مذہب اور سائنس دونوں کے گہرے مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ بلاشبہ یہ انسان کی اپنی سرگرمیاں ہیں جو کرۂ ارض کے قدرتی سسٹم کو تباہ کر کے طوفانوں، زلزلوں، ٹورناڈوز، خشک سالی اور بے تحاشہ سیلابوں کو از خود دعوت دے رہی ہیں ۔ آج دنیا کا کوئی خطہ ان سے محفوظ نہیں رہا ، کہیں زلزلے کے چند جھٹکے لمحوں میں شہر کے شہر برباد کر دیتے ہیں ،تو کہیں طوفان پوری بستیاں اجاڑتے گزر جاتے ہیں ، کہیں سورج سوا نیزے پر آکر دماغوں کے اندر خون تک کھولائے دے رہا ہے تو کہیں سیلاب بربادی کے نئی داستانیں رقم کر رہے ہیں ۔ ایسے ہی ایک طوفان کا سامنا گزشتہ ماہ اگست کے اواخر میں سپر پاور امریکہ کو بھی کرنا پڑا جب ’’ہاروے‘‘ نامی سمندری طوفان ٹیکساس اور ہوسٹن کے ساحلوں سے ٹکرایا اور اس کے نتیجے میں شدید طوفانِ بادو باراں سے تقریبا ََ بیس ٹریلین گیلن پانی برسا جو صرف نیویارک سٹی کی مجموعی آبادی کی ضروریات پچاس برس تک پوری کرنے کے لیے کافی ہے ۔
اس سمندری طوفان کو امریکہ کی تاریخ کا بدترین ڈیزاسٹر قرار دیاجارہا ہےاور اب تک کے تخمینوں کے مطابق محض پانچ دن میں ٹیکساس میں ستانوے بلین ڈالر اور اور مجموعی طور پر ایک سو نوے بلین ڈالر سے زائد کا مالی نقصان ہوا، جو ماضی کے دو بدترین طوفانوں ’’کترینا ‘‘ اور’’سینڈی‘‘ کے باعث ہونے والےمشترکہ مالے خسارے کے برابر ہے ۔
ٹیکساس کے محکمۂ موسمیات کے ڈائریکٹر جان نیلسن کے مطابق طوفان کے ٹکرانے کے بعد بارشیں اس قدر شدید تھیں کہ انھیں چارٹ پر ظاہر کرنے کے لیے ایک نیا رنگ شامل کرنا پڑا جو ماضی کی مارکنگ میں کبھی استعمال نہیں کیا گیا ۔ حکومت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق تقریبا ََایک لاکھ پچاس ہزار گھر تباہ ہوئے اور اب تک دو لاکھ افراد بجلی سے محروم ہیں ۔ اور اس صورتحال کا ایک اندہوناک پہلو یہ ہے کہ ٹیکساس کی پچاسی فیصد آبادی نے سیلاب کی انشورنس نہیں کروائی ہوئی تھی۔
اگرچہ گلوبل وارمنگ سے رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں دنیا کا ہر خطہ آیا ہے مگر گلف کوسٹ اس کا سب سے زیادہ شکار ہوئی ہے اور یہاں شدید بارشوں اور طوفان کی شرح ماضی کی نسبت تیس فیصد بڑھ گئی ہے ۔ہر برس کسی بڑےڈیزاسٹر کے باعث یہاں سے تیل نکالنے والی کمپنیوں کو شدید مالی خسارے کا سامناکرنا پڑتا ہے ۔
بظاہر ہاروے ایک سمندری طوفان تھا جو پانچ دن میں تباہی و بربادی کی المناک داستانیں رقم کرتا گزر چکا ہے اور اب ٹیکساس ، ہوسٹن اور دیگر متاثرہ علاقوں کو پہلی حالت میں واپس لانے میں شاید ایک طویل عرصہ لگ جائے مگر اس امر سے کسی صورت انکار ممکن نہیں کہ ہاروے جیسی قدرتی آفات کو بننے میں عشرے لگتے ہیں جن کے پیچھے اصل محرک انسان کی اپنی سرگرمیاں ہیں ۔
آج گلوبل وارمنگ کی وجہ سے دنیا بھر میں پینتالیس ملین افراد کو شدید بارشوں کے باعث سیلابی صورتحال کا سا منا ہے ۔ 2017پچھلے دو عشروں کی نسبت گرم ترین سال رہا اور مختلف علاقوں میں ریکارڈ درجۂ حرارت نوٹ کیا گیا جس کے باعث ایک طرف سمندروں میں عملِ تبخیر (بخارات بننے کا عمل) تیز تر ہوا اور بارشوں کی شرح دو گنی ہو گئی تو دوسری جانب انٹارکٹیکا کے گلیشئرز تیزی سے پگھلنے لگے جس کا براہِ راست اثر شمال سے جنوب کی جانب چلنے والی ’’پولر جیٹ سٹریم‘‘ پر پڑا جو مسلسل طاقت و ر ہوتی گئی۔ یہ جیٹ سٹریم انتہائی بلندی پر ہوا کے ایک بہتے دریا کی مانند ہوتی ہے جو گرم اور ٹھنڈی ہوا کے درمیان باڑ کا کام دیتی ہے۔
ہوا کا درجۂ حرارت بڑھنے سے اس کا دباؤ بڑھتا ہے جو کسی بھی علاقے کے موسم میں فوری اورشدید تبدیلی کا سبب بنتا ہے۔ اس کے علاوہ پولر جیٹ سٹریم کے طاقتور ہونے سے ماحول کا کرنٹ (ایٹموسفیرک کرنٹ) کمزور ہوگیا جو طوفان، ٹورناڈوز ،یا سائیکلون بننے کے خلاف مزاحمت کرتا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ایک دہائی سے امریکی ریاستوں اور یورپی ممالک کو شدید موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے ، موسم ِ سرما میں برفانی طوفان نظام ِ زندگی مفلوج کرنے کا سبب بن رہے ہیں تو گرمیوں میں سمندری طوفان، ٹورناڈوز معمول بنتے جا رہے ہیں جبکہ ایشیائی ممالک میں بارشوں کی قلت کی وجہ سے خشک سالی بڑھ رہی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی کے اتنے سنگِ میل عبور کر لینےاور ورچوئل رئیلیٹی کی طرز پر شہر کے شہر بسا نےجیسے منصوبوں پر مصروف ِ عمل ہونے کے باوجود آخر آج کا انسان قدرتی آفات کے سامنے اتنا بے بس کیوں ہے؟
ہاروے سے پہلے 2011 میں ٹراپیکل سٹورم’ایلیسن‘ سمیت کئی آفات آکر گزر چکی تھیں اور جو موسمیاتی تبدیلیاں حالیہ طوفان کا سبب بنی وہ بھی آئی یو سی این، ناسا اور دنیا بھر کے ماہرین ِماحولیات سے ہر گز پوشیدہ نہیں تھیں، ہم جانتے تھے کہ اس برس نہیں تو چند برس بعد ایسا ہوگا ،اس کے باوجود شدید سیلابی صورتحال یا مالی نقصان سے بچنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں کئے گئے۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ اپنے طرز ِزندگی کو زیادہ پر آسائش ، آرام دہ اور سہل بنانے کے چکر میں ہم اس قدرتی نظام کو تباہ کرتے جا رہے ہیں جو ڈیزاسٹر کے لیے ایک قدرتی ڈھال کا کام دیتا تھا ۔ یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ بڑے ڈیمز ، پانی کے ذخائر اور پاور پمپنگ ( پن بجلی کے آلات) کی تنصیبات سیلابی صورتحال کو مزید خراب اور تباہ کن بنانےکا سبب بن رہی ہیں ۔جس کی ایک مثال ہوسٹن ہے جو رقبے کے لحاظ سے امریکہ کا چوتھا بڑا شہر ہے جسےشاید اب پہلی حالت میں واپس لانا ممکن نہ ہو۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹیکساس ہو یا ہوسٹن ، یا کسی ترقی پزیر ملک کا کوئی چھوٹا شہر، وہاں ہاروے جیسا کیٹیگری فور سمندری طوفان تباہی کی نئی داستانیں رقم کر گیا ہو ، کوئی ٹراپیکل سٹورم یا زلزلے کے جھٹکے ۔۔ ناگہانی بلا کے ٹل جانے کے بعد جب از سر ِ نو آبادکاری کا آغاز کیا جاتا ہے تو ان امور کو مدِنظر رکھا جائے جن کے ذریعے آئندہ کسی ایسی بد ترین صورتحال سے بہتر طور پر نمٹا جا سکے اور پلاننگ میں ان غلطیوں کو ہر گز نہ دوہرایا جائے جو زیادہ جانی یا مالی نقصان کا سبب بنیں۔
ہوسٹن اور ٹیکساس دنیا کے جدید شہروں میں شمار کیے جاتے تھے جہاں رہائش کو مزید آرام دہ ، پر آسائش اور ایک خوابی دنیا بنانے کےلیے معروف تعمیراتی کمپنیاں سر گرم تھیں مگر صرف پانچ دن کی طوفانی برسات نے عشروں کی پلاننگ پر پانی پھر دیا ۔
موجودہ صورتحال صرف امریکہ کے لیئے لمحۂ فکریہ نہیں ہے کہ تقریبا ََ دو سو بلین ڈالر کے مالی خسارے اور ملکی معیشت پر پڑنے والے برے اثرات سے کس طرح نمٹنا ہے۔لا محالہ اس کی زد میں یورپی اور ایشیائی ممالک بھی آئیں گے مگر مالی خسارےاور ڈوبتی معیشت سے قطعہ نظر انسانیت کے رشتے سے دوسرے ممالک کا اولین فرض ہے کہ امریکہ سمیت کسی بھی دوسرے ملک پر نازل ہونے والی ایسی ناگہانی آفت میں اس کا بھرپور ساتھ دیں کیونکہ کل یہ برا وقت ان پر بھی آسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ ہر ملک پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ انفرادی طور پر اپنے انفرا سٹرکچر ، شہروں کی ڈیزائننگ و پلاننگ ، ڈیمز کی تعمیر اور پاور پمپنگ تنصیبات وغیرہ میں ان امور کو ملحوظ ِ خاطر رکھیں جن کے باعث ہوسٹن اور ٹیکساس غرقِ آب ہوئے۔
میرے اپنے وطن پاکستان میں تجارتی سرگرمیوں کے مرکز شہر ِ کراچی کو گزشتہ ہفتے چند گھنٹوں کی موسلا دھار بارشوں کے بعد شدید شہری سیلابی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ ا جو نظام ِ زندگی کو مفلوج کرنے کا سبب بنا اور کئی دن تک مڈل کلاس اور کچی آبادیوں کے مکین اپنے گھروں میں محصور رہنے پر مجبور ہوگئے۔ اس کا اندوہناک پہلو یہ ہے کہ حکومتی مشینری اس طرح کی کسی بھی ناگہانی صورتحال سے نمٹنے سے قاصر ہے اور کوتاہی کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈال کر ہر کوئی برالذمہ ہو جاتا ہے ۔
اگرچہ کئی برس سے بارشوں کی قلت کے باعث سندھ اور پنجاب کو خشک سالی کا سامنا ہے مگر یہ امر قابل ِ ذکر ہے کہ 2010 کے بدترین سیلاب کے بعد حکومت سات برس میں بھی اس حوالے سے مؤثر انتظامات کرنے سے قاصر رہی ہے۔ نہ صرف جنگلات کا کٹاؤ جوں کا توں جاری ہے جو سیلاب میں قدرتی ڈھال کا کام دیتے ہیں بلکہ بڑے شہروں میں آلودگی کی شرح پہلے کی نسبت دوگنی ، چوگنی ہوچکی ہے۔
اس کے علاوہ کئی برس سے بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے دریائے سندھ کا طاس تقریبا ََ خشک ہو گیا ہے اور بڑی تعداد میں خانہ بدوش یہاں رہائش اختیار کر چکے ہیں ۔ اگر کسی وقت 2010 جیسا کوئی مون سون سسٹم اچانک نمودار ہوکر دھواں دار برس پڑا تو قوی امکان ہے کہ پہلے سے زیادہ جانی نقصان ہوگا ۔ سرکاری اعدا و شمار کے مطابق 2010 میں محض تین دن کی طوفانی بارشوں کے نتیجے میں ستائیس بلین سے زائد افراد متاثر ہوئےاور ہزاروں ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں جن سے ملکی جی ڈی پی پر شدید منفی اثر پڑا تھا ۔
اگرچہ بعد کی حکومتوں کی طرف سے ’نیشنل فلڈپروگرام ‘ اور ایک بھرپور پالیسی بنانے کا اعلان کیا جاتا رہا ہے مگر اب تک یہ محض کاغذی کاروائیوں تک محدود ہے اور اتنے برسوں میں انفامیشن ٹیکنالوجی کی روز افزوں ترقی کے باوجود ہم اب تک کوئی ’ارلی وارننگ سسٹم‘بھی نہیں بنا سکے ۔ جبکہ فی الوقت کئی برسوں سے بارشوں کی کمی کے باعث بلوچستان ہی نہیں سندھ اور پنجاب بھی شدید خشک سالی کا شکار ہیں اور اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ بھارت میں دو نئے ڈیمز کی تعمیر کے بعد پاکستان میں پانی کا یہ بحران مزید بدترین ہو جائے گا ، مگر ہمارے ارباب ِ اختیار نے نہ تو اس صورتحال سے نمٹنے کی کوئی مناسب منصوبہ بندی کی ہے نہ ہی پانی کے متبادل ذخائر تلاش کرنے کی کوئی کوشش کی جارہی ہے ۔
قدرتی آفات ہمارا ہی نہیں پوری دنیا کا مشترکہ المیہ ہیں اور المیے رونما ہوتے رہتے ہیں اگر ان کو روکنا ممکن نہ ہو تو ان سے بچاؤ اور حفاظت کے لیے منصوبہ بندی ناگزیر ٹھہرتی ہے۔ فیصلہ وقت کے نہیں انسان کے اپنے ہاتھ میں ہےاور یقینا ََ کرۂ ارض کی بقا اس کے قدرتی نظام کی بحالی میں ہے۔