The news is by your side.

خلافت کی سرزمین آخر ہے کہاں؟

  سندھ پولیس اور دیگر حساس ادارے اس وقت ایک ایسی گتھی سلجھانے میں مصروف ہیں جو دن بہ دن گھمبیر صورتِ حال اختیار کرتی جارہی ہے،  ذرائع کے مطابق لیاقت یونیورسٹی جامشورو کی دوسرے سال کی ایک طالبہ نورین لغاری جو کچھ عرصہ پہلے پراسرار طور پرلاپتہ ہوگئی تھی، اس کے بارے میں مصدقہ اطلاعات ہیں  کہ وہ دولت اسلامیہ میں شمولیت کے لیے حیدرآباد سے سفر کرکے نامعلوم منزل تک پہنچ چکی ہے۔ اس نے بذریعہ سوشل میڈیا اپنے والدین کو آگاہ کیا کہ وہ خلافت کی سرزمین پر پہنچ چکی ہے اور اس کی تلاش ترک کردی جائے۔ کچھ لوگوں کی رائے میں یہ اغوا کا کیس ہے جسے اغواکنندگان غلط رخ دینا چاہ رہے ہیں۔

اور اگر نورین داعش کی طرف واقع ہی گئی ہے تو بھی اس نیٹ ورک کو تلاش کرکے ختم کرنا سیکیورٹی اداروں کی زمہ داری ہے اور اگر اغوا ہوئی ہے تب بھی یہ ایک سنگین معاملہ ہے۔

ملکی خفیہ اداروں کے قریبی ذرائع بتاتے ہیں کہ حالیہ کچھ عرصے میں نہ صرف صوبہ سندھ بلکہ ملک کے مختلف علاقوں سے خواتین اور کچھ تعلیمی اداروں کی زیر تعلیم طالبات دہشت گرد  تنظیم داعش میں شامل ہو چکی ہیں یا اس کے لئے کام کررہی ہیں گوکہ ان کی تعداد بہت تھوڑی ہے لیکن اس بات کو تشویش کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔لیکن میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ اس اطلاع میں کچھ مبالغہ آرائی کا عنصر بھی شامل ہوسکتا ہے۔

مجھے نورین لغاری کی پراسرار گمشدگی اور داعش میں شمولیت کی اطلاع پر دو ہزارچار کا اس سے ملتا جلتا ایک کیس یاد آرہا ہے لیکن پہلے نورین لغاری کیس پہ بات کرتے ہیں پھر پرانے کیس پر آتے ہیں۔

لمس کی  طالبہ نورین لغاری رواں سال 10 فروری کو لاپتہ ہو گئی تھی ، طالبہ اپنے انتہاپسند نظریات سوشل میڈیا پر بھی شیئر کرتی رہی ہے۔ پولیس کو اپنی تفتیش کے دوران ایک ویڈیو حاصل ہوئی ہے جس سے پتہ چلا ہے کہ اپنی گمشدگی کے دن لڑکی اکیلی لاہور کے لیے روانہ ہوئی تھی اور پھر چند روز کے بعد اس نے بذریعہ فیس بک میسنجر اپنے والدین کو آگاہ کیا کہ اس کی تلاش ترک کردی جائے کیونکہ وہ خلافت کی سرزمین پہنچ چکی ہے۔

ISIS-girl
خلافت کی سرزمین سے اس کی مراد واقعی ہی عراق و شام ہی ہے یا افغانستان یا پھر پاکستان کا کوئی علاقہ یہ تاحال طے نہیں کیا جاسکتا۔

بحیثیت کاؤنٹر ٹیررازم ایکسپرٹ میرا تجربہ کہتا ہے کہ داعش میں شمولیت کے لئے عراق و شام کا سفر کرنے والی غیرملکی خواتین سےاکثر گھروں کے لیے واپسی کا اختیار چھین لیا جاتا ہے، جس سے ان کے خاندان کے کرب میں اضافہ ہوتا ہے اور ان کی محفوظ واپسی کے امکانات بھی کم ہو جاتے ہیں چونکہ ایسی خواتین اور لڑکیوں کا کردار اس قسم کی  تنظیموں میں جنگجو کے طور پر شائد نہیں ہوتا، اس لئے وہ بیوی، ماں اور کہیں نرس کا کردار ادا کرتی  ہیں۔ بعض اوقات پڑھی لکھی لڑکیوں کو ان کی انگریزی زبان کی مہارت کی وجہ سے پروپیگنڈہ ویڈیو بنانے کے علاوہ کام کے نوجوانوں  کی بھرتی کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

نورین لغاری کے والد پروفیسر لغاری نے بھی شروع میں وہی کیا جو اس طرح کے معاملات میں پاکستانی والدین کرتے چلے آئے ہیں ، انہوں نے پولیس کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا  کہ ان کی بیٹی کے نظریات اتنے شدید انتہا پسندانہ ہرگز نہیں تھے کہ وہ دہشت گرد تنظیم داعش میں شامل ہونے کے لیے گھر چھوڑکر چلی جاتی ۔ انہوں نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ ان کی بیٹی کو یقیناً اغوا کیا گیا ہے۔ حالانکہ بتایا جارہاہے کہ نورین نے اپنے فیس بک پر اس قدر انتہاپسندانہ مواد اپ لوڈ کیا ھوا تھا کہ انتظامیہ کی جانب سے اس صفحے کو بلاک کر دیا گیا تھا۔

پولیس تفتیش سے سامنے آیا ہے کہ نورین کا موبائل فون نمبر حیدر آباد کی حدود میں بند ہونے کے بعد سے مسلسل بند چلا آرہا ہے۔

اب آتے ہیں اسی سے ملتے جلتے ایک پرانے کیس پر کیونکہ  اس مقدمے میں جو کچھ ہوا یے یہ کوئی نئی بات نہیں اور اس سے قبل بھی یہ سب کچھ ہوتا چلا آیا ہے اور اس قسم کے واقعات میں عموماً وہ خواتین اپنا گھر بارچھوڑ کر دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ جا ملتی ہیں جن کے گھر کا کوئی مرد باپ بیٹا بھائی شوہر یا رشتہ دار وغیرہ کسی ایسی تنظیم کا رکن ہو، جیسا کہ دو ہزار چار فروری میں لیاری کی دو بہنیں عارفہ اور صبا کے کیس میں ہوا تھا ، ان کے سگے ماموں گل حسن جس کا تعلق لشکرِ جھنگوی سے تھا‘ اس نے دونوں بہنوں کی انتہا پسندانہ ذہنی سازی کرکے انہیں خودکش حملے تک کے لئے تیار کرلیا تھا اور اس کام میں اسکی بیوی نے بھی اسکا پورا پورا ساتھ دیا تھا۔

جب دونوں بلوچ بہنیں گھر سے غائب ہوئیں تو ان کے والدین نے بھی پہلے تو لڑکیوں کے کسی بھی انتہا پسندانہ پس منظر سے انکار کیا اور اپنے طور پر خود ہی ان کی تلاش اور واپسی کی کوششیں کرتے رہے لیکن ناکام ہوکر مجبورا پولیس سے رابطہ کرنا پڑا ( نورین لغاری کیس میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا). اس سلسلے میں جب میری لڑکیوں کے والد سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے انکشاف کیا کہ ان کی بیٹیوں کو ان کے سگے ماموں گل حسن نے زہن سازی کرکے خود کش حملوں کے لیے تیار کیا تھا۔ اگر یہ لڑکیاں اس وقت کہیں بھی خودکش حملہ کرتیں تو پاکستان میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا حملہ ہوتا۔

گل حسن کچھ عرصہ قبل سی آئی ڈی کے ہاتھوں گرفتار ہوکر جیل جاچکا  تھا اوراس کو امام بارگاہ حیدری سندھ مدرسہ میں پینتالیس لوگوں کو ہلاک کرنے کے جرم میں عدالت سے موت کی سزا سنائی گئی تھی۔

اس انکشاف کے بعد ان بہنوں کے ممکنہ خود کش حملہ آور ہونے کا چرچا عام ہوگیا تھا اور خواتین پولیس اہلکاروں نے برقعہ پوش عورتوں کی سختی سے تلاشی لینا شروع کردی تھی۔

لڑکیوں کے والد اس وقت ایک بینک میں نائب صدر تھے ان کا کہنا تھا کہ ان کی بچیاں نیک اور پانچ وقت کی نمازی ہونے کے علاوہ سب کو نماز پڑھنے کی تلقین کرتیں رہتیں تھیں۔

ان کی بیٹیاں نانی کے گھر جانے کا کہہ کرگئیں تھیں۔ مگر وہ وہاں سے اپنے ماموں گل حسن کے گھر چلیں گئیں جہاں سے اپنی ممانی اور اس کے بچوں کے ساتھ لاپتہ ہوگئیں۔ لڑکیوں کے والد نے مزید بتایا کہ جب گل حسن کو سی آئی ڈی نے گرفتار کیا تو اسی دن سے گل حسن کی بیوی اس کی بیٹیوں کو لے کر غائب ہے۔.

