The news is by your side.

آئندہ نسلوں کی رگوں میں زہر اتارنے والا دشمن

پاکستانی معاشرے میں والدین اور بچوں کے درمیان بڑھتا ہوا کمیونی کیشن گیپ سماجی برائیوں کو جنم دے رہا ہے۔ والدین کا بچوں کو جیب خرچ دینے اور ان کے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے بعد شعوری طور پر یہ تصور کرلینا کہ ان کی ذمہ داری پوری ہوگئی ہے ، ان سماجی برائیوں میں اضافے کی جڑ ہے ۔ والدین کی جانب سے بچوں کی تربیت کے حوالے سے برتی جانے والی غفلت نوجوانوں کو کس اندھے کنویں میں دھکیل رہی ہے اس کا اندازہ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں وقفے وقفے سے آنے والی رپورٹس کے زریعے سے لگایا جاسکتا ہے ۔

حال ہی میں اسلام آباد کی ایک معروف جامعہ میں طلبہ و طالبات میں نشے کے بڑھتے ہوئے رجحان کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع ہوئی جس کے بعد الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی اس اندوہناک صورتحال کے حوالے سے آوازیں اٹھنا شروع ہوگئیں ۔ رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات میں کوکین، شراب، چرس ، ہیروئن ، نشہ آور گولیوں کا استعمال بڑھتا جارہا ہے ۔ اس رپورٹ کی بازگشت سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ میں بھی سنائی دی اور قائمہ کمیٹی کے سامنے یونیورسٹی کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے انکشاف کیا کہ جامعہ میں منشیات کی سپلائی ہورہی ہے اور طلباء میں اس کے استعمال میں بدستور اضافہ ہورہا ہے ۔

یہ رپورٹ پڑھتے ہی جہاں ایک پاکستانی ہونے کے ناطے میرے دل و دماغ انتہائی بے چینی کا شکار ہوئے وہیں بطور ایک سابق پولیس آفیسر کئی واقعات میری نگاہوں میں گھوم گئے ۔ دورانِ ملازمت ایک کار لفٹرز کا گروہ پکڑا گیا جن سے چوری شدہ اور چھینی گئی کئی گاڑیاں بھی برامد ہوئیں ۔تمام ملزمان عادی جرائم پیشہ تھے جو پہلے بھی کئی مرتبہ گرفتار ہوچکے تھے۔   دورانِ تفتیش ملزمان نے انکشاف کیا کہ ان کا گروہ تین پارٹیوں  میں تقسیم ہے ۔ پہلی پارٹی کراچی کے نوجوان طالب علموں پر مشتمل ہے جن کا تعلق بہترین کالجز اور یونیورسٹیوں سے ہے، اس پارٹی کا کام شہر کے پوش علاقوں سے نئی اور قیمتی  گاڑیاں چوری کرنا اور گن پوائنٹ پر چھیننا ہے۔ دوسری پارٹی  ڈرائیورز پر مشتمل ہےہے جو یہ گاڑیاں پہلے گروپ سے لے کر اندرونِ سندھ اور کوئٹہ پہنچاتے ہیں ، کئی مرتبہ پنجاب اور پشاور بھی گاڑیاں لے کر جاتے رہے ہیں۔ پکڑے گئے ملزمان کا تعلق دوسری پارٹی سے تھا۔ تیسری پارٹی ڈیرہ مراد جمالی اور کوئٹہ میں گاڑیاں وصول کرکے آگے ٹھکانے لگاتی تھی۔

ہارے لئے اچھے تعلیمی اداروں کے طلباء کا کار لفٹنگ میں ملوث ہونے کا انکشاف خاصا چونکا دینے والا بلکہ پریشان کن تھا ۔ ” صاحب یہ پڑھے لکھے نوجوان  بڑے گھروں سے تعلق رکھتے ہیں بڑے سمجھدار اور تیز ہوتے ہیں منٹوں میں کام کرتے ہیں  ” جمیل نامی ملزم  مسکراتے ہوئے بتارہا تھا، ” یہ تین نوجوان لڑکوں پر مشتمل گروپ ہے جبکہ ان کے ساتھ دو لڑکیاں بھی شامل ہیں وہ بھی ان کی مدد کرتی ہیں۔،


جرم وسزا کی ہوش اڑا دینے والی داستانیں


میں اور میری ٹیم کے دو تفتیشی افسر بڑی توجہ سے اس کار لفٹر کے انکشافات سن رہے تھے اور جہاں ضروری ہوتا اس سے سوال جواب بھی کررہے تھے جبکہ ایک ہیڈکانسٹبل ساری کاروائی تحریر بھی کرتا جارہا تھا۔

” صاحب یہ لڑکے اور لڑکیاں منشیات کے عادی ہیں جن کو روزانہ ہر حال میں نشہ پورا کرنا ہوتا ہے ۔ بڑے گھروں کے بچے ہیں ماں باپ سے اچھے خاصے پیسے ملتے ہیں لیکن اس کے باوجود نشہ کا خرچہ پورا نہیں کرپاتے، کوکین بڑا مہنگا نشہ ہے ہر کوئی نہیں خرید سکتا، ہیروئین، شراب وہ بھی انگریزی، چرس اور مختلف قسم کی گولیاں بہت مہنگی ملتی ہیں ، ماں باپ کی کمائی سے تو یہ شوق پورے نہیں ہوسکے نا صاحب ۔  جمیل نامی یہ کارلفٹر بڑے مزے سےکھل کر بات کررہا تھا کیونکہ پورے دو دن بعد اسے اس کی پسند کی سگریٹ پینے کو ملی تھی اور سچ بولنے کی صورت میں انعام کے طور پر اسے مزید سگریٹ ملنے کی امید جو تھی۔

یہ لڑکے اپنے مہنگے نشے کا خرچہ پورے کرنے کے لیے کار چوری کرنے اور چھیننے جیسے کام کرتے ہیں، لڑکیاں چھینی ہوئی گاڑی میں بیٹھ کر فیملی کا تاثر دیتے ہوئے پولیس چیکنگ اور ناکوں سے بچ کر گذرنے میں کام آتی ہیں، اکثر پولس والے فیملی والی گاڑی کے ساتھ نرم رویہ دکھاتے ہوئے کوئی خاص چیکنگ اور سختی نہیں برتتے۔

اگلے دن ہم نے باقی  ملزمان کو بھی پکڑنے کا پلان بنایا اور ملزم جمیل سے فون کرواکر ان کار لفٹرز نوجوانوں میں سے ایک  نوجوان امجد جو کہ اپنے گروپ کا سرغنہ تھا کو پیسے دینے کے بہانے سے بلوالیا۔ ڈیفنس کے علاقے سے ہم نے امجد اور اس کے ایک اور ساتھی کو پکڑلیا۔ اس وقت بھی دونوں نشے کی گولیاں کھائے ہوئے تھے اور بدبو کے بھپکے ان کے جسم سے بری طرح آرہے تھے۔

دونوں نوجوانوں کی عمریں بیس اکیس سال کی تھیں۔ چونکہ وہ پہلی بار پکڑے گئے تھے اس لئے تھوڑے سے خوفزدہ بھی لگ رہے تھے اس کے علاوہ اپنے ساتھی ملزم جمیل کے فون پر آئے تھے لہذا ان کے علم میں یہ بات تھی کہ شریکِ جرم پکڑا گیا ہے لہذا کچھ بھی چھپانا فضول ہوگا اس لئے طوطے کی طرح فرفر بولنا شروع ہوگئے۔

امجد اور اسک ا ساتھی سلیم کراچی کے ایک پوش علاقے میں واقع ایک مشہور تعلیمی ادارے میں زیرِ تعلیم تھے۔ امجد کا والد ایک بڑا سرکاری افسر تھا، والدہ ایک این جی او کی عہدیدار تھی، جبکہ سلیم کا تعلق ایک کاروباری فیملی سے تھا۔ امجد بری صحبت کی وجہ سے نشے کی لت میں پڑگیا تھا ۔ اس کا سفر سگریٹ سے شروع ہوکر چرس، شراب، افیون، ہیرئین سے لے کر کوکین اور پھر نشہ آور گولیوں تک کیسے طے ہوا اسے کچھ یاد نہیں تھا۔ ماں باپ کی اپنی بے پناہ مصروفیات کی وجہ سے ان کو پہلے تو کافی عرصے تک علم ہی نہیں ہوسکا کہ بیٹا کس بری لت میں مبتلا ہوچکا ہے اور جب علم ہوا تو اس وقت بہت دیر ہوچکی تھی۔ باپ نے نشے سے جان چھڑوانے کی خاطر علاج کی غرض سے اچھے اچھے ڈاکٹروں کو دکھایا ، کچھ عرصہ کیلئے نشے سے تائب ہوا لیکن دوستوں کی صحبت کی وجہ سے  چھپ چھپ کر دوبارہ سے نشہ شروع کر چکا تھا۔ اس کے ساتھی کی بھی اس سے ملتی جلتی کہانی تھی ۔ نشہ اور دیگر منشیات امجد کے ہی تعلیمی ادارے سے تعلق رکھنے والا ایک سابقہ طالب علم  سپلائی کرتا تھا جس کا تعلق منشیات سپلائی کرنے والے ایک منظم گینگ سے تھا۔ یہ گینگ شہر کے پوش علاقوں کے نوجوانوں اپنا شکار بناتا تھا۔ ڈا نس پارٹیوں میں شریک نوجوان ان کے لئے بہت  ہی آسان ہدف ثابت ہوتے تھے جہاں ان کے لئے کام کرنے والی پیشہ ورلڑکیاں ان نوجوانوں کو اس لت میں مبتلا کرنے میں مہارت رکھتی تھیں۔ بعد میں ان ہی نوجوانوں کے ذریعے یہ گینگ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں تک پہنچتا تھا۔ اس گینگ میں  تعلیمی  اداروں کی کینٹین کے ملازم اور سیکیورٹی گارڈز، باہرسے آنے والے ریڑی بان اور پہلے سے نشہ کرنے والے ساتھی طالب علم بھی شامل تھے  جبکہ کچھ اساتذہ بھی اس مکروہ کام میں استعمال ہوکر اپنے معزز پیشے کی بدنامی کا باعث بن رہے تھے۔

سر آپکو اندازہ بھی نہیں ہوگا کہ یہ منشیات فروش گینگ کتنا منظم ہے ، اس گینگ میں بڑے بڑے لوگ شامل ہیں، پوش علاقوں میں شاندار گیسٹ ہاؤس، اور فائیو اسٹار ہوٹلوں میں فنکشنز اور ڈانس پارٹیاں منعقد کرنا کسی عام منشیات فروش کا کم نہیں ۔


امجد کا یہ انکشاف میرے لئے بہت ہی حیران کن اور بالکل نیا تھا۔ اس قسم کے کیس سے میرا واسطہ پہلی بار پڑا تھا۔ مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ ہمارے اسکولوں اور کالجز کے نوجوان جو ابھی پوری طرح شعور کی منزل تک نہیں پہنچے، جو اپنے نفع اور نقصان کو بھی اچھی طرح نہیں جانتے، وہ کتنے منظم گینگ کے ہاتھوں اس مہلک بیماری میں مبتلا ہو رہے ہیں۔

” سر آپ کو پتہ ہے دوسرے ملکوں سے نشہ کی ایسی گولیاں منگواکر سپلائی کی جاتی ہیں جن کو استعمال کرنے سے کئی کئی گھنٹے انسان کا دماغ نہ صرف سن ہوجاتا ہے بلکہ پورا جسم سرور میں آجاتا ہے، ایک گولی دو سے تین ہزار میں ملتی ہےاور ڈانس پارٹیوں میں تو اس کی فروخت دوگنی قیمت پر ہوتی ہے”۔

امجد کے منہ سے نکلتے ہوئے الفاظ سے اب ہم سب کے رونگٹے کھڑے ہوچکے تھے  کہ اس گینگ میں لڑکیاں بھی شامل ہیں کچھ تو پیشہ ور ہیں جبکہ تعلیمی اداروں کی معصوم طالبات کو بھی ٹریپ کرکے اس لت میں مبتلا کرکے دلدل میں پھنسایا جاتا ہے اور انہی کے ذریعے مزید طالبات کو گھیرا جاتا ہے، کچھ تو ایک دوسرے کو دیکھ کر فیشن کے طور پر منشیات کے عادی ہو رہے ہیں سر” ۔

جیسے جیسے امجد روانی کے ساتھ اس نیٹ ورک کو بے نقاب کرتا جارہا تھا میرے اندر میں ایک آگ سی لگنا شروع ہوچکی تھی اور اب میں ہر صورت میں اس گینگ کا خاتمہ کرنا چاہتا تھا۔ میری آنکھوں کے سامنے میرے اپنے بچوں کے چہرے گھوم رہے تھے ، معصوم اور کچے ذہن کے طلباء اور طالبات کا بہت تیزی کے ساتھ  اس دلدل کا شکار ہونا واقعی ایک خوفناک حقیقت ہے۔

امجد اور اس کے ساتھی کے بیانات کی روشنی میں اب ہم لوگوں نے فیصلہ کیا کہ کسی بھی طریقے سے اس خطرناک گینگ کو پکڑ کر مزید معصوم نوجوانوں کو اس تباہی سے بچایا جائے۔ امجد نے بتایا تھا کہ اسے منشیات سپلائی کرنے والا اسی کے تعلیمی ادارے کا ایک سابق طالب علم ہے جو ہر جمعہ کے روز ایک شیشہ کارنر کی پارکنگ میں ملتا ہے ۔ گاڑی میں ہی مال دیتا ہے اور وہیں پر پیسے بھی وصول کرتا ہے۔ لہذا پلان بنا کر اس منشیات فروش کو اس وقت رنگے ہاتھوں پکڑا گیا جب وہ شیشہ کارنر کی پارکنگ میں ایک نوجوان کو ہیروئین فروخت کررہا تھا۔ اس کے قبضہ سے ہیروئین، چرس، کوکین اور افیون برآمد ہوئی جو کہ زیادہ مقدار میں تو نہیں تھی لیکن اسکی نشاندہی پر اس کے فلیٹ سے بڑی مقدار میں منشیات ملیں جس میں نشے کی مختلف اقسام کی گولیاں بھی شامل تھیں۔ اس منشیات فروش ملزم کی اینٹیروگیشن میں ایک بہت بڑے نیٹ ورک کا انکشاف ہوا جس میں اساتذہ، طالب علم، رکشہ والے ، تعلیمی ادارے کے قریب واقع ایک میڈیکل اسٹور کے علاوہ چند سرکاری افسران بھی شامل تھے۔

میں نے جب اپنے سینئر افسران کو اس نیٹ ورک کے بارے میں بتایا تو انہیں بھی سن کر بڑی تشویش ہوئی کہ کتنے منظم طریقے سے یہ کام کرکے آنے والی نسلوں کو تباہی کی راہ پر گامزن کیا جارہا ہے۔ ہم سب کے بچے انہی اسکولوں کالجوں میں پڑھتے ہیں اور اگر اپنے بچوں کو سامنے رکھ کر سوچیں تو تب کہیں معاملے کی سنگینی کا احساس ہو تاہے۔ خدانخواستہ کل کو وہ بھی اس گینگ کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ہم لوگوں نے فیصلہ کیا کہ کار لفٹر گینگ  کے خلاف مزید کاروائی کیلئے اینٹی کار لفٹنگ سیل سے رابطہ کرکے ملزمان ان کے حوالے کئے جائیں جبکہ منشیات فروش گینگ کے خاتمہ کیلئے انسدادِ منشیات کے ایک وفاقی ادارے کا تعاون حاصل کیا جائے جو اس قسم کے معاملات سے نمنٹنے کی مہارت کا حامل ادارہ سمجھا جاتا ہے( اس ادارے کی مزید کاروائی کے نتیجے میں ایک بہت بڑا گینگ بے نقاب ہوا)۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ ہم لوگوں کے پاس دہشتگردی سے متعلق متعدد کیس زیرِ تفتیش تھے جو کہ سی آئی ڈی کی پہلی ترجیح ہوتی ہے اور ان کاموں کیلئے مکمل طور پر اپنے آپ کو وقف کرنا پڑتا ہے لہذا دوسرے کاموں کیلئے وقت ہی نہیں ہوتا۔

لیکن یہاں میرے زہن میں ایک سوال جنم لیتاہے، کیا نوجوانوں میں منشیات کے اس زہر کو پھیلنے سے روکنے کی ذمے داری صرف حکومتی اداروں پر ہی عائد ہوتی ہے؟ کیا ان بچوں کے والدین کی کوئی ذمہ داری نہیں اور ان کا اس برائی کے پھیلانے میں کوئی کردار نہیں ہے؟ نہایت دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اگر ان طلبہ کے والدین اپنے بچوں کی حرکات اور رویہ پر نظر رکھتے تو نہ صرف ان کے بچے اس دلدل میں گرنے سے محفوظ رہتے بلکہ دوسروں کے بچے بھی۔ آج ہمارے معاشرے کے ایک مخصوص طبقے کا یہ المیہ ہے کہ اس میں گھر کا ہر فرد اپنی دنیا اور اپنے دوستوں میں مگن ہے جہاں بڑے خود بچوں کے ساتھ یا ان کے سامنے شراب نوشی اور جوئے سمیت دیگر برائیاں کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ بچوں کی صحبت کیسی ہے ، وہ کہاں جاتے ہیں اور کس سے ملتے ہیں ، کیا کرتے ہیں اور کیا نہیں اس کا کسی کو علم نہیں ۔ اگر ان کو معلوم ہو بھی جائے تو بچوں کو سمجھانے اور روکنے کی اخلاقی جرات کہاں سے آئے۔ آخر بڑے بھی تو ایسی ہی لت کا شکار ہیں ۔ وہ برائی پر فخر اور روک ٹوک کو دقیانوسی سوچ قرار دیتے ہیں۔ غلط طریقوں سے حاصل کی گئی یا کمائی گئی دولت اور لوٹ کھسوٹ کو فخریہ انداز میں بیان کرتے ہیں ۔

اگر اپنی نسلوں کو بچانا ہے تو ہم سب کو مل کر اپنی اپنی ذمے داری کا احساس اور مظاہرہ کرنا ہو گا‘  ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے  اور ہمارے پاس ایک نشے کی عادی ‘ اخلاق باختہ ‘ نوجوان نسل کے علاوہ کچھ نہ رہے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں