The news is by your side.

پاکستانی حکمرانوں کے لیے ڈوب مرنے کا مقام

طحٰہ طارق

میں جب جرمن پارلیمنٹ کا چار دن کے لئیے عزازی رکن بنا تو میں نے سوچا کہ ایک وہ دن تھا ‘ جب ہمارے پاکستانی حکمرانوں کے سامنے لوگ جھکتے تھے اور ان کو بہت عزت دی جاتی تھی لیکن آج انڈیا کو ہم سے زیادہ طاقتور سمجھا جاتا ہے۔میرا آج کا یہ آرٹیکل بھی اسی کے بارے میں ہے تا کہ میں ہمارے پاکستانی حکمرانوں کو وہ دن یاد دلا سکوں۔

سنہ 1945 میں جب پاکستان بن رہا تھا ‘ تب جرمنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا تھا۔ دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی، ہٹلر نے خود کشی کر لی اورجرمنی کی فوج ختم ہو گئی تھی۔ ملک مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی دو حصوں میں تقسیم ہو گیا، جرمنی کے 114 چھوٹے بڑے شہر تباہ ہوچکے تھے اور ملک کی 20 فیصد عمارتیں مکمل طور پر ختم ہو گئی تھی ۔

زراعت 65 فیصد کم ہو گئی. بجلی بند تھی، سڑکیں تباہ تھیں، کرنسی ختم ہو چکی تھی، لوگ خریدو فروخت کے لئے چیزیں دے کر چیزیں لیتے تھے۔ سنہ 1962 تک جرمنی امداد پر چلنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک تھا، امریکہ سمیت دنیا کے 14 ممالک جرمنی کو امداد دیتے تھے اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ان امداد دینے والے ممالک میں ہمارا ملک پاکستان بھی شامل تھا۔

ایوب خان کے دور میں پاکستان نے بیس سال کے لئے جرمن کو 12 کروڑ روپے قرض دیا تھا اور جرمن چانسلر نے اس مہربانی پر حکومتِ پاکستان کا باقاعدہ شکریہ ادا کیا۔

شکریہ کا وہ خط آج بھی ہماری وزارت خارجہ کے پاس محفوظ ہے۔ 60 کی دہائی تک جرمنی کی حالت یہ تھی کہ جرمن حکومت نے پاکستان سے دس ہزار ہنرمند مانگے لیکن پاکستان نے اپنے ورکرز جرمنی بھجوانے سے انکار کر دیا۔ جرمنی نے اس کے بعد ترکی سے درخواست کی‘ ترکی کو جرمنی پر ترس آ گیا، اور وہاں کے لوگ جرمنی کی مدد کے لئے وہاں پہنچے۔ یہ میں نے اپ کو50 سال قبل جرمنی کی حالت بتائی ہے لیکن آج کیا صورتحال ہے آپ سن کر حیران ہو جائیں گے۔

آج جرمنی دنیا کی چوتھی بڑی معیشت ہے، ہم 41 نمبر پر ہیں. جرمنی کا جی ڈی پی3400 بلین ڈالر ہے اور ہمارا صرف 271 ڈالر۔ جرمنی کی سالانہ برآمدات 2100 ارب ڈالر ہیں جبکہ ہماری برآمدات کا حجم صرف 29 ارب ڈالر ہے۔ جرمنی کی فی کس آمدنی 41178 ڈالر ہے جبکہ ہماری فی کس آمدنی 1434 ڈالر ۔

آپ تصور کیجیے کہ ٥٠ سال پہلے ہم نے جرمنی کو ١٢ کروڑ روپے قرض دیا تھا جبکہ آج جرمنی روزانہ ١٢ کروڑ روپے کی پیپر پن بناتا ہے. وہ کہاں ہے اور ہم کہاں ہیں ؟ ہم یہاں کیوں ہیں ؟ اس کی وجہ جرمنی کے حکمرانوں کی سادگی ہے۔

انجیلا مرکل جو کہ جرمن یکی چانسلر ہیں‘ ان کی ایک فوٹو بڑی مشہور ہوئی تھی جس میں وہ خود کافی بنا کر فرانس کے صدر کو دے رہی ہیں۔ قومیں ان رویوں سے ترقی کرتی ہیں۔ حکمران اگر ایسی سادگی اختیار کر لیں تو جرمنی، جرمنی بن جاتا ہے اور اگر حکمران یہ رویے اختیار نہ کریں تو قرضے دینے والے ملک پاکستان بن جاتے ہیں۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

 

شاید آپ یہ بھی پسند کریں