نسل ِانسانی ہزاروں سال کے ارتقائی عمل کےبعد اگر ایک جانب تہذیب وتمدن کی انتہائی بلندیوں پر براجمان ہےتودوسری جانب سائنسی ترقی سے کشش ِثقل کی طنابیں توڑنے سے لے کر چاند اور مریخ پر کامیاب مشن بھیجنے کے بعد اب اس کی نظریں اپنے نظام شمسی سے بھی آگے ایسے ستاروں اور سیاروں کو تلاش کررہی ہیں جہاں زندگی کے امکانات موجود ہوں۔
وائجر ٹو -خلائی اسٹیشن بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے انسانی ہاتھوں سے تشکیل پانے والا یہ خلائی اسٹیشن ہماری نظام شمسی کو عبور کر چکا ہے۔ عین ممکن ہے کہ کسی دن اس کے سگنل ہمیں ہمارے علاوہ اس کائنات میں کسی دوسری ذی حیات کا پتہ دے دیں۔لیکن اس میں کئی ہزار یا لاکھ سال بھی لگ سکتے ہیں اورایسا بھی عین ممکن ہےکہ اس سے پہلے ہی نسل انسانی صفحہ کائنات سے معدوم ہوجائے۔
قیامت کے آنے میں صرف 100 سال باقی؟
میرے اس بلاگ کا موضوع یہی ہے جس کو ہم آگے جاکر زیرِ بحث لائیں گے اس سے پہلے وائجر ۲ کے متعلق کچھ اہم اور دلچسپ معلومات سے آپ کو آگاہی فراہم کردیں۔ اگست 1977 میں چھوڑے جانا والا یہ خلائی اسٹیش اس وقت زمین سے ایک کروڑ ساٹھ لاکھ کلومیٹر دور ہماری گلیکسی کے سب سے چمکدار سیارے سائرس کی جانب رواں دواں ہے ۔
یہ اگلے دس سال تک زمیں پر سگنل بھیجتا رہے گا کوئی کمانڈ جو امریکی ادارے ناسا کی جانب سے بھیجی جاتی ہے یا وائجر بھیجتا ہےوہ چودہ گھنٹے کے بعد اس تک پہنچتی یا موصول ہوتی ہے ۔ امریکی سائنسدانوں کا وائجر۲کو بھیجنے کا مقصد کائنات میں کسی دوسری زندگی کا کھوج لگانا یا اگر کوئی ذی شعور مخلوق کہیں موجود ہے تو اس کو اپنا پتا دینا تھا ۔ لیکن کائنات کے راز سے پردہ ابھی اٹھا بھی نہیں کہ نسل انسانی کو ایک بڑے خطرے کا احساس ہوا جب دنیا کے سائنسدانوں نے یہ انکشاف کیا کہ ہمارا یہ سیارہ جس پر ہم کروڑوں سال سے رہ رہے ہیں تباہ ہوجائے گا ۔اس کی وجوہات میں ماحولیاتی تبدلیاں ، مائنگ ( کانوں سے معدنیات وغیرہ نکالنا ) ، بہت بڑے پیمانے پر زلزلوں کا ایک سلسلہ شروع ہو جانا، کوئی خوفناک ایٹمی جنگ یا خلا سے گرنے والے شہاب ثاقب کی بارش بھی ہوسکتی ہے۔
خلائی مخلوق کو بلانا خطرناک اورزمین کی تباہی کا سبب
اس صدی کے سب سے ذہین دماغ اورسائنسداں ‘ اسٹیفن ہاکنگ نے اس تباہی کے آنے کا وقت تک کا تعین بھی کردیا ہے اس کا کہنا ہے کہ یہ دنیا اگلے ایک ہزار سال تک ختم ہو جائے گے اس سے پہلے پہلے اگر نسل ِانسانی نے اپنا کوئی نیا مسکن تلاش نہ کیا تو وہ اس کائنات سےہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی ۔
اشرف المخلوقات انسان سائنس کے ان انکشافات کو نظر انداز نہیں کر رہے ‘ خاص طور پر ترقی یافتہ قوموں نے اپنے آنے والی نسلوں کو اس خطرے سے بچانے کے لئے خفیہ اور ظاہراً کام شروع کردیا ہے خواہ اس میں کئی صدیاں لگ سکتی ہیں۔ لیکن امریکہ ‘کینیڈا‘ ناروے اور آسٹریلیا جیسے ملک تو بہت پہلے سے کروڑوں ڈالر اس ریسرچ پر خرچ کررہے ہیں کہ ایسی تباہی کی صورت میں کیسے اپنی نسلوں کو بچایا جاسکے گا۔
امریکی ادارے ناسا نے چاند پر انسان کو اتارنے کے بعد بغیر انسان کے اپنی خلائی مشین مریخ پر بھیج دی ہے جہاں سے چوبیس گھنٹے اس سیارے کی معلومات حاصل کی جارہی ہیں امریکی سائنسدان خلا میں اپنے اگلے سفر پر روانہ ہونے کے لئے مریخ کو اپنا پہلا قدم قرار دیتے ہیں سب سے پہلے یہاں پر انسان کے رہنے کے قابل اسٹیشن بنانے پرکام ہورہا ہے ۔ اس مفروضہ پر بھی کام کیا جارہا ہے کہ خلا میں ہی ایسے خلائی اسٹیشن بنائے جائیں جہاں انسان لمبے عرصہ تک قیام کرسکے۔ تاکہ زمین پر اگر کوئی آفت آتی ہے تو کم از کم انسانی نسل کو بچانے کے لئے وہاں چند سو افراد کو ہی بچایا جاسکےغرض یہ اقوام آئندہ ایک ہزار سال کی منصوبہ بندیاں کررہی ہیں۔
چینی خلائی جہاز پر خلائی مخلوق کی دستک
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ترقی یافتہ قومیں تو یقیناً کوئی راستہ تلاش کر ہی لیں گی لیکن ترقی پذیر اقوام جو کہ شاید اگلے پانچ سو سال بھی اپنے اندرونی معاملات میں الجھی رہیں گی، جیسا کہ ان قوموں کے رویے سے لگ رہا ہے وہ اس وقت کیا کریں گی اور کیا یہ ترقی یافتہ قومیں انھیں اس تباہ ہوتے سیارہ پر چھوڑ کر چلے جائیں گی۔
در حقیقت ایسا ہی ہوگا اور یہ سائنسی طور پر پسماندہ قومیں جن کے آباو جداد صدیوں تک خیالی نظریات کی بنا پرآپس میں دست گریبان رہے ۔ مذہب ‘ رنگ نسل اور زبان کی بنا پر ایک دوسرے کے گلے کاٹتے رہیں‘ ایسی جنگیں لڑتی رہیں جن کا ان کو کوئی فائدہ نہ ہوا سوائے ہزاروں انسان مروانے اور مالی نقصان کروانے کے۔ وہ یہ ضرور سوچیں گے کہ کاش ہمارے اجدادبھی فلسفہ‘ منطق‘ اخلاقیات اور دلیل و تجربہ کے مراحل طے کرتے ہوئے سائنسی ترقی کی طرف توجہ دیتے اور ہم ان کی سائنسی ترقی کی بدولت کائنات میں کہیں دوسرے سیارے یا خلائی اسٹیشن پراپنی نسل کو منتقل کرسکتے ۔ کوئی خلائی اسٹیشن اکیسوی صدی میں ہمارے اجداد نےبھی بھیجا ہوتا تو جو آج ہمارے کام آتا اور ہماری نسل بچ جاتی۔