جب مشرف کی سنہری آمریت کا سورج غروب ہوا اور پیپلز پارٹی کی حاکمیت میں سرخ جمہوریت پاکستان کے افق پر نمودار ہوئی تو ملک کے حالات کافی خراب تھے‘ آئے دن دھماکے‘ ڈرون حملے‘ پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی کا دور دورہ تھا اور عوام مشرف کو یاد کرکے آہیں بھرا کرتے تھے۔۔۔ ایسے میں اٹھارویں ترمیم پوری آب وتاب کے ساتھ پارلیمنٹ سے منظور کی گئی ۔ اس وقت میں نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ تاریخ کے کارخانے میں وقت کبھی رکتا نہیں ہے۔ پہلی بار مشرف کی روشن خیال آمریت کے پیدا کردہ مخصوص حالات کے سبب ملک اس ڈگر پر آیا ہے کہ سیاسی حکومت ایسی ترمیم لانے میں کامیاب ہوسکی اوراگر انہی برے لوگوں کو تسلسل کے ساتھ حکومت کرنے دی جائے تو ممکن ہے کہ پاکستان بھی جمہوریت کی پٹری پر اپنی خستہ حال گاڑی دوڑانے کے لائق ہوجائے۔
درست یا غلط گیلانی کی برطرفی نے اس خیال کو مزید تقویت دی کہ تاریخ کا جبران برے حکمرانوں کو صحیح ٹرین پکڑنے پرمجبور کردے گا۔ نواز شریف جب دو تہائی اکثریت سے اقتدار کی مسند پر فائز ہوئے اوراس کے بعد دھرنوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا تو اس کی مخالفت بھی محض اسی سبب تھی کہ کم از کم تاریخ کو موقع تو دیا جائے کہ وہ اپنا کردار ادا کرسکے۔
دنیا جانتی ہے کہ نواز شریف کے خلاف عدالت سے فیصلہ لینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے لیکن گزشتہ نو سالوں میں لولی لنگڑی جمہوریت نے اتنا تو کردار ادا کیا کہ پاکستان کی تاریخ میں تین بار دو تہائی اکثریت سے منتخب ہونے والے نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ کے اعلیٰ ترین ججز نے ایک اہم ترین مقدمے کو سنا اور اس کے بعد اس سے بھی زیادہ اہم اس کا فیصلہ دیا۔ مجھ سمیت کئی افراد نکتہ چیں ہیں کہ عدالت نے منافقت سے کام لے کر نواز شریف کو محفوظ راستہ دینے کی کوشش کی ہے لیکن کیوں کہ اب ہم گرم چائے پیتے ہوئے ٹھنڈے دماغ سے صورتحال کا تجزیہ کررہے ہیں تو سمجھ آتا ہے کہ پاکستان کی عدالتوں کے لیے شاید اس وقت ممکن نہیں ہے کہ دو تہائی اکثریت والے اورشدت پسند قوتوں کے دوست کی شہرت رکھنے والے وزیراعظم کو یک جنبشِ قلم گیلانی کی طرح فارغ کردے لیکن ماضی کی طرح اب کی بار عدالت نے انہیں کلین چٹ نہیں دی بلکہ جے آئی ٹی کی آڑ میں میڈیا ٹرائل کے لیئے پیش کردیا ہے۔
پاکستان میں ہمیشہ کرسی سے اترنے والوں کے خلاف کارروائی ہوتی رہی ہے غالباً یہ پہلا موقع ہوگا کہ نام کو صحیح لیکن ایک معمولی سرکاری افسر (میاں صاحب کی نظر) سوال کرے گا کہ مغل اعظم جی ۔۔ بتائیے یہ پیسہ کہاں سے آیا اور دکھاوے کو ہی صحیح طوہاً و کرہاً میاں جی کو بھی جواب دینا ہی ہوگا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اب کی بار وزیراعظم کے عرب دوستوں کی جانب سے بھیجا جانے والا قطری خط عدالت پہلے ہی مسترد کرچکی ہے اور بہت ممکن ہے کہ جےآئی ٹی کے نتیجے میں اگر میاں صاحب خود نہیں تو ان کے جانشین مجرم قرار پاجائیں اور مسلم لیگ میں خاندانی آمریت کا دروازہ بند ہوجائے۔
ہم بہت زیادہ امید نہیں رکھ رہے لیکن پاکستان کے سیاسی ‘ معاشرتی اور جغرافیائی حالات کے پیشِ نظر شاید سست سیاسی عمل ہی اس معاشرے اور نظام کی اصلاح کاواحد ذریعہ ہے ‘ یہ امرطے شدہ ہے کہ نہ تو ہم انقلابِ فرانس کی طرح ایک قوم کے نکتے پر مرکوز ہوسکتے ہیں اور نہ ہی انقلابِ ایران کی مانند ہمارا مذہبی بیانیہ ایک ہوسکتا ہے۔ ہمارے حالات میں ہمارے لیے یہی بہتر ہے کہ عظیم و جلیل تاریخ کے طے شدہ فیصلوں کو تسلیم کرتے ہوئے معاشرے کے نظام کو آفاقی خود احتسابی عمل کے ذریعے آگے بڑھانے کی کوشش کریں بصورت دیگر کوئی اور راستہ صرف اور صرف کشتِ خون اور تقسیم کی ہولناک راہوں سے گزرکر ہی مل سکتا ہے۔
پاناما کیس کے فیصلے سے صدمے کا شکار ہونے والے دوستوں سے گزارش ہے کہ بس اب واویلا اور عدالت کو لعن طعن کرنا بند کریں اور اپنی تمام ترتوانیاں اس کمزور و ناتواں جے آئی ٹی کو مضبوط بنانے میں صرف کریں کہ وہ کوئی تاریخ ساز تحقیقات کرنے میں کامیاب ہوجائے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا تھا کہ ایسا فیصلہ آئے گا جسے صدیوں یاد رکھا جائے گا‘ نجانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ 540 صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ جس کی ابتدا اس بات سے ہوتی ہے کہ ’دولت کےہر عظیم ذخیرے کے پیچھے کوئی جرم چھپا ہوتا ہے ‘ واقعی پاکستان کا تاریخی فیصلہ ہوگا اور جیسے آج برطانوی عوام میگنا کارٹا کو اپنا قانون قراردیتے ہیں ایک دن آئے گا کہ پاکستانی عوام پاناما فیصلے کے لیے کہیں گے کہ 20 اپریل 2017 کوآنے والے اس فیصلے نے 21ویں صدی میں ہمیں ایک نئی سمت عطا کی تھی۔