تحریر: کشف طارق
سمندر کنارے آباد کراچی عالمی اہمیت کاحامل شہر ہے‘ قدرتی بندرگاہ ہونے کے سبب کراچی نے برٹش راج کے دور میں ہی عالمی دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی تھی اور یہی سبب تھا کہ سنہ پچاس اورساٹھ کی دہائی میں شہرِقائد کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ترین شہروں میں ہوتاتھا۔ پھر یوں ہوا کہ وقت اورحالات نے کروٹ کی اور داراحکومت کی منتقلی کے سبب وفاقی حکومت کی توجہ کم سے کم ہوتی چلی گئی لیکن عالمی برادری کی نظرمیں کراچی کا وہیں مقام رہا۔ یہی سبب تھا کہ یہاں آئے روزگارکے نت نئے مواقع آئے روز پیدا ہوتے رہے جس کے سبب ملک کے تمام علاقوں میں رہنے والوں نے کراچی ہجرت کی اور اس میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں کہ کسی بھی عالمی نوعیت کے حامل شہر میں رہنا کسی بھی شخص کا خواب ہوسکتا ہے۔
گڑبڑ یہ ہوئی کہ جس تیزی سے کراچی شہر میں ذرائع روزگاراورآبادی میں اضافہ ہوا‘ شہر کے منصوبہ سازوں نے تعمیر وترقی کے لیے وہ رفتار نہیں اپنائی۔ ہونا تو یوں چاہیے تھا کہ بڑھتی ہوئی آبادی کو مدنظررکھتے ہوئے منصوبہ ساز کئی سال آگے کی منصوبہ بندی کرکے شہر میں بنیادی ضروریات کے شعبوں کو فعال کرتے اور انہیں مزید بڑھاتے لیکن ہوا کچھ یوں کہ آج ڈھائی کروڑ آبادی ( غیر سرکاری ذرائع ) والا شہر صحت‘ پانی ‘ بجلی‘ نکاسی آب‘ ٹرانسپورٹ اور تعلیم جیسے بنیادی مسائل کے لیے سسک رہا ہے ۔
منصوبہ سازوں کی غفلت کے سبب وہ شہر جسے کبھی عروس البلاد یا ایشیا کا پیرس کہا جاتا تھا وہاں صحت کا عالم یہ ہے کہ نہ کراچی بلکہ سندھ اور بلوچستان کے مریضوں کا بوجھ شہر کے دو بڑے سرکاری اسپتال اٹھاتے ہیں جبکہ ہونا تو یہ چاہیےتھا کہ سول یا جناح جیسے بڑی ٹیچنگ اسپتال کراچی کے ہرضلع میں بنائے جاتے۔
اتنے بڑے شہر کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے گنتی کی چند سرکاری یونی ورسٹیاں ہیں جن میں کراچی یونی ورسٹی اور این ای ڈی کے علاوہ باقی سب کی حالت نازک ہے۔ اوراگر بنیادی تعلیم کو دیکھا جائے تو بس نہ پوچھئے آج بھی کراچی کے سینکڑوں اسکولوں میں بچے بغیر بجلی اورپانی جیسی سہولیات کے دری پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے میں مشغول ہیں۔
تین ہزاراسکوائر کلومیٹر سے زائد رقبے پر پھیلے سے اس شہرمیں حکومت کی طرف سے ٹرانسپورٹ کا کوئی انتظام نہیں اور عوام پرائیویٹ بسوں ‘ رکشوں اورچنگچی میں دھکے کھانے پر مجبور ہیں جبکہ سڑکوں کی حالت یہ ہے کہ سمندر کے ساتھ واقع اس میدانی شہر میں عوام پہاڑی علاقوں جیسا لطف حاصل کرتے ہیں اور اس لطف کو دوبالا شہر کی سڑکوں پر کھڑا سیورج کا پانی کرتا ہے۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک وسائل کی تقسیم کی ضرورت سے اچھی طرح واقف ہیں یہی وجہ ہے کہ جب کسی بھی شہر کی آبادی ایک مخصوص حد کو پہنچتی ہے تو اس کے بعد وہ ممالک سڑک کو سرحد تصور کرکے ایک نیا شہر بسانا شروع کردیتے ہیں اوراس شہر کے مکینوں کے لیے تمام ضروریاتِ زندگی کا اہتمام کرتے ہیں لیکن کراچی ہے کہ چہارجانب سے پھیلا چلا جارہا ہے‘ جی ہاں چار جانب سے ۔۔ سمندر میں بھی تیزی سے تعمیرات جاری ہیں اور منصوبہ ساز ہیں کہ وسائل کو ضلعوں کی سطح پر تقسیم کرنے لیے راضی ہی نہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے ایک مرتبہ کراچی کو صحیح سے سمجھا جائے اور اس کے بعد اس شہر کے لیے کوئی دس سالہ منصوبہ تجویز کیا جائے جس پر فوری عمل درآمد ممکن ہوسکے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم اس شہر کے رہنے والوں کو مشکلات کو بڑھاتی ہی رہے گی جس کا سدِ باب فی الفور کرنا ضروری ہے۔