دورانِ تفتیش لڑکیوں کے بھائی کے ذریعے یہ بات بھی سامنے آئی  کہ ان کے ماموں گل حسن نے گرفتاری کے بعد عدالت میں پیشی پراس کو بتایا تھا کہ اگر اس کی گرفتاری چند روز کے بعد ہوتی تو عارفہ کراچی میں ایک امام بارگاہ پر خودکش حملہ کرچکی ہوتی۔

والد کا مزید کہنا تھا اسکی بیٹیوں کی گمشدگی کے بعد جب اس نے عدالت میں پیشی کے موقعہ پر گل حسن پر غصہ کیا اور اس سے اپنی بچیوں کے بارے میں معلوم کیا تو اس نے جواب میں کہا کہ اگر اس نے بتا دیا تو اس کی تنظیم  لشکرِ جھنگوی والے اس کی بیوی اور میری بچیوں کو مار دیں گے۔

جب میں نے اس بابت مزید پوچھ گوچھ کے لئے اپنی ٹیم کے ہمراہ جیل جاکر گل حسن کو اس کی کال کوٹھڑی سے نکلوایا اور اس پر نئے سرے سے کام کیا تو اس نے کچھ لوگوں کے نام اگلے جن کو پکڑنے سے یہ معمہ حل ہوسکتا تھا لیکن بہت تاخیر ہوچکی تھی کوئی ہاتھ نہیں آیا۔

کچھ عرصے بعد لڑکیوں نے خود ہی ایک دن اپنے گھر والوں  سے رابطہ کرلیا اور بتایا کہ وہ لوگ وزیرستان  میں ہیں اور دونوں بہنوں نے لشکرِجھنگوی کے امیر آصف چھوٹو اوربلال پٹھان سے شادی کرلی ہے۔

بعد میں یہ لڑکیاں سیدو شریف کے علاقے سے قانون نافذ کرنے والے  اداروں کی چھاپہ مار کاروائی میں برامد ہوئیں، ایک کا شوہر بلال بھی اس کاروائی میں گرفتار ہوا جبکہ آصف چھوٹو وہاں پر موجود نہ ہونے کی وجہ سے نہ پکڑا جاسکا۔

نورین لغاری کیس میں بھی کچھ ایسا ہی دکھائی دے رہا ہے ، چونکہ وہ انتہا پسند سماجی ویب سائیٹس کو فالو کرتی رہی ہے، اور شاید وہیں اس کے رابطے داعش کے لیے بھرتی کرنے والے کسی ریکروٹر لڑکی یا لڑکے سے قائم ہوچکے ہوں۔ کوئی قریبی دوست رشتہ دار بھی اس کی ذہن سازی کرکے اس راہ پر ڈال سکتا ہے. پاکستان میں ہمیشہ سے بہت سے تعلیمی اداروں میں مختلف کالعدم تنظیموں کے کارندے سرگرم رہتےآئے ہیں اور وہ اساتذہ سے لے کر طالب علموں کی شکل میں بھی پائے جاتے ہیں۔

ان لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ نوجوانوں کو اپنے گروپس میں شامل کرنے کے لیے مختلف طریقوں سے ورغلا تے رہیں۔ یہ لوگ معصوم بچیوں اور بچوں کو خودساختہ جہاد کے لئے تیار کرنے کیلئے ایسی ذہن سازی کرتے ہیں کہ یہ نوخیز لوگ ان کے جال میں پھنستے چلے جاتے ہیں  اوربم باندھ کر جنت کی تلاش میں بے گناہ معصوم لوگوں کو مار کرخود بھی حرام موت مرتے ہیں۔

ہمیں اسکولوں میں اساتذہ اور کالج یونیورسٹی لیکچرارز کو اعتماد میں لے کر تربیت دینے، خاندان کو شریک کرنے کی ضرورت ہے جو ان کے رویے میں تبدیلی کا نوٹس لے سکتے ہیں کیونکہ وہ روزانہ انتہا پسندی کا شکار ہونے والوں کا مشاہدہ کرتے ہیں اور مداخلت کرکے انہیں شدت پسندی کی دلدل میں دھنسنے سے روک سکتے ہیں۔

دوسری اہم بات کہ اگر تعلیمی  اداروں کے حالات ایسے ہی مخدوش  رہے تو خدشہ ہے والدین اپنی بیٹیوں کو وہاں بھیجنے سے ڈرنے لگیں گے جس سے لڑکیوں کی تعلیم کا حصول بہت ہی مشکل ہوجائے گا۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں