The news is by your side.

ہم نے تو امام مسجد کو بھی نہ بخشا

            امامت کی دو قسمیں ہیں اول امامتِ کبریٰ اور دوم امامتِ صغریٰ۔امامت کبریٰ یعنی حضوراقدس ﷺکی نیابت اور امامت صغریٰ یعنی نماز کی امامت۔ امامتِ نمازکے یہ معنی ہے کہ دوسروں کی نمازکا اس کی نماز سے وابستہ ہونایعنی امام اپنی نماز کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی نماز پڑھائے۔علماء کرام لکھتے ہیں کہ امام اور مؤذن کو ان سب نمازیوں کے برابر ثواب ملتا ہے جنہوں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی ہے ۔رسول اللہ ﷺنے فرمایااگر تمہیں اس بات کی خوشی ہے کہ تمہاری نماز قبول ہوتوتم میں بہتر شخص امامت کرے۔ایک دوسرے مقام پر آنحضورﷺ نے فرمایااپنے اماموں کو بہتر چنوکہ وہ تمہارے اور رب کے درمیان قبولیت نماز کاوسیلہ ہیں گویاکہ امام مقتدیوں کی نماز کاوکیل ہے مگر افسوس آج ہمارا معاشرہ امام کے مقام ومرتبہ اور فضیلت سے غافل ہوتا چلاجا رہا ہے۔

ہماری سوسائٹی میں امام کاتصور مجبور، مقروض اور دبی کچلی ذات کا شخص ہے ہماری قوم امام کوہمیشہ مفلس دیکھناپسندکرتی ہے وہ یہ چاہتی ہی نہیں کہ ایک امام اچھے مکان میں رہے عمدہ کپڑے پہنے یا خوشحال زندگی گزارے امام کی عزت ِ نفس کے ساتھ کھلواڑ کیاجاتاہے۔ انتہائی حیرت کی بات ہے کہ ہمارے نمازیوں کی اکثریت امام صاحبان کو تکلیف دینے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتی بلا مبالغہ ہمارے شہر میں ایسے افراد بھی موجود ہوں گے جن کا اپنے گھر میں اپنی ہی نالائقیوں کی بدولت پانچ پیسے کا احترام نہیں کیا جاتا مگر وہ حضرات مسجدوں میں ہٹلر بنے بیٹھے نظر آتے ہیں انھیں اس وقت چلّو بھر پانی میں ڈوب مرناچاہیے جب وہ امام صاحب کو چٹائی کی صفائی ،وضوخانے کی مرمّت اور منبر ومحراب کی درستی کاحکم دیتے ہیں۔

شہر کی مسجدوں میں تو مؤذن ار خدمت گزار ہوتے ہیں مگر مضافات میں اکیلاامام ہی صفائی کرتاہے، اذان دیتاہے اور اکیلے ہی نماز پڑھاتاہے۔جو شخص اللہ کی بارگاہ میں ہماری نماز کا سفیر ہے اس کے ساتھ اس قدر ناروا سلوک کیوں وہ بھی ایک ایسے مسلم معاشرے میں جس کی بنیاد ہی کلمہ توحید پر ہے۔

قارئین کرام اس مسئلہ کو آسان طریقے سے سمجھنے اور بے جا حاکم بنے حضرات کے ذہنی علاج کے لئے دو اشتہار حاضر ہیں جو چند دن پہلے سوشل میڈیا میں گردش کرتے رہے۔


 ضرورت برائے باورچی تنخواہ 20000 فیملی رہائش فری میڈیکل فری کھانافارغ وقت میں اپنا کوئی بھی کاروبار کر سکتا ہے ضرورت برائے چوکیدار تنخواہ 18000 ڈیوٹی صرف 8 گھنٹے فارغ اوقات میں کوئی بھی بزنس کرنے کا مجاز ہے اوور ٹائم لگانے پر اضافی پیسے بھی ملیں گے خواہش مند حضرات رابطہ کریں۔

 ضرورت برائے امام مسجد ضروری کوائف درس نظامی مکمل کورس قرآن پاک قاری باسط کے طرز پر پڑھتا ہو داڑھی لمبی ہو لباس سادہ ہوروٹی کم کھاتا ہوکھانا صرف دو وقت نیک متقی پرہیز گار ہو اللہ پر توکل کرتا ہو یعنی ختم وغیرہ اور نکاح کے پیسے نہ لے وقت کا پابند ہو چوبیس گھنٹے مسجد میں موجود ہو۔ جنازے بھی پڑھائے بچے کے کان میں اذان بھی دے دو وقت بچوں کو قرآن پڑھائے کوئی بیمار ہو تو اس کی تیمارداری بھی کرے کسی اور جگہ کوئی کاروبار ناکرے اور ٹیوشن بھی نہ پڑھائے مسجد کی صفائی کا خاص خیال رکھے ۔شلوار کے پائینچے ٹخنوں سے اوپر رکھے سر پر عمامہ باندھ کے رکھے کسی بچے کو سزا نہ دے نئے آنے والے چھوٹے چھوٹے بچوں کو مسجد میں آنے کا عادی بنانے کے لیے اپنے خرچ پر ٹافیاں بھی دے وغیرہ وغیرہ پرکشش وظیفہ مبلغ6000 روپے شکریہ


آپ کا وقت ضائع کرنا مقصودنہیں تھابس ایک تلخ حقیقت کی نشان دہی مقصودتھی ۔اب سچ بتائیں یہ حقیقت ہے یا نہیں جانے کہاں گئے وہ دن جب امام کو رہبر اور پیشوا کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اب تو حالات اس نہج تک ہمیں گرا چکے ہیں کہ اگر امام صاحب کسی سبب سے نمازفجر میں پہنچ نہ سکے یا لیٹ ہوجائیں تو مساجد کے جاہل اور بے عمل ٹرسٹی تمام نمازیوں کے سامنے گلے گلے پھاڑ کر کہتے ہیں کہ امام صاحب ایسا آئندہ نہیں ہوناچاہیے ورنہ تنخواہ کاٹ لی جائے گی۔ ارے نادانو!آپ امام ومؤذن کو تنخواہ دیتے ہی کتنی ہو؟جو بات بات پر کاٹنے کی بات کرتے ہو؟شہر وں میں مساجد کی ایسی کمیٹیاں بھی ہیں جو ہرسال صرف اس وجہ سے امام تبدیل کردیتی ہیں کہ اگر ایک ہی امام ہمیشہ رہاتو تنخواہ میں اضافہ کرناہوگا۔ بعض مساجد میں ائمہ کی تنخواہ اس شرط پر بڑھائی جاتی ہے کہ صبح وشام مدرسہ پڑھانا ہوگا یعنی تنخواہ کے ساتھ ڈیوٹی میں اضافہ ہونالازمی امرہے اور بعض جگہ اس شرط پر اضافہ کیاجاتاہے کہ مسجد کیلئے چندہ جمع کرناہوگا۔جبکہ تعمیری چندہ ہویا روزمرہ کے اخراجات کی رسید یہ ذمہ داری انتظامیہ کی ہے نہ کہ امام صاحب کی اسی طرح مسجد کی تعمیر وتوسیع اور رنگ وروغن پر تو لاکھوں روپے کا بجٹ بنایاجاتاہے مگر ائمہ مساجد سے صَرف نظر ایک لمحہ فکریہ ہے۔امام صاحبان کے ساتھ غلاموں سا سلوک کرنے میں ہمارے یہاں کے ڈاکو صفت ٹرسٹی حضرات ذرہ برابرشرم محسوس نہیں کرتے۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں