The news is by your side.

آزادی کے ستر سال اور وی آئی پی کلچر

پاکستان میں لوگ خاندانی دشمنی میں مرتے ہیں حادثوں، قدرتی آفات اوروبائی امراض پھوٹ پڑیں تو مرتے ہیں یا طبعی موت اس کی وجہ بنتی ہے اور اسے تقدیر کا لکھا سمجھ کر صبر شکر کرلیا جاتا ہے کیونکہ کچھ  چیزیں انسان کے بس میں نہیں ہوتیں لیکن اگر کسی بے گناہ کی موت کسی وی آئی پی پروٹوکول کی وجہ سے ہو تو ایسا لگتا ہے گویا ملک انہی وی وی آئی پی کے لئے بنایا گیا اور عوام کی حیثیت کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں۔

پاکستان میں پچھلے چند سالوں سے وی آئی پی پروٹوکول کی وجہ سے مرنے والے افراد کی تعداد تقریباً پانچ سے دس سالانہ ہے۔ کہیں کوئی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کررہا ہواور ٹریفک جام ہو جائے تو تشویش ناک حالت کا کوئی مریض اس میں پھنسی ایمبولینس میں ہی دم  توڑ دیتا ہے کہیں کوئی اعلیٰ شخصیت کسی دہشت گردی کے واقعہ کے زخمیوں کے ساتھ فوٹو سیشن کروانے آجائے تو پورے ہسپتال کو سیل کردیا جاتا ہے اور ڈاکٹر سے چند گز دور کھڑا باپ اپنے بیٹے کی زندگی کے لئے بھیک رہ جاتا  ہے۔

نوازشریف کے قافلے میں شامل گاڑی نے بچے کو کچل ڈالا*

  کہیں کسی اعلی ٰشخصیت نے گزرنا ہو اور ٹریفک بند کردی جائے تو ایمبولینس میں پانچ بچوں کی ماں درد    زچگی کی وجہ سے جا ن کھو بیٹھتی ہے اور ایک وقت میں یہ وی آئی پی کلچر دو دو جانوں کاچڑھا وا  لے  لیتا ہے اور کسی سیاسی ریلی میں ڈیڑھ کروڑ کی گاڑی کے نیچے تین بہنوں کا اکلوتا بھائی رونددیا جاتا ہے، ان احتجاجی ریلیوں، جلسوں،دھرنوں اور وی آئی پی کلچر کی زد میں آکر وہ لوگ مرتے ہیں جن کا سیاست سے دور کا تعلق بھی نہیں ہوتا۔اور جن لوگوں کے مفادات ان جلسے جلسوں دھرنوں کے پس پردہ ہوتے ہیں وہ بڑے آرام سے اپنی ایئر کنڈیشنڈ گاڑیوں میں بیٹھ کر معصوم عوام کانظارہ یوں کررہے ہوتے ہیں۔جیسے کسی ایئر کنڈیشنڈ سینما میں بیٹھے کوئی تھرل اور ایڈونچرمووی دیکھ رہے ہوں۔

اس کامزہ اس وقت اور بھی دوبالا ہوجاتا ہے جب سن روف کھول کر سر باہر نکال کر وکٹری کے نشان بنائے جاتے ہیں۔ جبکہ وہ لوگ جو اس کلچر کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ان کی ایف آئی آر بھی پولیس درج کرنے سے کتراتی ہے اور اگر کی بھی جاتی ہے تو کئی سقم رکھ کر بے نام اور نامعلوم کے خلاف درج کی جاتی ہے۔ عام آدمی کی زندگی چند روپوں کی مار رہ گئی ہے۔لواحقین  کوانصاف کی توقع ہی نہیں ہوتی تو وہ یا تو چپ سادھ لیتے ہیں یا چند روپوں کے عوض ان کا منہ بندکروا دیاجاتاہے۔

در حقیت پاکستان کے وی آئی پی کلچر نے پورے ملک کو یرغمال بنالیا ہے۔ وہ کوئی برسراقتدار پارٹی کے وزیر ہوں یا حزب  اختلاف  یا اپوزیشن کے رہنماہوں، کسی بھی سیاسی پارٹی سے ہو یا کسی مذہبی گروپ سے ان کا تعلق ہو انہوں نے اس عوام کو بھیڑ بکریاں بنا رکھا ہے اور میں یہ کہنے بھی حق بجانب ہوں کہ معاشرے میں شعور آنے کی بجائے جہالت زیادہ آتی جارہی ہے۔ایک وہ وقت تھا کہ الیکشن کمپین کے دوران کسی امیدوار تو دور کی بات اگر کسی سپورٹر کی گاڑی سے بھی کوئی بچہ ٹکرا جاتا تھا تو وہ امیدوار الیکشن ہار جاتا تھا ایسی کئی مثالیں 85,77,  یا 88کے الیکشن میں موجود ہیں۔

دس ماہ کی بچی بلاول بھٹو کے پروٹوکول کے سبب جان ہارگئی*

 وی آئی پی کو عوام نے خود آسمانی مخلوق بنایا ہوا ہے آج عوام اس کو ووٹ دیتے ہیں جس کے ساتھ سب سے زیادہ مسلح گارڈ ہوں بڑی بڑی گاڑیاں ہوں اور جس کی علاقہ میں دہشت ہو اور اگر وہ کوئی بڑا سرمایہ دار فیکٹری ملوں کامالک ہو توسونے پر سہاگے والی بات ہوتی ہے یہ کلچر خاص طور پر ہمارے دیہاتی علاقوں میں 85 کے الیکشن کے بعد آنا شروع ہوا ‘ یہی دور تھا جب سرمایہ دار بھی سیاست کی طرف متوجہ ہوئے لاہور کے ایک بڑے سرمایہ دار خاندان کی کامیابی نے ان سرمایہ داروں کو بھی اس جانب متوجہ کیا کہ کیسے وہ سیاست میں آکر اپنا کاروبار بھی چمکا سکتے ہیں اور طاقت بھی حاصل کرسکتے ہیں۔

 یہی وجہ ہے کہ اب فیوڈل طبقہ سیاست سے غائب ہوتا جارہا ہے اور کرپشن کی پیدوار سرمایہ دار سیاست کے ایوانوں پر قابض ہوتاجارہاہے۔ووٹ اب دیا نہیں جاتا بلکہ بیچا جاتا ہے اور خریدار سرمایہ دار ہوتاہے ۔ ٹیکس، بجلی،گیس چوری کرنے والا یہ سیاستدان اپنا سرمایہ اور پروٹوکول بھی اتنا ہی بڑھاتا جارہا ہے جتنے پیسے لگا کر وہ الیکشن جیتتا ہے۔دیکھیں آزادی کے ستر سال تو پورے ہوگئے‘  اب اس وی وی آئی پی کلچر سے کب آزادی ملتی ہے۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں