The news is by your side.

سینکڑوں بے گناہوں کا قاتل عثمان کردکیسے پکڑا گیا

یہ سنہ 2006  کی بات ہے، لشکر جھنگوی کے خلاف ہمارا ایک آپریشن چل رہا تھا اور ابھی صرف انفارمیشن جمع کرنے سے لے کر نگرانی کرنے تک کا مرحلہ چل جاری تھا کیونکہ ہمارے سامنے صرف ایک ایسا شخص تھا جو براہ راست کسی قسم کی دھشتگردی میں ملوث نہیں تھا لیکن اس کے رابطے سب سے تھے، بظاھر بھینس کالونی کے قریب ایک مسجد میں قاری تھا ( کچھ قانونی اور آفیشل وجوہات کی بناء پر کچھ جگہوں پرنام اور مقامات تبدیل کروں گا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ سب کچھ بتانا بھی مناسب نہیں) لشکر جھنگوی کے ایک گروپ کے لئے فنڈنگ کا بندوبست اس کے ذمہ تھا۔

کراچی بلکہ پورے پاکستان کے مختلف جہادی سیٹ اپ کے لوگ اس کے رابطے میں تھے ۔ میرے پاس اسک ے بارے میں اطلاعات تھیں کہ لشکر جھنگوی کے مطلوب دہشتگرد اس کے رابطے میں ہیں اور یہ ان کے لئے لاجسٹک سپورٹ مہیا کرنے سے لے کر آپس میں رابطے کروانے کا کام کرتا ہے۔ میرے لئے اس کے خلاف یہی بہت بڑی بات تھی ، جس کی وجہ سے میں نے اس کے اردگرد اپنے مخبروں کا جال بننا شروع کردیا ۔ یہ قاری صاحب دیکھنے میں بہت ھی سیدھے سادے اور مسکین صورت نظر آتے تھے اور کسی طور پر گمان نہیں ہوتا تھا کہ موصوف کا تعلق کسی خطرناک گروپ سے ہے۔

یہ سلسلہ تقریباً دو ڈھائی مہینے سے چل رھا تھا اور اب تک میرے کام میں اچھی خاصی پیش رفت ہوچکی تھی، بہت مفید معلومات کا ڈھیر میرے سامنے تھا، قاری صاحب کے نیٹ ورک میں میرا ایک بہت ہی زبردست مخبر اپنی جگہ بنا چکا تھا اوراس کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے اس پرکوئی مخبرھونے کا شک بھی نہیں کرسکتا تھا، وہ ایک مذہبی جماعت کا عہدیدار ہونے کے علاوہ فرقہ ورانہ قتل کی دووارداتوں میں ملوث ہونے کے الزام میں جیل بھی کاٹ چکا تھا اور اب ضمانت پر رہا ھونے کے بعد دوبارہ سے متحرک ہوچکا تھا، یہ الگ بات ہے کہ دورانِ اسیری میں اس سے متعدد ملاقاتیں کرکے اسے اس بات پرقائل کرچکا تھا کہ جس راہ پر وہ چل رہا ھے وہ صحیح نہیں ہے اوراسے سب کام چھوڑ کراب قانون کی مدد کرنی چاہیے۔

اس کے گھریلو حالات بھی بہت دگرگوں تھے، اس کی ماں کو کینسر تھا۔ باپ پہلے ہی فوت ہوچکا تھا ایک چھوٹی بہن تھی جس کی شادی کی عمر تھی لیکن غربت کی وجہ سے اس کا کوئی رشتہ بھی نہیں آتا تھا اوپر سے یہ اپنی صحبت کی وجہ سے مذہبی انتہاپسندی کی طرف چلاگیا اورآخرکار دو فرقہ وارانہ قتل کے الزامات میں پکڑا گیا اورجیل جا پہنچا ۔ اب زیادہ اس تفصیل میں نہیں جاتے کہ کس طرح میں نے اسے اپنے لئے کام کرنے پرآمادہ کیااور اس کی بہن کی شادی کا بندوبست بھی میں نے ہی کیا ( سمجھدار اور تجربہ کار پولیس افسران ہمیشہ کہتے تھے کہ اپنے مخبر کو اپنی اولاد کی طرح سمجھو گے تو کامیاب ہوگے اوران کی یہ نصیحت میں نے گرہ سے باندھ لی تھی)۔

اب آتے ہیں اصل موضوع پر ، اپنے مخبر کی ہر بات پر بھی مکمل یقین نہیں کرنا چاہیے، اس کی ہربات سنو اور اپنے کام کی بات اس میں سے نکال لو، یہی میرا بھی اصول تھا۔ کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا ہے کہ ہمارا مخبر ’ڈبل‘ چل رہا ہوتاہے یعنی پولیس کو بہت ہی محدود اور مختصر اطلاعات دینے کے ساتھ ساتھ جرائم پیشہ گروپ کو بھی پولیس کی حکمتِ عملی سے آگاہ کرتارہتا ہے۔ کئی مخبر تو پولیس والوں کو ہی ٹریپ کروادیتے ھیں (کسی وقت اپنے ساتھ پیش آئے اس قسم کے واقعات بھی آپ کے لئے تحریر کروں گا )۔ مخبروں پر بھی نظر رکھی جاتی ہے اور اس کا بھی ایک طریقہ کار ہے لیکن سب چیزیں اب یہاں تو بتانے کی بھی نہیں ہیں کسی اوروقت پہ رکھتے ھیں۔

ایک دن مخبر نے اطلاع دی کہ قاری صاحب کے پاس ایک مہمان آیا ہوا ہے جس کو انہوں نے اپنے حجرے میں ٹھہرایا ہواھے ، شکل صورت سے جنوبی پنجاب کا رہائشی لگتاھے عمر تقریباً چالیس سال ھوگی ۔ قاری صاحب نے میرے مخبر کو اس کے بارےمیں کچھ خاص نہیں بتایا تھا صرف اتنا ہی کہا تھا کہ یہ ایک مذھبی جماعت کے بڑے ھیں اور تنظیم سازی کیلئے کراچی آئے ہوئے ہیں لیکن لشکر جھنگوی کے کسی گروپ سے ان کا کوئی تعلق نہیں اوراس بات کو بھی صرف اپنے تک ہی رکھنے کی ہدایت بھی کی۔ اس خبر سے میرے کان کھڑے ہوگئے۔ مخبر کے علاوہ ہم لوگ ٹیکنیکلی بھی نظر رکھے ہوئے تھے لیکن وہاں سے بھی اس مہمان کے آنے کی کوئی سن گن نہیں ملی تھی۔ اب سارے کام چھوڑ کر میری پوری توجہ اسی آپریشن پر مرکوز ہوچکی تھی۔ آخرکار جس غلطی کا ہم سی آئی ڈی والوں کو انتظار ہوتا ہے وہ قاری صاحب نے کردی اور انہوں نے صادق آباد سے کی گئی ایک فون کال پربات کرتے ہوئے کسی شخص کو بتایا کہ حاجی صاحب میرے پاس ٹہرے ھوئے ہیں اور ان کا ایک دوست بھی کل تک پہنچنے والا ھے جس سے آپکی ملاقات کروانی ہے، اس کے بعد قاری نے اپنی مسجد کا ایڈرس نوٹ کروایا اور کراچی جلد از جلد پہچنے کی تاکید بھی کی۔

میرے لئے یہ بہت زبردست اطلاع تھی اور ساتھ ھی ساتھ حیرت بھی ہورہی تھی کہ ایک خطرناک تنظیم کے لوگ فون پر اتنی بے احتیاطی کررہے ہیں جو کہ عام طور پرہوتا نہیں لیکن اللہ کی ذات بھی بہت بڑی ہے اورنیکی اوربدی ک جنگ میں پلڑا ہمیشہ نیکی کا بھاری ہوتا ھے اور اگر اللہ ان بے گناہوں کے خون کی ہولی کھیلنے والوں سے غلطیاں نہ کروائے تو یہ پکڑے کیسےجائیں گے ۔ مخبر تو پہلے ہی قاری صاحب کے ساتھ چپکا ہو تھا اور ٹیکنیکلی بھی نظر رکھی ہوئی تھی ۔ میں نے اپنی ٹیمیں تشکیل دیں اور اس علاقے کے آس پاس اپنی جگہیں سنبھال لیں۔ جس شخص نے صادق آباد سے کال کی تھی اس کا فون اس کال کے بعد سے مسلسل بند آرہا تھا ۔ دوسرے دن شام کو میں اسی علاقے میں ایک قریبی فیکٹری میں موجود تھا اور انتظار کررہاتھا کہ جیسے ہی تمام لوگ قاری کے حجرے پر جمع ہوں گے ہم تصدیق کے بعد چھاپہ ماردیں گے ۔ لیکن اسی دوران ایک اور اچھی خبر ملی جس سے مجھے اس آپریشن میں بہت بڑی کامیابی ہوتی نظر آنے لگی ، ہمارے آپریشن میں ٹیکنکلی مدد فراہم کرنے والے خفیہ ادارے نے انکشاف کیا کہ صادق آباد سے کال کرنے والا شخص لشکرجھنگوی پنجاب کا ایک انتہائی مطلوب دہشت گرد ہے جس کی گرفتاری پردس لاکھ روپیہ مقرر تھا اور وہ پنجاب بھر کے مختلف تھانوں میں امام بارگاہوں پر حملوں کے علاوہ سی آئی ڈی پنجاب کے بہترین تفتیشی افسر کے قتل میں بھی ملوث تھا ( اس کا پورا نام نہیں بتاتا صرف اس کی عرفیت ’’چھوٹا‘‘ بتادیتا ہوں ، ان معاملات سے جن لوگوں کا تعلق ہے وہ اچھی طرح سمجھ سکتے ھیں کہ میں کس کی بات کررہا ہوں )۔

شام کے چار بج چکے تھے اور اب کسی بھی وقت میرے مخبر کی کال آسکتی تھی جبکہ ہمارے کچھ لوگ سادہ کپڑوں میں منصوبے کے مطابق نمازی کے طور پہ عصر کی نماز سے قبل ہی مسجد پر پہنچ جاتے ۔ صادق آباد سے ایک دن پہلے صبح کال کی گئی تھی اور دوسرا دن تھا شام ہونے کو تھی۔ ان کی ملاقات ویسے بھی عصر کی نماز کے بعد طے ہوئی تھی۔

اچانک ہمارے ٹیکنیکل سیکشن سے ایک کال آئی اورآپریٹر نے بتایا کہ صادق آباد والا نمبر کھل گیا ھے اور اس سے بات کرنے والے نے قاری کو کال کرکے اطلاع دی ہے کہ عصر کی نماز سے پہلے پہنچ جاؤں گا ۔ اب ہم لوگ بالکل تیار تھے کہ دس منٹ بعد ہی ایک اور کال آئی جس میں ہمیں بتایا گیا کہ ان کا پلان تبدیل ہوگیا ھے اور قاری نے صادق آباد والے شخص کو مسجد کے بجائے کسی ’’اچانک ہوٹل‘‘ پر آنے کے لئے کہا ہے جہاں کوئی دوسرا مہمان بھی ہوگا جہاں سے قاری ان کو لیکر کسی اورجگہ پر جائیگا۔ میں نے کبھی ’’اچانک ہوٹل‘‘ کا نام ہی نہیں سنا تھا اب کیا کریں۔ میں نے اپنی ٹیم کے لوگوں سے پوچھا کسی کو اچانک ہوٹل کا پتہ ہے تو ایک اے ایس آئی جو اسی علاقے کا رہائشی تھا اس نے بتایا کہ قائد آباد سے تھوڑا آگے روڈ پر اس نام سے ایک پٹھان کا ہوٹل ہے توصحیح۔ اب پتہ نہیں وہی ہے یا کوئی اور ہے۔ قصہ مختصر کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں، پہلے اپنے ساتھ چارلوگوں کو لیا اورباقی ٹیم کو وہیں رہنے دیا، اتنی دیرمیں مخبر نے کال کرکے بتایا کہ قاری صاحب نے اس کی موٹر سائیکل لی ہے اور اسے مہمان کے پاس چھوڑ کر تھوڑی دیر میں آنے کا کہہ کرکہیں روانہ ہوئے ہیں۔ اسی دوران ٹیکنیکلی بھی کنفرم ھوگیا کہ قاری اور صادق آباد والا شخص چھوٹا دونوں کی لوکیشن ’’اچانک ہوٹل‘‘ کی آ رہی ہے۔

ہم لوگ روڈ کے پار ایک پبلک کال آفس میں بیٹھے ہوئے اچانک ہوٹل پر نظر رکھے ہوئے تھے کہ اچانک قاری نظرآیا وہ ایک نوجوان جس کی عمرتقریبآ پچیس چھبیس سال ہوگی اس کے ساتھ بڑے تپاک سے مل رھا تھا ، میں اس نوجوان کو پہچان چکا تھا کیونکہ وہ بالکل ویسا ہی نظر آتا تھا جیسا کہ انتہائی مطلوب افراد کی ریڈ بک میں اس کی تصویر تھی ۔ وہ دونوں اچانک ہوٹل کے بجائے اس کے برابر میں واقع جوس والے کی دوکان میں جاکر بیٹھ گئے ابھی ہم لوگ گاڑی سے اتر کر روڈ کراس ہی کررہے تھے کہ دیکھا کہ قاری اور چھوٹا جوس والے کی دوکان کے اندر پہلے سے موجود کسی شص سے مل رھے تھے جو کہ میرے لئے حیران کن بات تھی بہرحال وقت ضائع کئے بغیر ہم نے کارروائی کرتے ہوئے دوکان کے اندر ہی ان پر ہاتھ ڈال دیا۔ وہ تین تھے جبکہ ہم تعداد میں ان سے زیادہ تھے اس لئے معمولی مزاحمت کے بعد ان تینوں کو قابو کرلیا ایک ٹیم مسجد کےقریب تھی اس نے قاری کے حجرے سے اس مہمان حاجی کو دھرلیا ، اب ہم نے ان کو لے کر اس علاقے سے قریب میں ہی قائم اپنے ایک خفیہ سیل میں لے گئے اور اینٹروگیشن شروع کردی ، چھوٹا کی پوری ہسٹری ہمیں پہلے سے ہی پتہ تھی ہماری تھوڑی سی محنت کے بعدہی اس نے اعتراف کرلیا کہ وہ پنجاب میں سو سے زیادہ افراد کے قتل کی فرقہ ورانہ وارداتوں میں ملوث ہے اوراس کی گرفتاری پرخطیر رقم بھی مقرر ہے۔ حاجی صاحب بھی پرانے پاپی نکلے انہوں نے بھی زیادہ دیر نہیں لگائی ان پر بھی دو امام بارگاہوں پرفائرنگ کرکے سترہ افراد کو ہلاک کرنے کے الزامات تھے اور ان پر بھی پانچ لاکھ کا انعام مقرر تھا۔

اب تیسرے شخص عبدالسلام کی انٹروگیشن کررہے تھے لیکن اس کا کہنا تھا کہ وہ کوئٹہ کا وکیل ہے اس کا ان افراد سےکوئی تعلق نہیں ہمیں کوئی مغالطہ ہوا ہے، دیکھنے میں بھی اچھا خاصا معززآ دمی دکھائی دیتا تھا۔ کافی دیر لگائی لیکن کوئی بات سامنے نہیں آرہی تھی جبکہ قاری، چھوٹا اورحاجی بھی اس کو پہچاننے بلکہ اپنے ساتھ تعلق سے بھی انکاری تھے۔ یہاں میں سمجھتا ہوں کہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہم نے کون کون سے تفتیشی حربے آزمائے ہوں گے ، میں نے چونکہ خود اپنی آنکھوں سے انہیں سلام دعا کرتے اور اکھٹے بیٹھے ہوئے پکڑا تھا اس لئےمجھے ان کی بات پر بالکل بھی یقین نہیں تھا۔

میں نے چھوٹے کو دوبارہ نکالا کیونکہ وہ انٹروگیشن میں سب سے ہلکا لگا تھا حالانکہ اس کی دہشت اور نام سے پورا پاکستان واقف تھا ۔ اس سے اب اسکے بجائے اس وکیل کے بارے میں پوچھ گچھ شروع کردی اور تھوڑی دیر بعد ہی اس نے ہتھیار ڈال دیئے اور اس نے جو انکشاف کیا تو ہم سب جوش اورخوشی کے مارے اپنی کرسیوں سے اچھل پڑے، چھوٹا نے بتایا کہ کوئٹہ والے وکیل کا نام عبدالسلام نہیں بلکہ وہ لشکرجھنگوی بلوچستان کا امیرعثمان کرد ھے جو کہ کوئٹہ اور بلوچستان کے مختلف علاقوں خودکش حملوں ، بم دھماکوں ، بسوں سے اتار کر سینکڑوں شیعہ زائرین کو مارنے کا ذمہ دار تھا۔ درجنوں پولیس اہلکاروں کی شہادت میں ملوث اس خطرناک دہشت گرد کی گرفتاری پرحکومتِ بلوچستان نے تیس لاکھ روپے کا انعام مقرر کیا ہوا تھا۔

 دہشت کی علامت سمجھا جانے والا عثمان کرد
دہشت کی علامت سمجھا جانے والا عثمان کرد

جب عثمان کرد کو دوبارہ سے پوچھ گچھ کے لئے نکالا تو اس نے وہی ڈرامہ بازی دوبارہ دکھانی چاھی لیکن ہماری انٹروگیشن اب مختلف انداز سے ہورہی تھی اوراس کو اندازہ ہوگیا کہ اس کی اصلیت کا پتہ چل چکاھے اس لئے عزت اسی میں ہے کہ تعاون کیا جائے۔ اب اس نے فرفربولنا شروع کردیا تھا۔

عثمان کرد اپنے اصل نام کے علاوہ بھی مختلف عرفیت سیف اللہ ، عبدالسلام اور عاصم کرد استعمال کرتا تھا۔ پکڑے جانے کے وقت بھی عبدالسلام کے نام سے شناختی کارڈ برآمد ہوا تھا جو کہ اصلی دکھائی دیتا تھا لیکن جعلی تھا۔ بلوچستان میں مذھبی پارٹیوں کے اثر و رسوخ کی وجہ سے اس کا رحجان بھی بچپن سے ہی مذھب کی طرف ہوچکا تھا۔ طالبان دورِحکومت میں تربیت کی غرض سے کابل اورخوست کے خالد بن ولید معاسکر میں ایک سال گذار چکا تھا۔ اس کی تربیت کا بندوبست ڈیرہ مراد جمالی کے حبیب اللہ عرف منظور نے کیا تھا۔

دوران تربیت ہی اس کی ذہن سازی ہوچکی تھی اور مختلف اساتذہ اور ساتھیوں سے قریبی تعلق بھی استوار ہوچکے تھے۔ واپسی پر کوئٹہ کے داؤد بادینی کے ڈرائیور کے طور پرکام بھی مل گیا جس کا تعلق مذہبی تنظیم سے تھا۔ القائدہ کا ہائی پروفائل دہشت گرد اورنائن الیون کا ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد اس کا قریبی رشتے دارجبکہ رمزی یوسف اس کا سالا بتایا جاتا تھا۔ اسی ماحول میں عثمان کرد کی مزید زہن سازی ہوتی رہی۔ آگے چل کرعثمان کرد نے داؤد بادینی کے ساتھ ملکر لشکر جھنگوی بلوچستان کی بنیاد رکھی اور پھر اس گروپ نے تاریخ کی بدترین خونریزی کا آغاز باب رقم کیا۔

کوئٹہ میں عاشورہ کے جلوس پر خودکش حملے سے لے کر زائرین کی بسوں پر اندھادھند فائرنگ کرکے درجنوں افراد کی موت ، قانون نافذ کرنے والےادارے کے افسران و اھلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ اور ہرشعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے معصوم لوگوں کا قتل عام کرنا اس گروپ کے جرائم کی طویل فہرست میں شامل ہے۔ عثمان کرد نے القائدہ کے علاوہ لشکرجھنگوی پاکستان کے دیگر گروپوں کے ساتھ بھی تعلقات مستحکم بنالئے تھے ۔ اس کی دہشت کا عالم یہ تھا کہ بلوچستان کے بہت سے سیاستدان اور وزیر اس کی ایک کال پر چپ چاپ لاکھوں روپیہ بھتہ دینے کے لئے تیار رہتےتھے۔

دورانِ تفتیش اس نے بتایا کہ وہ کوئٹہ میں اکثر کھلے عام پھرتا رھتا تھا اورجو پولیس والے اس کو پہچانتے بھی تھے وہ اس کے خوف سے دوسری طرف منہ کرکے نکل جاتے تھے۔ اس نے مزید بتایا کہ وہ لوگ لشکرجھنگوی کو نئے سرے سے منظم کرنا چاہ رہے  تھے اور اسی مقصد کے لئے اسے حاجی نے کراچی بلایا تھا جبکہ ”چھوٹا ”کو قاری صاحب نے بھی عثمان سے متعارف کروانے کیلئے ھی بلایا تھا۔ بدنام دھشتگرد نعیم بخاری اور رضوان عرف آصف چھوٹو بھی ان سے رابطے میں تھے ۔

قانونی کاروائی کے بعد ایک جے آئی ٹی تشکیل دی گئی جس کے روبرو ان لوگوں نے مزید انکشافات بھی کئے ۔ ایک دلچسپ بات آپ لوگوں سے بھی شئیر کرتا ہوں۔ بلوچستان کے کیسوں کی تفتیش اور عثمان کی گرفتاری کے لئے کوئٹہ سےایک ایس پی اورچار ڈی ایس پی صاحبان پر مشتمل ٹیم بھی کراچی پہنچ چکی تھی۔ دورانِ تفتیش ایک ڈی ایس پی کی آواز سن کر عثمان نے اس کا نام پکارا اور کہا کہ شاہ حسین صاحب آپ بھی تشریف لائے ہیں کیا؟۔ اس وقت عثمان کی آنکھوں پر پٹی بندھی ھوئی تھی ، وہ ڈی ایس پی اس لمحے چائے کا گھونٹ لگارہاتھا، اپنا نام سن کر اس کےہاتھ سے چائے کا کپ چھوٹ گیا اور چہرہ زردپڑ گیا۔ میرے پوچھنے پر عثمان نے بتایا کہ ڈی ایس پی صاحب ھماری ھٹ لسٹ پر تھے اور ہم انہیں ان کے نام کی وجہ سے اپنے مخالف فرقے کا سمجھ کر انکی ریکی کررھے تھے ۔ یہ اپنے زیر تعمیر مکان کا کام دیکھنے روز جاتے تھے اور ہم نے وہیں پر ان کا کام اتارنا تھا کہ مجھے میری ریکی کرنے والی ٹیم نے بتایا کہ ڈپٹی صاحب تو اکثر نماز کا وقت ہونے پر ہمارے مسلک کی مسجد میں نماز پڑھنے جاتے ہیں ، جس پرمیں نے مزید تصدیق کیلئے خود تین چار مرتبہ اسی مسجد میں صاحب کے ساتھ نماز بھی ادا کی اور دومرتبہ سلام دعا بھی کی ( اسی وجہ سے ان کی آواز بھی پہچانتا تھا) جب اچھی طرح یقین ہوگیا کہ ان کا تعلق ہمارے مخالف فرقے سے نہیں تو پھر ان کی جان بخشی ہوئی ورنہ کام بالکل تیار تھا۔

اسی طرح مجھے یاد ہے کہ وہ مسکراتے ہوئے کہتا تھا کہ آپ سی آئی ڈی والوں نے مجھے پکڑ تو لیا ہے لیکن میرے سارے مقدمات تو بلوچستان کے ہیں جب مجھے کوئٹہ بھیجو گے تو مجھے جیل کے اندر زیادہ دیر نہیں لگے گی ، جیسے بھی ہوگا باہرآجاؤں گا اور اللہ نے چاہا تو پھرآپ سے ملاقات ہوگی ( بظاھر یہ بات وہ مذاق میں کرتا تھا لیکن بات صاف کرتا تھا اور اس بات پر اس کی تواضع بھی خوب ہوئی تھی )۔

اور پھر جو اس نے کہا تھا وہ کردکھایا کوئٹہ شفٹ کرنے کے بعد اسےانسدادِ دہشت گردی ونگ کی جیل میں سخت پہرے میں رکھا گیا تھا جہاں سے وہ چند مہینوں کے بعد ہی فرار ہونے میں کامیاب ہوچکا تھا ۔ فرار کے کچھ عرصے بعد مجھے وزیرستان کے ایک نمبر سے کال آئی اور جب اس نے ہیلو ہی کیا تو میں پہچان گیا کہ میرا پرانا مہمان بات کررہا ہے ۔ اس نے ہنستے ہوئے اپنی بات یاد کروائی ’’فیاض خان میں نے کہا تھا نا کہ مجھے کوئٹہ میں کسی کی جرأت نہیں کہ زیادہ دیر سلاخوں کے پیچھے رکھ سکے یہ تو تم لوگ پاگل ہو جو اپنی اور اپنے بچوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال کرخوامخواہ ہیرو بننے کی کوشش کرتے ھو ‘‘ اور پھر ساتھ ہی اس نے اپنی اور اپنی تنظیم کے لمبے ہاتھوں کا ذکر بھی کیا اور لگے یاتھوں کچھ میری اور میرے عملے کی مہربانیوں کا ’ گلہ‘ بھی کیا۔

اس قسم کے فون میرے لیے یا میرے ساتھی پولیس افسران کیلئے کوئی نئی بات نہیں تھی ، اکثر مفرور یا جیل میں قید دہشت گرد بھی اس قسم کی فون کالز کرتے رہتے تھے کوئی اپنی صفائی پیش کرتا تھا ، کوئی دھمکی دیتا تھا تو کوئی تعلق بنا کر مدد کی پیش کش کرتاتھا۔ سی آئی ڈی افسران ان باتوں کے عادی تھے۔ ( اس قسم کے کئی واقعات ھیں جو آپ کے ساتھ آگلی ڈائریوں میں شئیر کرتا رہوں گا)۔

اس نے فرار ہونے کے بعد دو مرتبہ مجھ پر حملے کی پلاننگ بھی کی اوران کی پوری تیاری کے باوجود وہ میرا بال بھی بیکا نہ کرسکے ، میرا ایمان ہے کہ اللہ کی ذات بہت طاقتور ہے اور دونوں مرتبہ عین وقت پر اس کی ٹیم کے لوگ میرے ہاتھوں ہی پکڑے گئے۔ جیل سے فرار ھونے کے بعد بلوچستان بھر میں عثمان کرد نے تباھی پھیلادی ۔ شیعہ ھزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد پر آئے دن قیامت بن کر ٹوٹتا رھا ، معصوم بچے عورتیں بوڑھے جوان کسی کا کوئی لحاظ اس ظالم شخص کے پاس نہیں تھا۔ اس کا ٹھکانہ اب وزیرستان اور ژوب کے علاقے تھے، اس کا گروہ پورے پاکستان سے اغو برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث تھا اور اب اس کی طاقت اتنی بڑھ چکی تھی کہ جس تنظیم کو فدائی کارروائی یا خودکش حملے کیلئے حملہ آور کی ضرورت ھوتی تھی وہ اس سے رابطہ کرتے تھے۔

اللہ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں ، جب اس کی وحشیانہ کاروائیاں حد سے گزر گئیں تو ایک دن اللہ نے اس کی دراز رسی کھینچنے کا بندبست بھی کر ہی دیا، دوسال قبل کوئٹہ کے قریب اپنی بم ساز فیکٹری میں اپنے ساتھیوں سمیت موجود تھا اور کسی خوفناک کارروائی کی تیاری میں مصروف تھا کہ

سیکیورٹی فورسز کو اطلاع ملی جس پر چھاپہ مارا گیا اور یہ بدبخت اپنے ساتھیوں سمیت فائرنگ کے تبادلے میں مارا گیا۔ جس کے بعد سے بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں بلکہ نوے فیصد کمی آگئی۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں

اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں


 

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں