیشہ ان پرفخر کرتے رہیں گے۔ آج سوات دوبارہ ایک پررونق وادی ہے جہاں زندگی اپنی پوری آب و تاب سے لوٹ چکی ہے یہ ایسی مثال ہے جس سے ارض وطن کے تمام صوبوں کی پولیس کو رہنمائی لینی چاہئے ۔

میں سمجھتا ہوں پولیس عوام کو دہشت گردی سے ڈرانے کی بجائے اس بات پرزور دے کہ وہ ایسے کونسے اقدامات ہو سکتے ہیں جن سے عوام کا اعتماد حاصل کیا جا سکتا ہے جب پولیس کے جوان نرم مزاجی کے ساتھ عوام دوست اصولوں کو اپناتے ہوئے عوام کے جان و مال کی حفاظت کریں گے تو عوام کا ان پر اعتماد بھی بحال اور محب وطن شہریوں کا تعاون بھی حاصل ہوگا یہ کوئی بات نہیں کہ پولیس کسی طاقتور کوپکڑے تو طاقتور کوخوش کرنے کے ردعمل میں قانون کمزور پڑ جائے یا قانونی کمزریوں سے ناجائز فائدہ حاصل کرنے کی کوششیں شروع ہوجائیں لیکن جب اسی الزام میں کوئی غریب اور لاوارث پکڑا جائے تو پریس کانفرنسیں کرکے سارے تھانے کو انعام دیا جائے قانون سب کیلئے ایک جیسا رویہ اختیار کرے گا تو اس کا احترام بڑھے گا اور یہ کام بھی سیاستدانوں کے علاوہ پولیس لیڈر شپ کا ہے لیکن جب بعض پولیس افسران ہی پارٹی بازی کے گروپ بنائیں اور چلائیں گے تو پھر نتائج تو درکنار ناکامیاں ہی مقدر رہیں گی۔

میں سمجھتا ہوں پولیس میں اوپر سے لے کر نیچے تک پروفیشنل بنیادوں پر محنت کی اشد ضرورت ہے۔گوکہ آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا اپنی پولیس فورس کا مورال بڑھانے کیلئے اگرچہ بہت محنت بھی کررہے ہیں لیکن نئے تقاضوں سے ہم آہنگ پولیس کے لئے ابھی بہت تگ و دو کی ضرورت ہے کیونکہ پولیس نظام میں بہتری لانے کیلئے ان کی سطح پر جو اقدامات آج ہوں گے وہی کل نتائج دیں گے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں