The news is by your side.

آسمانوں میں چھپے ’پراسرار راستے‘ کہاں جاتے ہیں؟

“معمے ہمیشہ انسان کو حیرت میں ڈالتے رہے ہیں لیکن یہی استعجاب اس کائنات کو سمجھنے میں اس کا اولین معاون ثابت ہوتا ہے۔”

( نیل آرم سٹرانگ)

فلکیات میں دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے ” بلیک ہول ” ایک جانا پہچانا نام ہے جس کو سمجھنا نسبتا ًزیادہ آسان ہے ، “خلا میں ایک ایسا مائیکرو پوائنٹ جو ارد گرد سے ہر شے کو اپنی جانب کھینچ رہا ہے ، بلیک ہول کہلاتا ہے، جس کے گرد کشش ِ ثقل کا دائرہ اس قدر طاقتور ہے کہ وہاں سے روشنی کا اخراج بھی ممکن نہیں ۔ یعنی ایک بلیک ہول کا پوائنٹ “ایونٹ ہوریزون ” وہ مقام ہے جس میں گرنے والی شے پھر کبھی باہر نہیں آسکتی اور ہمیشہ کے لیے فنا ہوجائےگی۔

زیادہ تر بلیک ہولز ایسے وجود میں آتے ہیں کہ جب کوئی ستارہ(سپر نووا ) جب اس کی بیرونی تہہ گریویٹی کے دباؤ کے باعث ختم ہو جاتی ہے اور مسلسل دباؤ سے وہ گھٹ کر ایک بال جتنا رہ جاتا ہے جس کا سائز اتنا ہی ہوگا جیسے کہ امریکہ کی نیویارک سٹی زوردار دھماکے سے پھٹ جاتا ہے اور بالاخر وہ دھماکے سے پھٹ جاتا ہے ۔ بلیک ہولز کے بارے میں 1970 سے ا ب تک بہت سے نظریات پیش کیئے جاتے رہے ہیں جن میں مایہ ناز سائندان سٹیفن ہاکنگ کا کام قابل ِذکر ہے۔اس موضوع پر ان کی متعدد کتابیں بھی شائع ہوتی رہی ہیں ۔ جن پر کائنات کی ابتدا کے متعلق سب سے زیادہ مستند نظریہ ” بگ بینگ ” یعنی سنگولیرٹی وجود میں آیا ۔

اسی دوران بہت زیادہ ریڈیائی موجیں خارج کرکے کچھ ایسے ستاروں کا مشاہدہ کیا گیا جو بڑی کہکشاؤں کے عین مرکز میں پائے جاتے تھے ان کہکشاؤں کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے مرکز میں ” سپر میسو”( بہت زیادہ ماس والے) بلیک ہولز ہوتے ہیں جن کے گرد ایک گھومتی ہوئی “ایکریشن ڈسک ” (گاڑھے مادوں اور گیسوں پر مشتمل تہہ) ہوتی ہے۔ ابتدا میں ان اجسام کو ستارے ہی سمجھا گیا تھا مگر ہبل دوربین سے گہرے اور قریبی مشاہدےکے بعد معلوم ہوا کہ یہ نہ تو ستارے ہیں اور نہ ہی بذاتِ خود کہکشاں ۔۔ مگر انکا نیوکلیئس ( مرکزہ) چونکہ بہت زیادہ ایکٹو ہوتا ہے لہذاٰ ان سے مسلسل ریڈیائی شعاعیں خارج ہوتی رہتی ہیں اس بنیاد پر انہیں ” کاسی سٹیلر ریڈیو سورس” یا ” کوسار ” کا نام دیا گیا۔ ان سے جو برقی مقناطیسی شعاعیں خارج ہوتی ہیں انکا سپیکٹرم ( رنگوں کی پٹی ) ریڈیو اور ویزیبل ( قابل ِ مشاہدہ ) ویوز سمیت تمام ویولینتھ پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس سپیکٹرم سے کوسار کے بارے میں جو معلومات حاصل ہوئی ان کے مطابق یہ تقریبا َََدس ارب سال پہلے وجود میں آئے۔ 1970 میں سٹیفن ہاکنگ نے معلوم کیا تھا کہ جب ایک بلیک ہول اپنے ایونٹ ہوریزون سے باہر انرجی خارج کرتا ہے تو اس کی انرجی کم ہو نے سے وہ سکڑ کرآہستہ آہستہ معدوم ہو جاتا ہے ، اس پر بہت سے سوالات اٹھائے گئے کہ آیا جو اجسام بلیک ہول کے اندر جائیں گی کیا وہ ہمیشہ کے لیے فنا ہو جائیں گی ؟؟ کیونکہ بلیک ہول کے ایونٹ ہوریزون پر تمام فزیکل قوانین غیرمؤ ثر ہوجاتے ہیں ۔ کلاسیکل تھیوریز یہی کہتی ہیں مگر طبیعات کی کوانٹم تھیوریز نے ایک نیا تصور پیش کیا کہ اشیاء کا بلیک ہول سے سالم باہر آجانا بھی ممکن ہے ۔


خلائی مخلوق کو بلانا خطرناک اورزمین کی تباہی کا سبب


کوانٹم فزکس کے جدید ماڈل کے مطابق جب کوئی ستارہ اپنی ہی گریویٹی کے دباؤ کے باعث سکڑتے سکڑتے اس حد تک پہنچ جاتا ہے جہاں سے مزید دباؤ برداشت کرنا ممکن نہ ہو تو گریویٹی لوپس کے مسلسل دباؤ کی وجہ سے وہ بلیک ہول اپنی ہیئت تبدیل کرکے “وا ئٹ ہول” میں تبدیل ہوجاتا ہے اس تبدیلی میں سیکنڈ کے ہزارویں حصے سے بھی کم عرصہ درکار ہوتا ہے مگر پھر بھی وہ بلیک ہول اربوں ، کھربوں سالوں تک دکھائی دیتا رہتا ہے کیونکہ گریویٹی روشنی کی شعاعوں کو پھیلا کر وقت کی مدت کو بڑھا دیتی ہے۔

در صل وائٹ ہول ایک ایسی شے ہے جو حقیقتاً ہماری کائنات میں کہیں وجود نہیں رکھتے یا اگر موجود بھی ہیں تو اب تک ان کی کوئی واضح شہادت نہیں مل سکی ، ان سے ہمارا واسطہ صرف کونٹم میکینکس اور حسابی اعداد و شمار کے وقت پڑتا ہے کیونکہ انہیں بلیک ہول کا بالکل الٹ سمجھا جاتا ہے ، یعنی یہ بلیک اینڈ وائٹ ہولز مل کر کائنات میں ریڈی ایشنز اور خارج ہونے والی بے حساب توانائی کو توازن میں رکھے ہوئے ہیں ۔ اس کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ ایک بلیک ہول کا ایونٹ ہوریزون جس توانائی کو نگلتا ہے ،وائٹ ہول کا ایونٹ ہوریزون اس کو کسی اور کائنات میں اگل دیتا ہے۔ مگر سائنسدا نوں کی اکثریت وائٹ ہولز کی موجودگی ہی کی منکر ہے کیونکہ یہ کسی صورت ممکن نہیں کہ کائنات کسی ” ریڈی میڈ سنگولیرٹی ” کی بدولت وجود میں آئی ہے ۔

مگر سٹیفن ہاکنگ کا کہنا ہے کہ ایک کائنات کا بلیک ہول ، وارم ہول کے ذریعے وائٹ ہول سے منسلک ہے جو ہمیں کسی اور کائنات میں لے جاسکتا ہے ، یعنی بلیک ہولز مختلف کائناتوں کے درمیان سرنگ کا کام دیتے ہیں ، مزید یہ کہ بلیک ہول آپ کو مستقبل میں لے کر جائےگا تو وائٹ ہول، وارم ہول کے ذریعے ماضی کی کھڑکی کھولنے کا سبب بنے گا ۔ کافی عرصے تک یہ سمجھا جاتا رہا کہ کوسارز ہی وائٹ ہولز ہوتےہیں لیکن بلا آخر سائنس دان اس نتیجےپر پہنچے ہیں کہ کوسار حقیقتا ََ وجود رکھتے ہیں اور بہت بڑے بلیک ہولز سے وجود میں آتے ہیں جبکہ وائٹ ہولز کی کائنات میں مو جود گی اب تک ایک معمہ ہے۔

اگرچہ وقتا ََ فوقتا ََ مختلف ریسرچ پیپر اور آرٹیکلز شائع ہوتے رہتے ہیں اور سٹیفن ہاکنگ بھی اپنی بات پر ڈٹے ہوئے ہیں مگر وثوق سے یہ بات کہنا کسی صورت ممکن نہیں کہ کوسار ہی وائٹ ہولز ہیں ۔ شواہد ملے ہیں کہ ہماری ملکی وے گلیکسی سے مختلف اقسام کی مائع گیس خارج ہوتی رہتی ہیں عین ممکن ہے کہ یہ اخراج وائٹ ہولز ہی کے ذریعے ہوتا ہو جس سے یہاں توانائی کا توازن برقرار رہتا ہے ، مگر یہ سب کچھ ابھی تک حسابی مفروضات تک محدود ہے۔

اگرچہ ملکی وے (دودھیا ) گلیکسی کے مرکز ” گلیکٹک سینٹر ” پر کوئی کوسار دریافت نہیں ہوا مگر یہاں ایک طاقتور برقی مقناطیسی شعاعوں والا بلیک ہول ضرور ہے جسے ” سیجی ٹیرئیس اے” کا نام دیا گیا ہے اور اس کا ماس سورج کے ماس سے چار گنا زیادہ ہے ، اتنی زیادہ ماس کی قلیل جگہ میں مو جودگی کیونکر ممکن ہوئی اس کی وضاحت بہت سے سائنسدانوں نے وائٹ ہول نظریئے کے ذریعے کرنے کی کوشش کی ہے کیونکہ کوئی بھی شے وائٹ ہول کے ایونٹ ہوریزون کے کتنے ہی قریب کیوں نہ پہنچ جائے اس کے انتہائی قریب جانا ممکن نہیں۔

اس سلسلے میں ایک بڑی پیش رفت اس وقت ہوئی جب 2011 میں ایک بہت بڑے گیس کے بادل کو سیجیٹیریئس اے کے مرکز کی طرف بڑھتے دیکھا گیا تو ہر جا نب سےقیاس آرائیاں کی جانے لگیں کہ کسی بڑی تباہی یا دھماکہ کے اندیشہ ہے ، عمومی خیال یہ تھا کہ اس بادل کے باعث بلیک ہول کی ایکریشن ڈسک حد سے زیادہ روشن ہو جائیگی مگر سائنسدانوں کی توقع کے بر خلاف ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔یہ گیس کا بادل اب بھی وہاں موجود ہے اور آہستہ آہستہ منتشر ہو رہا ہے ، لامحالہ وہاں ان گیسوں کو کوئی مختصر راستہ ملا ہے جس سے یہ اخراج ممکن ہوا اور وہ یقینا ََ ملکی وے کا وائٹ ہول ہو سکتا ہے جس کی بلیک ہول کی طرح اپنا مخصوص ماس ، چارج اور گردشی حرکت کا معیار ہوگا ۔

اس طرح سٹیفن ہاکنگ کہ اس نظریے کی تصدیق ہوئی کہ” سیجیٹیرئس اے وارم ہول کے کنارے پر واقع ایک بلیک ہول ہے، جس کی اپنی بہت طاقتور ریڈی ایشن خارج کرنے والی ایکریشن ڈسک ہے اور یہ ٹائم اینڈ سپیس کے لیے ایک سرنگ کا کام دیتا ہے۔” ملکی وے میں جس طرح بلیک ہول کی موجودگی کو تسلیم کر لیا گیا ہے اگر یہاں کبھی ایک وائٹ ہول بھی دریافت ہوجائے تو یہ علم ِ فلکیات کی بہت سی گھتیوں کو سلجھانے کا سبب تو بننے گا ہی سائنسدانوں اور ماہرین ِ کونیات کو ایک کائنات سے دوسری کائنات میں جانے کا راستہ بھی مل جائیگا ۔ ٹائم ٹریول یا وقت کا سفر جو اَب تک سائنس فکشن کا پسندیدہ موضوع رہا ہے اس نظریے سے حقیقت میں ڈھالا جا سکتا ہے ، امید ہے کہ شاید کبھی سٹیفن ہاکنگ اپنی سپیس شپ کو ملکی وے کے مرکز پر واقع بلیک ہول تک لے جانے میں کامیاب ہوجائیں اور وہاں موجود وائٹ ہول کے ذریعے کسی دوسری کائنات میں داخل ہونے کا راستہ پا لیں۔ مگر یہ سب شاید اتنا آسان نہیں اس کے لیے گلیکسی کے عین مرکز پر عمل پزیر ایک ملٹی ڈائیمینشنل ( کئی سمتوں سے عمل کرنے والی) فورس کی ضرورت ہے ، شاید اسی کے ذریعے ہماری ملکی وے گلیکسی ،دیگر تمام کہکشائیں اور یہ کائنات اپنا توازن برقرار رکھے ہوئے ہیں ۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں