صدر پاکستان ممنون حسین نے حالیہ یومِ پاکستان کے موقعہ پر’سی آئی ڈی سندھ کے پولیس آفیسر راجہ عمرخطاب کو سانحہ صفورہ کے ملزمان کا کھوج لگا کر گرفتار کرنے کی کارروائی کے دوران بہادری کا مظاہرہ کرنے پر ملک کا سب سے بڑا اعزاز ’تمغۂ شجاعت‘ عطا کیا۔ اب تک بہت ہی کم پولیس افسران کو یہ تمغہ دیا گیا ہے۔
سانحہ صفورہ میں دہشت گرد تنظیم القائدہ کے مقامی جنگجوؤں نے اسمعیلی برادری کی بس پر فائرنگ کرکے پینتالیس سے زائد بے گناہ افراد کو موت کے گھاٹ اتاردیا تھا جو کہ پوری دنیا میں پاکستان کے لیے بہت بڑی بدنامی کا باعث بنا۔ ایسے میں سی آئی ڈی سندھ کے افسر راجہ عمرخطاب نے غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ کارنامہ انجام دیا جس کی مثال ملنا بہت مشکل ہے۔ صرف چند دنوں کے اندر اندر اتنے بڑے کیس کےملزمان کو ان کی پوری ٹیم سمیت گرفتار کرنا یقیناً سنہرے حروفوں میں لکھے جانے والا کارنامہ ہے اور انہوں نے’’بہادری کی بہترین مثال قائم کرتے ہوئے غیر معمولی شجاعت اور اپنی جان پر کھیل کر دہشت گردوں کے بل میں ہاتھ ڈالا‘‘، اور اِس بات کو ثابت کیا کہ وہ اِس تمغے کے صحیح حقدار ہیں۔ حوصلہ راجہ عمر کی وہ صفت ہے جو بے پناہ خوف کی موجودگی میں بھی اطمینان اور استحکام کے ساتھ مخالفتوں اور خطرات کا سامنا کرنا سکھاتی ہے۔
میرا اور راجہ عمر خطاب کا تعلق بہت پرانا ہے ۔ دس مارچ انیس سو نوے ہم دونوں کی پولیس میں بھرتی کی تاریخ ہے؛ وہ ہم دونوں کا محکمہ پولیس میں بالکل پہلا روز تھا۔ بیج فیلو ہونے کے سبب ہم دونوں ایک دوسرے کو جتنی اچھی طرح سمجھتے ہیں دوسرا کوئی شائد ہی سمجھتا ہو. راجہ عمر شروع سے ہی کم گو لیکن اکھڑمزاج واقع ہوا ہے. دورانِ تربیت ہی ایک دوسرے کی طبعیت ک اندازہ ہوچکا تھا۔ راجہ دوستوں اور تمام لوگوں کے ساتھ ہمیشہ بہت عزت سے پیش آتا تھا اور جواب میں ویسی ہی عزت کی توقع بھی رکھتا تھا۔ اگر کسی کی بات ناگوار گزرتی تو بلا کسی تؤقف اس کے منہ پہ ہی کہہ دیتا. ہم دونوں شروع سے ہی کچھ کرنے کی جستجو اور عزم لے کر محکمہ پولیس میں آئے تھے اور اس میدان میں اللہ پاک نے ہمیں جو کامیابیاں عطا کیں وہ بھی سب کے سامنے ہیں ۔ ہماری پروفیشنل مقابلے بازی ہمیشہ سے رہی ہے اور اس سے ہم دونوں کو پیشہ ورانہ طور پر بہت فائدہ پہنچا اورایک دوسرےسے آگے نکلنے کے چکر میں ہم نے موقع کی مناسبت سے مسلسل بہت ہی بڑے بڑے کام بھی کئے۔
کئی سینئر افسران کی حکمتِ عملی ھوتی ہے کہ وہ کام کرنے والے افسران میں مقابلے کی زبردست فضا قائم کرتے ہیں جس سے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے چکر میں بعض اوقات تلخی اور اختلافات ھی جنم لیتے ہیں اور ہمارے درمیان بھی پورے کیرئر میں ہمیشہ سے یہی صورتِ حال رہی ہے۔ اس مقابلہ بازی سے ہمیشہ ہی ہم دونوں کو اچھے کام کی تحریک ملتی تھی. ہمیں بہت جلدی سمجھ آچکی تھی کہ ’’زندگی سے لطف اندوز ہونے کا واحد طریقہ بے خوفی اور شکست و بربادی کی پروا نہ کرنا ہے، کیونکہ شکست اور بربادی ان لوگوں سے ہمیشہ دور رہتے ہیں جو بے خوف ہوتے ہیں۔‘‘ اگر راجہ نے لشکر جھنگوی کے نہایت ہی خطرناک دہشت گرد لال محمد لالو کو پولیس مقابلے میں مارگرایا تو میں نے اس سے آگے نکلنے کے چکر میں امریکی صحافی ڈینئل پرل کے اغوأ اور قتل میں شامل ملزمان پکڑ کر اس کی لاش برامد کرلی اور اس عالمی سطح کے کیس کا چیپٹر کلوز کیا۔
اگر راجہ عمر خطاب نے کراچی کی تاریخ کا نہایت ہی مشکل کیس ”سیریل کلنگ ”کے ملزمان گرفتار کئے تو میں نےاگلے ہی دن لیاری گینگ وار کے ڈان ارشد پپو کو پکڑ کر اپنی واہ واہ کروائی. اگر اس کو کراچی میں لشکرِ جھنگوی اور طالبان جیسی خطرناک دہشت گرد تنظیم کے نیٹ ورک کا قلع قمہ کرنے پر تمغئہ شجاعت سے نوازا گیا تو میں بھی کہاں پیچھے رہنے والا تھا۔ مجھے بھی سابق صدر پرویز مشرف پر خودکش حملے کے ملزمان اور امریکی قونصلیٹ کراچی پر خود کش حملے کے ملزمان پکڑنے پر تمغئہ شجاعت دیاگیا۔
اگرچہ یہ سلسلہ کامران عاطف سے لے کرحافظ قاسم رشید جیسے انتہائی خطرناک دہشت گردوں کی گرفتاری کے بعد بلکہ جب تک میں پاکستان میں اپنے فرائض انجام دیتا رہا تب تک چلتا رہا. ہمارے درمیان اس مقابلے بازی میں بعض اوقات کبھی اپنے مخبروں کو بچانے کے مسئلےپر اور بعض اوقات ایک ہی کیس پر کام کرنے کے مسئلے پر ناراضگیاں بھی ہوتی رہیں لیکن ایک دوسرے کے احترام اورذاتی تعلق پر کبھی آنچ نہیں آنے دی ویسے بھی مقصد تو برائی کوختم کرنا تھا۔
جب میں دہشتگردوں کی جانب سے کئے گئے ایک بم حملے میں شدید زخمی ہوا تو اسپتال میں آنکھ کھلنے پر سب سے پہلے راجہ عمر کو اپنے سرھانے کھڑے پایا ۔ اسی طرح جب راجہ عمر دہشت گرد تنظیم کے بم حملے میں شدید زخمی ہوا تو وہ ابھی اسپتال ہی میں تھا اورمیں اس پر حملے کے ملزمان کو گرفتار کرکے قانون کے شکنجے میں جکڑچکا تھا۔ ایک مرتبہ جب میں نشتر پارک خودکش حملہ کے مرکزی ملزم رحیم اللہ کو گرفتار کرکے اس کی نشاندہی پر اس کے باقی ساتھیوں کو پکڑنے کے لیے گیا اور وہاں پرچھاپے کے دوران جب ہم لوگ دہشت گردوں کے نرغے میں آگئے تو یہ راجہ عمر ہی تھا جو اس وقت لیاری میں ایس پی تعینات تھا اور اپنے اوپر ہونے والے حملے کے بعد ابھی پوری طرح صحت یاب بھی نہ ہو پایا تھا۔ سب سے پہلے میری مددکو پہنچا اور پھر ہم نے مل کر تمام دہشت گردوں کو پولیس مقابلے میں ہلاک کرکے شہر سے ایک خطرناک نیٹ ورک کا خاتمہ کیا. اس کاروائی پر اس وقت کے صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے ہم لوگوں کو ایک کروڑ روپیہ انعام سے بھی نوازا تھا۔ اسی طرح جب میرے آفس سی آئی ڈی سول لائنز پر دہشت گرد تنظیم القائدہ کے خودکش حملے میں میرے بائیس افسر وجوان شہید ہوئے تو اس وقت بھی سب سے پہلے راجہ عمرخطاب اور چوہدری اسلم شہید ہی میری مدد کو پہنچے۔
اپنے پورے کیرئیر میں راجہ عمر کی کامیابیاں نہایت ہی قابل رشک رہی ہیں اور اب تک شائد ہی کوئی ایسا میڈل ہو جو اس کی دسترس سے دور ہو اور یہ اس کی محنت اور شاندار کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے. اکثر سینئر افسران اور ساتھی پولیس افسران اس کی تنک مزاجی اور اکھڑ پن کے شاکی نظرآتے ہیں لیکن جو لوگ راجہ عمر کو قریب سے جانتے ہیں وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ اس کی طبیعت ہی کچھ ایسی ہے کہ اگر اسے کوئی بات غلط یا اس کے اصولوں کے خلاف محسوس ہو تو بلا کسی لحاظ اور خوف کے اپنے سے کہییں زیادہ سینئر افسران سے اختلاف کربیٹھتاہے اور پھر اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے اچھے کام سے اپنے اختلاف رائے کو صیح ثابت کرے۔ راجہ عمر نے ثابت کیا ہے کہ ایک پولیس آفیسر کو دلیرانہ مگر سوچے سمجھے خطرے مول لینے پر ہمیشہ آمادہ رہنا چاہئے اور اس کے لئے ضروری قیمت چکانے کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے۔ وہ فیصلے کی گھڑی میں گھبراتا نہیں، بلکہ پہل کاریسے کام لیتے ہوئے آگے بڑھ کر اس کا استقبال کرتا ہے۔
راجہ عمر میں وہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں جو کہ ایک آئیڈیل پولیس آفیسر یا ایک انسدادِ دہشت گردی کے ماہر میں ہونی چاہیے۔ وہ ایک عالی ہم ، بلند حوصلے کا مالک پولیس آفیسر ہونے کے علاوہ پیدائشی طور پر قیادت کرنے کی صلاحیتوں سے مالا مال اورہرکام میں آگے رہ کر دوسروں کو ترغیب دلانے والا لیڈر ہے۔
راجہ عمر کا اپنے ماتحتتوں کے ساتھ طرزِ عمل بہت شاندار رہتا ہے۔ دوسروں کے سامنے کبھی اپنے کارکنوں کو ڈانٹنے ڈپٹنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ اپنی آواز اور حرکات و سکنات کو قابو میں رکھتے ہوئے بعض اوقات تھوڑا سا غصہ کا اظہار ضرور کردیتا ہے۔جس طرح ایک اچھے کمانڈر کو معلوم ہونا چاہئے کہ کب اسے ظاہرداری سے کام لینا ہونا ، کب سخت گیری سے اور کس وقت بے تکلفی سے، راجہ بھی اس فن سے اچھی طرح وقف ہے۔ اس کی بروقت فیصلے کرنے کی اہلیت بہت ہی زبردست ہے ۔ اسے اچھی طرح پتہ ہے کہ بروقت کیا ہوا کم بہتر فیصلہ، تاخیر سے کئے ہوئے زیادہ اچھے فیصلے سے کہیں بہتر ہوتا ہے۔ خطرات مول لینے کو تو جیسے اس نے بچوں کا کھیل سمجھ لیا ہے۔ یہ اپنے مشن کو کامیاب دیکھنے کیلئےسب کچھ داؤ پر لگا دینے میں زرا دیر نہیں لگاتا۔
اس کی حوصلہ مندی اور درست وقت پر فیصلہ کرنے کا ارادہ اور اہلیت اسے دوسرے پولیس افسروں سے ممتاز کرتی ہے۔
میں نے راجہ کو جتنا بہترین تفتیشی افسر پایا ہے میں سمجھتا کہ اس کے پائے کا کوئی بھی دوسرا افسر اس وقت پورے ملک میں نہیں ہوگا. اگر دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوجائے تو موقع کا جائزہ لینے ک بعد راجہ عمر خطاب کے کہے ہوئے الفاظ ہمیشہ مستند ثابت ہوئے ہیں اورجو اس کی پہلی رائے ہوتی ہے میں نے کبھی اس کو بعد میں بھی غلط ہوتے نہیں دیکھا. اس کی دلیری اور بہادری کا خود کئی دفعہ مظاھرہ دیکھ چکا ہوں لیکن میں سمجھتا ہوں یہ بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ بہت ہی زیرک اور سمجھدار پولیس افسر ہے جو موقعہ کی مناسبت سے اپنی حکمت عملی ڈھالتا رہتا ہے اور یہ چیز بھی اس کی کامیابیوں میں بہت اہم رہی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف کام کرنا کسی عام پولیس افسر کے بس کی بات نہیں اس کے لیئے اپنے کام سے عشق، لگن اور جنون چاہیئے ہوتا ہے۔