The news is by your side.

آپ سے کیا پردہ

ہمارے معاشرے میں حرص، لالچ، چوری، رشوت ستانی، قتل و غارت گری اور جھوٹ سمیت ہر قسم کی اخلاقی و معاشرتی برائیاں سیاسی طور پر گفتگو کا دریا بن کر بہہ رہی ہیں۔ قانون نے منہ پر کالی چادر اوڑھ لی ہے۔ ہم انسانیت کو خیرباد کہہ چکے ہیں اور خود پستی کی طرف دوڑتے چلے جارہے ہیں۔ آج ہم اس نہج پر لاقانونیت کی گہرائی میں اتر چکے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قانون سو چکا ہے اور اگر قانون نظر آتا ہے تو صرف اور صرف غریبوں اور مسکینوں کے لیے ہے۔

ان کے ناحق موت کے حساب کتاب نہیں ہوتے، مزے کی بات دیکھیں کہ لوگ اپنے حقوق سے محروم ہوتے جارہے ہیں اور ہم خاموش تماشائی بنے ان سیاسی حواریوں کے کھیل کو دیکھتے رہتے ہیں۔ ہم اور ہمارے افسران کانوں کی بصیرت اور آنکھوں کی بینائی سے کمزور سے کمزور ہوتے جارہے ہیں۔ کہنے کو تو ہم اس معاشرے کا حصہ ہیں مگر انسانیت دلوں کے بجائے مکاریوں کی خوبیوں میں دفن ہوتی جارہی ہے۔ ظلم و ستم کا شکار ہونے والوں کا مذاق اور تذلیل کی جاتی ہے اور ہم بہرے، گونگے ہوچکے ہیں۔ اس لیے کہ غریب اور قانون کا رکھوالا کوئی نظر نہیں آتا۔ آخر یہ معاملہ کب تک چلے گا۔

ہمیں دین اور اخلاقیات کا سبق وہ لوگ سیاسی طور پر دیتے ہیں جو خود اخلاقیات سے محروم ہیں۔ غربت کی کوکھ سے ماضی میں مجرم پیدا کیے گئے ہیں۔ ہمارے بڑے سیاست دانوں کو اپنی غلط سوچ کی اصلاح کی طرف توجہ دینی ہوگی، انہیں اپنے مفادات کو دفن کرنا ہوگا۔ ماضی میں اس شہر کراچی میں خطرناک حد تک جرائم ہوتے تھے جس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ امیر، امیر تر ہوا اور غریب غربت کی چکی میں پستا گیا۔ ہم اتنے بے حس ہوگئے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بھی بھروسہ نہیں کرتے۔ عوام تو ان قانون نافذ کرنے والے اداروں سے محبت کرتی ہے مگر ہمارے سیاست دان بہت خوف زدہ ہیں۔ یہ جمہوریت کا جھنڈا اٹھائے اپنے بچاؤ کے لیے آپس میں ایک ہوگئے ہیں۔

گزشتہ 2 ماہ سے ایک طویل سرد جنگ کا آغاز سیاسی طور پر ہو رہا تھا۔ پہلی بات تو یہ جب بھی رینجرز کو اختیارات دینے کی بات ہوتی ہے تو پوری اسمبلی سوچ و بچار کا شکار ہوجاتی ہے۔ طویل اجلاس ہوتے ہیں، مختلف دلائل دیے جاتے ہیں، آخر میں اختیارات دے دیے جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان رینجرز نے ماضی کی اچھی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے اس شہر میں غیر جانب دار ہو کر آپریشن کیا اور اس شہر میں رہنے والے تعلیم یافتہ طبقے نے سکون کا سانس لیا۔ پھر جو کم تعلیم یافتہ طبقہ تھا اس نے بھی رینجرز کی خدمات کو سراہا اور اب شکر ہے کہ اس شہر میں جو اداس رنگ تھے وہ اپنے اختتام کو پہنچے۔

میں نے اسٹریٹ کرائم کے حوالے سے کئی مرتبہ پولیس افسران کو باور کرایا کہ خدارا اس پر توجہ دیں مگر افسوس اس پر کسی نے توجہ نہ دی۔ آخر کار پھر رینجرز نے اس کا بیڑہ اٹھایا اور وہ کسی حد تک اس پر قابو پانے میں کامیاب نظر آئی۔ کئی مراسلے اخبارات میں، میں نے دیکھے کہ نارتھ ناظم آباد بلاک A میں اسٹریٹ کرائم تیزی سے پھیل رہا تھا۔ گزشتہ دنوں رات میں نے دیکھا کہ نارتھ ناظم آباد میں رینجرز نے اسٹریٹ کرائم کے حوالے سے سرچ آپریشن کیا جس کی قیادت رینجرز کے DSR عابد سیف کر رہے تھے۔ کم از کم 200 موٹر سائیکل سواروں کو جب روک کر چیک کیا گیا تو ان میں70 تو ایسے تھے جن کی عمریں 13 سال سے لے کر 15 سال تک تھیں۔ جن کے پاس لائسنس نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ اب آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں قارئین کہ رینجرز کیا کرے؟ ٹوٹے پھوٹے تھانوں میں تو بیٹھنے کی جگہ نہیں ہے۔ وہ 150 نوجوانوں کو کہاں بند کریں گے، بقیہ جو بالغ تھے ان کے پاس بھی نہ کاغذات تھے، نہ نمبر پلیٹ تھیں۔

مانا کہ وہ کسی جرم میں ملوث نہیں تھے مگر جو کام پولیس کے کرنے کے ہیں وہ کام آپ رینجرز سے لے رہے ہیں پھر جب رینجرز کے اختیارات کی بات ہوتی ہے تو ہماری اسمبلی سوچ و بچار میں پڑجاتی ہے۔ اجلاس ہوتے ہیں کہ کیا کرنا ہے مگر چونکہ اب شہری رینجرز کی کارکردگی سے مطمئن ہیں تو ہماری سیاسی قیادت بھی سوچتی ہے کہ اگر پولیس کو ذمے داریاں دیں تو پھر ہماری حفاظت کون کرے گا۔ شہریوں کو چھوڑیے۔ آج تک ایک بات سمجھ میں نہیں آئی کہ سندھ حکومت کہتی ہے کہ صرف دہشت گردی کے لیے رینجرز اپنے فرائض انجام دے رہی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوٹا ماری، کرپشن، قتل و غارت گری، اسٹریٹ کرائم اور پھر پولیس بھی ذمے داری اٹھانے کو تیار نہیں۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ نہ کھیلیں گے، نہ کھیلنے دیں گے۔

میں دوبارہ DSR عابد سیف کی طرف آتا ہوں۔ ان سے میری گفتگو ہوئی۔ انہیں میں نے نہیں بتایا کہ میں جرنلسٹ ہوں، بس صرف کرائم کے حوالے سے ان سے باتیں ہوئیں۔ اللہ گواہ ہے کہ انہوں نے انتہائی تہذیب، محبت اور انکساری سے بات کی پھر راقم سوچ میں پڑگیا۔ قارئین جب رینجرز کا کردار اتنا خوب صورت ہے تو ہمارے سیاست دان قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کھلی چھوٹ کیوں نہیں دیتے کہ وہ عوام کی جان و مال کی ذمے داری خوبصورتی سے ادا کرے۔ اب یہ تو قارئین آپ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر رینجرز کو مکمل اختیارات دے دیے تو پھر محمود و ایاز سب ہی ایک ہی صف میں کھڑے ہوں گے۔

فوجی عدالتوں پر ہمارے سیاست دان چراغ پا ہیں کہ جمہوریت میں فوج کا کیا کام تو پھر باتیں تو قارئین سے ہوں گی۔ جب ہمارے سیاست دانوں کی جمہوریت میں زلزلے آتے ہیں، سیلاب آتے ہیں، الیکشن ہوتے ہیں، تھر میں فاقے کی حالت میں لوگ مرتے ہیں، اس وقت جمہوریت کے رکھوالے اپنا انتظام خود کیوں نہیں کرتے؟ کیوں فوج کو طلب کرتے ہیں کہ وہ دن رات کام کر کے حالات پر کنٹرول کرتے ہیں۔ اپنے جوانوں کو اور افسروں کو شہادت کا کئی مواقع پر درجہ بھی دیتے ہیں۔ یہ ہمارے سوچنے کی بات ہے، بس سیاست دان چاہتے ہیں کہ کرپشن، لوٹا ماری، چور بازاری پر خاموشی اختیار کی جائے۔ رینجرز اور فوج صرف دہشت گردی پر کنٹرول کریں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بزرگوں نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ ’چٹ بھی میرا، پٹ بھی میرا اور ہنٹر میرے باپ کا‘ خدارا فوج اور رینجرز کو کام کرنے دیں۔ اس ملک کی بقا اسی میں ہے۔ کیا خوب شاعر نے کہا ہے کہ۔۔

میں تماشا ہوں مجھے دیکھ رہی ہے دنیا
تم اپنے ہو مجھے ڈھانپ کیوں نہیں لیتے

شاید آپ یہ بھی پسند کریں