The news is by your side.

ہمارے آج کے کرتوت ہماری نسلیں بھگتیں گی

 ہمارے ہاں فوری ردعمل ظاہر کرنے کا رویہ اس قدر عام ہے کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے ہی لوگ محروم ہو چکے ہیں۔ میڈیا کے اس دور میں جہاں لوگوں کو سنسنی خیزی  کا چسکا پڑ چکا ہے وہاں انتہائی اہم، حساس نوعیت کے سماجی مسائل، اصل ذمہ داریوں اور فرائض کے حوالے سے بات کی جائے تو لوگ بیزار ہو جاتے ہیں۔

مذہب، رسم و رواج اور بیماریوں کے بارے میں ہم مفاد پرست عناصرکے کئی پروپیگنڈوں کا شکار نظر آتے ہیں اور ان پرآج کے جدید دور میں بھی یقین رکھتے ہیں۔ اس کی مثال میں کینسر اور شوگر کے مرض کے حوالے سے میسج کی صورت میں دے چکی ہوں۔میں اسی حوالے سے جس دوسرے پہلو کی نشاندہی کرنا چاہتی تھی وہ یہ ہے کہ معاشرے میں اس خوبصورت دنیا، اپنی زمین، ماحول اور مظاہرِ قدرت کے حوالے سے کسی قسم کی سوچ اور فکر پنپتی نظر نہیں آرہی۔

حکومت پاکستان، عوام اور منی بجٹ

گنے چنے بیدار مغز اور قابل لوگوں کی آواز صحرا میں صدا جیسی ثابت ہو رہی ہے۔ یہاں تو نوجوان اور ہر عمر کے افراد ٹی وی اور اسمارٹ مشینوں پر انٹرنیٹ کے ذریعے شغل میلے میں مصروف ہیں۔ یا پھر اس قوم کو فاسٹ فوڈ سینٹرز اور ساحل کے کنارے پکوان کے مراکز کی رونقیں بھاتی ہیں۔ ہمارے اجتماعی مزاج میں منطق اور سائنسی طرز فکر اب تک داخل نہیں ہو سکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں عقلی سطح پر کو ئی انقلاب برپا ہوتا نظر نہیں آتا۔

سوچنا، سوال اٹھانا تو جیسے جرم ہے اور یوں بھی سوال تو وہ اٹھائے جسے کینسر کے مرض کو سمجھنے میں بھی دل چسپی ہو۔ ہمیں تو صرف کینسر سے نجات حاصل کرنے کی جلدی ہوتی ہے۔ شوگر کیا ہے اور کیوں لاحق ہو سکتی ہے یہ جاننا ضروری نہیں بلکہ اس سے جلد از جلد چھٹکارا مل جانا چاہیئے۔ہم فریب کا شکار آسانی سے ہو جاتے ہیں۔ یہ تک نہیں سوچتے کہ جن نام نہاد طبیبوں یا ڈاکٹروں کے گھروں میں خود کینسر اور شوگر کے مریض موجود ہیں ، وہ ان کا علاج کر کے یااپنی تیار کردہ دوا دے کر ان کوکیوں ایسی بیماریوں سے نجات نہیں دلا دیتے۔

ہمارے ہاں سائنس تو پڑھائی جارہی ہے، لیکن اس قوم میں وہ منطقی اور سائنسی سوچ پیدا نہیں ہو رہی جس سے ترقی کا زینہ طے کیا جاسکتا ہے۔ چلئے ابھی فیصلہ ہو جائے گا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔

اپنے کسی دوست یا رشتے دار سے جس کی عمر پچیس سے چالیس سال کے درمیان ہو زمین کے تحفظ کا موضوع چھیڑیئے۔ ارتھ ڈے پر بات شروع کیجئے۔ یہ پوچھیے کہ کیا وہ یہ جانتا ہے کہ سمندر اور دریا آلودہ ہو رہے ہیں اور ان کو انسانی ظلم سے بچانا کتنا ضروری ہے اور ہمیں اس کا کیا فائدہ ہو گا؟ کسی نوجوان سے پوچھئے کہ ماحولیاتی آلودگی کیا ہے اور بحیثیت فرد ہمیں اس کے کتنے ذمہ دار ہیں اور اس کو روکنے کے لئے کیا کر سکتے ہیں۔ توانائی، خاص طور پر بجلی کے درست استعمال، اس کی اہمیت اور مستقبل میں اس کی ضرورت کے بارے میں خیالات جاننے کی کوشش کیجئے۔ سائنسی تحقیقات اور ایجادات میں پاکستان کے کردار کا موضوع چھیڑیے۔ درختوں کی دھڑا دھڑ کٹائی سے کیا فرد کی زندگی کس طرح متاثر ہو رہی ہے یہ جاننے کی کوشش کرکے دیکھیں۔

میرا دعوی ٰہے کہ پڑھے لکھوں کی اکثریت بھی ان موضوعات سے بیزاری ہی ظاہر کرے گی۔ اس کی وجہ فقط یہ نہیں ہو گی  کہ آپ کے پوچھنے کے وقت ان کا موڈ کچھ اور ہو گا۔ ان کی دلچسپیاں کسی اور طرف ہوں گی یا وہ اسے عام آدمی کے بجائے حکومت کے کرنے کا کوئی کام سمجھتے ہیں۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ لوگ دنیا اور خود اپنے ماحول کو بھی اپنا پہلا مسئلہ ہی نہیں سمجھتے۔ ان کو اس سے کچھ غرض نہیں کہ دریا آلودہ ہوجائیں یا خشک، سمندروں میں صنعتی فضلہ گرانے سے نباتات اور ہر قسم کی حیات جو ہماری غذا کا حصہ بن رہی ہے وہ بیماریاں لے کر آرہی ہے۔ فضائی آلودگی سے سڑک پر قانون شکنی تک وہ خود کو برا نہیں سمجھتے۔

انھیں کچھ غرض نہیں کہ سائنس اور میڈیکل کی دنیا میں کل کیا انقلاب رونما ہو سکتا ہے۔ شوگر کے حوالے سے کیا نئی تحقیق سامنے آئی ہے۔ کون سا ملک یا سائنسدان کینسر کے علاج کے لیے تحقیق میں کامیاب ہو رہا ہے۔ آگے چل کر کون سی ایجاد دنیا کو یکسر بدل کر رکھ دے گی۔ یہ نظام کیوں ہے، کیسے چل رہا ہے اور کیوں تباہ ہو سکتا ہے، لوگ نہیں جانتے اور جاننا بھی نہیں چاہتے۔ ہاں، موبائل میسج جھٹ پٹ آگے فارورڈ کردیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر تحقیق کے بغیر کوئی بھی بات آگے بڑھانا لازم ہے۔

افسوسناک بات یہ ہے کہ مذکورہ موضوعات اور مسائل پر بات کرنے کے لئے بنیادی اور ضروری معلومات ہی نہیں ہوتیں۔ اس کے برعکس ٹی وی پروگرامز اور فلموں پر تبصرے اور سوشل میڈیا پر سیلفیاں ٹنگانے کے حوالے سے ہر بات ہمیں کرنا آتی ہے۔ ہماری ترقی صرف اور صرف ایجادات کے استعمال تک محدود ہے۔ ہم ہر جدید سہولت اور اشیاء خرید کر اس کا فائدہ اٹھانے کی حد تک آگے آگے ہیں ۔مگر عقل لڑانے اور ذہن کو استعمال کرنے کی ضرورت اب تک محسوس نہیں کی ہے۔آخر ہم سائنس اور دنیا کے اجتماعی مسائل اورخاص طور پر اپنے ماحول سے لاتعلقی اور بے نیازی کب تک برتیں گے۔

ہمارے معاشرے میں سائنس اور حقیقی موضوعات پر کب مباحث چھیڑے جائیں گے تاکہ آنے والا کل روشن اور شاندار ہوسکے۔ دنیاکا ساتھ دینے کے لیے ہمیں بھی منطقی سوچ اور علم دوستی کا ثبوت دینا ہوگاورنہ واقعی پتھر کے زمانے کے انسان کہلائیں گے اور اس کا خمیازہ ہماری ہی نسلیں بھگتیں گی۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

+ posts

سدرہ ایاز صحافتی اداروں اور مارکیٹنگ کمپنیوں سے وابستہ رہی ہیں، سیروسیاحت کا شوق رکھتی ہیں، گھومنا پھرنا پسند ہے، اور اپنے انہی مشاغل اور مختلف سرگرمیوں کی انجام دہی کے ساتھ شاعری اور مختلف سماجی موضوعات پر مضامین اور بلاگ لکھنے کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں