The news is by your side.

دہشت گرد ‘‘فرعون’’کیسے پکڑا گیا ؟

انٹروگیشن روم میں وہ میرے سامنے والی کرسی پر بیٹھا تھا،اس کی آنکھوں پر بندھی ہوئی سیاہ پٹی کھولی تو اس نے بغیر کسی سختی اور تفتیشی داؤ پیچ کے رضاکارانہ طور پر اپنا تعلق لشکرِ جھنگوی سے بتایا اور کراچی میں  خونریزی کے باب سے پردہ اٹھانا شروع کردیا ۔

آج بھی شیخ ممتاز عرف فرعون کی باتیں میرے کانوں میں گونجتی ہیں

‘‘جو کام ثواب کی نیت سے کیا ہے اس سے مُکر کر اپنے آپ کو گناہ گار کیوں کروں بھائی جان۔دین کی راہ میں نکلے ہیں تو پھر کیا ڈرنا’’

یہ لوگ دین کی راہ میں رکاوٹ تھے ان کو تو ہر حال میں مرنا ہی تھا بھائی جان۔

وہ نہایت اطمینان کے ساتھ اپنے جرائم کی طویل اور خونی داستان سنا رہا تھا اس کے اعتراف ِ جرم میں پولیس افسران کی ٹارگٹ کلنگ سے شروع ہونے والی سیریل کلنگ میں آگے چل کر سیاسی جماعتوں کے کارکن ، مذہبی شخصیات ، شیعہ و احمدی فرقے کے ڈاکٹرز، پروفیسرز اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے اہم افراد کے نام شامل ہوتے چلے گئے۔

بھائی جان اس کا تکیہ کلام تھا جس کا استعمال وہ موقع بے موقع کرنے کا عادی تھا۔ بات کرنے کا انداز انتہائی سادہ تھا اور اس کو اچھی طرح اندازہ تھا وہ کیا کہہ رہا ہے اور کس کے سامنے بیٹھا ہے۔

پولیس والوں سے ہماری کوئی دشمنی نہیں ہم تو صرف ان پولیس والوں کو مارتے ہیں جو ہمارے راستے میں آتے ہیں ہماری تنظیم کو نقصان پہنچاتے ہیں ہمارے ساتھیوں پر ظلم کرتے ہیں ۔۔۔۔جواب دینا تو بنتا ہے نا بھائی جان۔

آپ کے لیے بھی قاسم رشید بھائی نے جیل سے پیغام دیا تھا ‘ لیکن آپ نے موقع ہی نہیں دیا۔ ہم سے پہلے خود ہی ہم تک پہنچ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔خیر آگے دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔

Mumtaz Sheikh
ممتاز شیخ عرف فرعون

آپ تو اپنی تنخواہ کے لئے جان دیتے ہو یا جان لیتےہو ہم لوگ تو’دین‘ کی خاطر جان ہتھیلی پر رکھ کر پھرتے ہیں اگر اس راہ پر موت بھی آجائے تو قبول ہے آ پ زیادہ سے زیادہ  انکاؤنٹر دکھا کر گولی مار دوگے تو بھلے مار دو۔

میں اس ’فرعون‘ کے اعترافات سن کر اندازہ لگا چکا تھا کہ اس کی ذہن سازی بہت ہی زبردست طریقے سے کی گئی  اور جو زہر اسکے دل و دماغ میں بھرا گیا ہے اب اسے نکالنا ناممکن ہے۔ جس طریقے سے یہ معصوم شہریوں اور فرض کی راہ میں جان قربان کرنے والے پولیس افسران کی ٹارگٹ کلنگ کی تفصیلات بیان کررہا تھا میرے حساب سے اس کا علاج تو وہی بنتا تھا جو یہ خود کہہ رہا تھا لیکن میرے سامنے اگر قانونی پابندیاں نہ ہوتی تو شائد میں اس کی خواہش پوری کر دیتا۔.

گزشتہ دنوں کراچی سینٹرل جیل سے لشکرِ جھنگوی کے دہشت گرد شیخ ممتاز عرف فرعون کے  اپنے ساتھی محمد احمد عرف منا کے ہمراہ فرار کی خبر سے ہمارے ملک میں جیلوں کی سیکیورٹی کا پول کھل کر سامنے آگیا۔ سکیورٹی کے نام پر لاکھوں کروڑوں روپے خرچ ہونے کے باوجود جیل کی سکیورٹی برائے نام ہے ،   ملک بھر کی شاید ہی کوئی جیل ایسی بچی ہو جہاں سے قیدیوں کے فرار کا واقعہ سامنے نہ آیا ہو۔ فرار ہونے والے دونوں دہشت گردوں کا تعلق لشکرِ جھنگوی سے تھا۔ شیخ ممتاز کم از کم پچاس سے زائد افراد کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث تھا جن میں ایک درجن سے زائد تو صرف پولیس افسران شامل ہیں جبکہ مختلف سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں اور کارکنوں کے علاوہ  شیعہ، احمدی اور بریلوی مسالک کے لوگ اس کے ہاتھوں بے موت مارے گئے۔ پولیس کیلئے مخبری کے شبہ میں اپنی ہی تنظیم کے کارکنوں کو بھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا چکا ہے۔ اس کے ساتھ فرار ہونے والے محمد احمد عرف منا پر بھی کچھ اسی قسم کے الزامات تھے۔ دونوں ملزمان کے خلاف درجنوں مقدمات زیرِ سماعت تھے جبکہ چند مقدمات میں انہیں سزا بھی ہوچکی تھی۔


سی آئی ڈی کے سابق  ایس ایس پی فیاض خان کی یادداشتوں میں محفوظ جرم وسزا کی سنسنی خیز داستانیں پڑھنے کے لیے کلک کریں


ان ملزمان کے بارے میں اتنی تہمید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ ان ملزمان کو 2013 میں‘ میں نے گرفتار کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچایا تھا،انکی گرفتاری میں جو غیرمعمولی محنت اور جان جوکھوں میں ڈالنے والے واقعات پیش آئے تھے وہ شاید پوری طرح بیان نہ کرسکوں کیونکہ بہت سی قانونی پیچیدگیوں کے پیشِ نظر تمام حالات و واقعات جوں کے توں تحریر کرنا ممکن نہیں۔

سنہ 2013 میں شہر قائد میں ٹارگٹ کلنگ اپنے عروج پر تھی ، سیاسی پارٹیوں اور مذہبی جماعتوں کے کارکن ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن رہے تھے۔  فرقہ ورانہ تنظیموں کے عسکری ونگ مختلف فرقوں اور مسالک کے اسکالرز کو چن چن کر مار رہے تھے۔ کراچی بدامنی کیس سپریم کورٹ میں چل رہا تھا جہاں سندھ حکومت اور پولیس کو ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی بناء پر شدید تنقید ہورہی تھی۔ان دنوں سی آئی ڈی پر ہمیشہ کی طرح بہت سخت دباؤ تھا کہ کسی بھی طرح فرقہ وارانہ دہشت گردی کے ملزمان کو پکڑا جائے۔

لشکرِ جھنگوی کے اندر موجود میرے ایک انفارمر کے ذریعے اطلاع ملی کہ حافظ قاسم رشید گروپ سے تعلق رکھنے والی ایک ٹیم شہر میں جاری ٹارگٹ کلنگ کی ذمہ دار ہے ۔ اس گروپ کی زیادہ تر کاروائیاں ضلع ویسٹ کی حدود بالخصوص اورنگی ٹاؤن اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں کی گئی تھیں۔ حاضر سروس پولیس افسران کے علاوہ ریٹائرڈ پولیس افسران بھی انکی ہٹ لسٹ پر تھے۔ سب انسپکٹر محمد بخش جو کہ دورانِ سروس لشکرِ جھنگوی  کے خلاف متعدد مقدمات میں گواہ تھا اسے اس کی ریٹائرمنٹ کے بعد جب وہ اپنے بیٹے کے ساتھ موٹر سائیکل پر کہیں جارہا تھا فائرنگ کرکے شہید کیا گیا جبکہ اس کا بیٹا بھی فائرنگ سے زخمی ہوا۔ اسی طرح سب انسپکٹر شیر محمد کو بھی اپنے کمانڈر اور لشکرِ جھنگوی کراچی کے امیر حافظ قاسم رشید کے جیل سے بھیجے گئے پیغام پر نشانہ بنایا گیا۔

جتنی آسانی سے دہشت گردوں نے فرار ہوکر جیل پولیس کی ناک کٹوائی ہے اتنی ہی مشکل سے ان دہشت گردوں کو میں نے پکڑا تھا ، حافظ قاسم رشید کو جب سے میں نے گرفتار کیا تھا اسی وقت سے لشکرِ جھنگوی کی کوشش تھی کہ کسی بھی طریقے سے مجھے یا میری ٹیم کے کسی  افسر کو نشانہ بنائے۔ آپ کو پوری تفصیل تو نہیں بتا سکتا لیکن اس ملزم کو کو پکڑنے کیلئے میں نے جو پلان بنایا اور اس پر عمل کرکے اسے ٹریپ کرنے کے بعد گرفتار کیا وہ بہت ہی’’کلاسک ‘‘ تھا۔

سینٹرل جیل کراچی کا ایک منظر

لشکرِ جھنگوی میں موجود میرے انفارمر کے ذریعے اطلاع     ملی کہ شیخ ممتاز اور اس کے ساتھی اپنے امیر حافظ قاسم رشید کی ہدایت پر مجھے یا سی آئی ڈی کے کسی بھی اہم افسر و اہلکار کو نشانہ بنانے کی پلاننگ کی ہے ، جس پر میں نے اپنے انفارمر کے ذریعے ان تک یہ انفارمیشن پہنچائی کہ سی آئی ڈی کے چند افسران ایک ہوٹل پر بیٹھتے ہیں جو کہ ان کا معمول ہے اور وہاں پر کوئی خاص سیکیورٹی بھی نہیں ہوتی، بلکہ کبھی کبھار میں بھی اس ہوٹل پر ان کے ساتھ بیٹھتا ہوں ۔ یہ خبر انکے لئے بہت اہمیت رکھتی تھی کیونکہ جیل سے حافظ قاسم رشید جبکہ وزیرستان سے لشکرِ جھنگوی کے مرکزی امیر نعیم بخاری کا ان پر بہت دباؤ تھا کہ سی آئی ڈی والوں کو سبق سکھاؤ۔

پلاننگ کے مطابق شیخ ممتاز عرف فرعون کو ہم نے پکڑنا تھا لیکن وہ خود میرے انفارمر سے نہیں ملتا تھا اس لئے جب تک وہ ہاتھ نہ آتا کسی اور کو پکڑ کر اپنے اہم شکار کو کھونا نہیں چاھتا تھا۔ میرے انفارمر نے زبردست طریقے سے انہیں ٹریپ کرلیا تھا۔ اس نے شیخ ممتاز کے ایک ساتھی کو اس ہوٹل کی ریکی بھی کروادی جہاں پر پلاننگ کے مطابق میں اور میرے دو ساتھی پولیس افسر بڑے عام سے انداز میں بیٹھے ہوئے تھے اور بظاہر میرے گارڈز گن مین کوئی بھی میرے ساتھ اس وقت موجود نہیں تھا ۔ لشکرِ جھنگوی والوں کو جب پتہ چلا کہ ہم اتنی آسانی سے نشانہ بنائے جاسکتے ہیں تو انہوں نے فوراً ہی ہم پر حملہ کی پلاننگ کرڈالی۔ یہاں میں زیادہ تفصیل میں نہیں جاتا اور آپ کو صرف اتنا ہی بتاتا ہوں کہ جب شیخ ممتاز عرف فرعون اور اس کے ساتھی ہمارا شکار کرنے پہنچے تو ہمارے جال میں پھنس چکے تھے اور میرے شکنجے میں جکڑے جاچکے تھے ، تھوڑی سی مزاحمت کے بعد ہی قابو کرلئے گئے۔ ان کے قبضے سے اور بعد میں نشاندہی پر اسلحہ اور گولہ بارود بھاری مقدار میں برآمد ہوا۔


چار سال گزرنے کے بعد بھی نہیں بھول سکا ہوں

بھائی جان! جیل بھیجو یا مار دو جب بھی موقعہ ملا کام تو ہم نے یہی کرنا ہے


شیخ ممتاز نے دوران ِ انٹروگیشن اپنے بارے میں کچھ یوں بتایا کہ وہ’اورنگی ٹاؤن‘ میں پیدا ہوا، میٹرک تک تعلیم حاصل کی اور دو تین جگہ چھوٹی چھوٹی ملازمتیں کیں۔ ایک مذہبی جماعت کے جلسوں میں شرکت کرتا تھا جہاں نسیم فرعون سے ملاقات ہوئی جو کہ لشکرِ جھنگوی کا کارکن تھا اور متعدد بار گرفتار ہوکر جیل جاچکا تھا۔ اس نے میرا ذہن بنایا اور تنظیم کے اہم ذمہ داروں سے ملوایا جن کے ذریعے میری ذہن سازی ہوتی رہی اور میں اس بات پر اب بالکل متفق ہوچکا تھا کہ تنظیم کے مشن میں کسی کی جان لینا یا اپنی جان دینا دونوں ثواب ہیں۔ مجھے علماء کے دیئے ہوئے فتوؤں  کے مطالعے کے بعددوسرے فرقوں کے لوگوں کے کافر ہونے میں اب کوئی شبہ نہ تھا۔ نسیم فرعون نے حافظ قاسم رشید سے ملاقات کرائی جو لشکرِ جھنگوی کراچی کا امیر تھا۔ اس نے بتایا کہ نعیم بخاری ہمارا مرکزی امیر ہے جس کے احکامات پر ہم کاروائیاں کرتے ہیں۔ لیکن میری ملاقات اب تک اس سے نہیں ہوئی۔

حافظ قاسم رشید کے ساتھ مل کر ہم لوگوں نے متعدد ٹارگٹ کلنگ کی وارداتیں کی ہیں ۔ احمدی، شیعہ اسکالرز، ڈاکٹرز، پروفیسر اور مختلف مکاتبِ فکر کے اہم لوگوں کو ہم نشانہ بناتے تھے۔ کراچی کی ایک سیاسی جماعت کے عسکری ونگ نے ہمارے بہت سے ساتھیوں کو مارا ہے جسکا بدلہ لینے کے لئے ہم لوگوں نے ان کے کئی سیکٹر ممبرز، یونٹ انچارج اور عسکری ونگ کے لوگوں کو نشانہ بنایا۔ ہم ہر اس پولیس والے کو نشانہ بناتے تھے جو ہماری تنظیم کے خلاف کام کرتا تھا۔ حافظ قاسم رشید کے پکڑے جانے کے بعد ہم نے اپنی تنظیم کے ہی چند کارکنوں کو مخبری کے شبہ میں ہلاک کیا جبکہ علاقے کے جن پولیس والوں پر بھی سی آئی ڈی کے لئے کام کرنے کا شبہ تھا ان کو بھی نشانہ بنایا، سب انسپکٹر شیر محمد کو بھی اسی شک میں مارا۔دوسرے ملزم امین عرف منا نے بھی کچھ اسی طرح کی کہانی سنائی اور وارداتیں بتائیں۔ ملزمان نے اپنی ہٹ لسٹ سے بھی آگاہ کیا جس میں سیاسی و مذہبی کارکنوں کے علاوہ پولیس افسران کے نام بھی شامل تھے۔

جیل سے فرار کی جگہ

میرے لیے القاعدہ ، طالبان ، لشکر جھنگوی جیسی تنظیموں کے دہشت گردوں کے نظریات اور ان کی ذہن سازی کوئی نئی بات نہیں ، میں ان تنظیموں سے نبردآزماہوتا آرہا ہوں اور گرفتاری کے بعد دہشت گردی کی وارداتوں کا اعتراف فخریہ انداز میں دیکھ چکا ہوں ، یہ دہشت گرد تنظیمیں معصوم نوجوانوں کی برین واشنگ کرکے ان کو اس راہ پر لگاتی ہیں جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔ یہ لوگ عام گھروں کے کم عمر نوجوانوں کو خاص طور پر جو کچھ مذہبی رجحان رکھتے ہوں برین واش کرکے اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں پھر ان کو دن رات ایسی خودساختہ باتیں بتائی جاتی ہیں جس سے ان کے دماغ پہ یہ بات راسخ ہوجاتی ہیں کہ صرف یہ لوگ درست راستے پر ہیں اور دوسروں کی جان لینے کے علاوہ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر یا موت کو گلے لگا کر وہ اسلام کی بڑی خدمت کررہے ہیں اور اللہ کی خوشنودی حاصل کررہے ہیں اور شہادت کے بعد جنت میں بہتر حوریں ان کی منتظر ہیں۔

انٹروگیشن کے دوران’فرعون‘کے آخری الفاظ چار سال گزرنے کے بعد بھی نہیں بھول سکا ہوں۔۔۔۔ ’ بھائی جان! جیل بھیجو یا مار دو جب بھی موقعہ ملا کام تو ہم نے یہی کرنا ہے‘۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں